ذاتیات میں مداخلت

Allah

Allah

تحریر: ابنِ نیاز
شروع اللہ کے پاک نام سے جو دلوں کے بھید بہتر جانتا ہے۔ دیکھتی آنکھوں، پڑھتی زبانوں، آپ کو ابنِ نیاز کا سلام پہنچے۔ پچھلے چند دنوں میں چند باتیں ایسی ہوئیں کہ مجھے لگا کہ آپ کے ساتھ شیئر کروں۔ پتہ نہیں میں صحیح ہوں یا نہیں لیکن دل نے چاہا کہ آپ سے بھی رائے لے لوں۔

لوگ پتہ نہیں کسی کی ذاتیات میں کیوں دخل اندازی کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ اور نہ صرف حق سمجھتے ہیں بلکہ آپ سے یوں بات کرتے ہیں جیسے اگر انھوں نے یہ بات نہ کی تو معلوم نہیں کتنا نقصان ہو جائے گا۔ چلیں یہاں تک تو ٹھیک ہے کہ آپ نے کسی سے اپنی ذات کے بارے میں بات کی ، یا اس سے کسی ذاتی مسلے پر بحث کی،اور انھوں نے تنقید کا نشانہ بنانا شروع کر دیا، اور آپ پچھتانے لگے کہ آخر آپ نے چھیڑی تو کیوں یہ بات چھیڑی۔ لیکن یہاں تو گنگا ہی الٹی بہتی ہے۔

ہوا کچھ یوں کہ میں نے اپنے لیے کپڑوں کا ایک جوڑا سلوایا۔ اسکا ہلکا بادامی رنگ مردوں کے لیے تھوڑا یونیک سا تھا کہ کم از کم شہر کے لوگ شاید اس طرح کا رنگ نہ پہنتے ہوں۔ کپڑے تو کپڑے ہوتے ہیں، اوپر سے میری عادت نہیں اپنے آپ کو ٹیپ ٹاپ رکھنے کی۔ بس جو ملا پہن لیا، اتنا ضرور خیال رہتا ہے کہ استری ہوں اور کہیں سے پھٹے ہوئے نہ ہوں کیونکہ آفس کا بھی تھوڑا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ ورنہ لوگوں کی پروا میں نے کم از کم اپنی اس طرح کے ذاتی معاملات میں کبھی نہیں کی۔ اگر کسی نے کہا کہ یہ سوٹ آپ پر اچھا نہیں لگتا تو میری بلا سے نہ لگے۔ یہ جوتے ٹھیک نہیں تو نہ سہی۔ مجھے تو اچھے لگتے ہیں۔ تو ہوا یوں کہ وہ لباس جو کہ شلوار قمیض پر مشتمل تھا ، میں پہن کر آفس چلا گیا۔ سب سے پہلے تو صدر دروازے پر کھڑے دربان نے کچھ اس طرح دیکھا کہ میں اپنے آپ کو دیکھنے پر مجبور ہو گیا کہ کہیں کپڑے پر کوئی داغ وغیرہ تو نہیں لگ گیا یا کہیں سے پھٹ تو نہیں گیا۔ لیکن ایسی کوئی بات مجھے نظر نہ آئی۔ خیر انکی نظروں کو نطر انداز کر کے آفس اپنی سیٹ کی طرف بڑھ گیا۔ سب سے پہلے اپنے ہی سیکشن کے کولیگ نے خوبصورت الفا ظ سے نوازا۔ واہ! کیا یونیک رنگ پہنا ہوا ہے۔ اچھا جی۔ چلیں آپ نے کہا ہم نے مان لیا، ورنہ تو ایسی کوئی بات نہیں۔ پھر ایک آفس اٹننڈنٹ کا پاس سے گزر ہوا تو کہنے لگا ارے سر ؟ کیا کسی زردے کی دیگ سے نکل کرآرہے ہیں؟ ہیں۔ یہ کیا؟ خیر میں نے اسکی بات کو سنی ان سنی کر دیا۔ تھوڑی دیر گزری تو ایک آفیسر صاحب گویا ہوئے۔بیٹا جی! اگر آپ کے ہاتھ میں ایک عدد گن دے کر آپ کو گیٹ پر گارڈ کی جگہ کھڑا کر دیا جائے تو کوئی نہیں کہے گا کہ آپ گارڈ نہیں ہو۔ میں مسکرا دیا۔ دو تین گھنٹے اور گزر گئے۔ لنچ کا وقت ہوا۔ ہوٹل پر بیٹھے کھانا کھا رہا تھا کہ دو اور آفس کے ساتھی بھی وہاں آئے۔ مجھے دیکھا تو اسی ٹیبل پر ساتھ ہی بیٹھ گئے۔ اب یہ نہیں دیکھا کہ کھلی جگہ ہے۔ دوسرے لوگ بھی بیٹھے ہیں۔ کہنے لگے۔ آج خیریت تو ہے نہ لگتا ہے کہ کسی پنڈ کی کسی خاتون سے کپڑے سلوائے ہیں یا پنڈ کی کسی لڑکی نے گفٹ دیے ہیں۔ حسب عادت مسکرا کر چپ کر گیا۔ جب کہ ارد گرد موجود دوسرے لوگ بھی مجھے گھور کر دیکھنے لگے۔ ایک سے تو رہا نہ گیا ، جھٹ سے کہا کہ واقعی کیا ایسے کپڑے مردوں کو اچھے لگتے ہیں۔ قارئین یہ بتا دوں کہ اس رنگ میں کوئی ایسی بات نہیں تھی جو صرف عورتوں کے لیے ہوتی۔ جسطرح بادام کا اوپر والا چھلکا ہوتا ہے وہ کلر تھا۔ بس تھوڑا سا تیز تھا۔ اس شخص کی بات سن کر بھی میں نے کچھ نہ کہا۔ کیونکہ جتنا آپ لوگوں کے ایسے تبصروں کے جوابات دیں گے یا ایسی باتوں سے چڑیں گے وہ مزید آپ کو تنگ کریں گے، اور کوشش کریں گے کہ آپ کو اس حد تک لے جائیں جہاں آپ آپے سے باہر ہو جائے، اگر چہ یہ غیر اختیاری طور پر ہو گا لیکن ہوتا ہے۔

Personal

Personal

دوسری بات جو ہوئی وہ سر کے بالوں کے حوالے سے ہے۔ سر کے بال ویسے تو ہیں ہی کم کم۔ بقول انکل سرگم، آدھا گنجا آدھا بالم۔ تو جو تھے وہ کچھ زیادہ بڑھ گئے تھے۔ گرمی کے موسم میں باقیوں کا تو پتہ نہیں لیکن میں ضرور تنگ ہوتا ہوں تو اکثر چھوٹے کرا لیتا ہوں۔ اس بار معلوم نہیں کیا موڈ بنا کہ آرمی کٹ کروا لی۔ اوپر سے بال بھی چھوٹے کروالیے۔ اتنے چھوٹے کہ کنگھی کی ضرورت ہی نہیں رہی۔ یہ تراش خراش ویک اینڈ پر کرائی۔ سوموار کے دن جب آفس آیا تو سلام نہ دعا، ارے صاحب یہ کس نائی کے سامنے بیٹھ گئے تھے یا خود ہی مشق کی ہے۔ اب کوئی بتائے کہ بتائوں کیا؟ ایک دوسرے نے دیکھا۔ ارے یہ کیا، سر کے بال کدھر گئے؟ ایک اور کی باری آئی۔ سر جی، اگر بال اسی طرح ہی کٹوانے تھے تو مجھے کہہ دیتے۔ میں اس سوچ میں پڑ گیا کہ شاید ان میں سے کوئی بھی اپنے بال نہ کٹواتا ہو، خود ہی کٹ کٹ کر گرتے ہوں گے۔ کبھی کسی نے اپنا سر صفا چٹ نہ کروایا ہو گا۔ کسی نے بھی کبھی بال چھوٹے نہ کروائے ہوں گے۔

ایک مشہور شوز کی فرنچائز سے جوتے خریدے۔ جس نے دیکھا تو جھٹ سے بولا سر جی ، صاحب جی ، جس لنڈے سے یہ جوتے خریدے ہیں ہمارے لیے بھی لے آئیں۔ یہ بات سن کر تو میرے قہقہے ہی نکل گئے کہ زندگی میں پہلی بار اصلی قیمتی اور کسی کمپنی کے معیاری جوتے خریدے تھے وہ لنڈے کے مال میں شمار ہونے لگ گئے ہیں۔ اور اس پہلے زیادہ تر لنڈے کے جوتے پہنے کسی کو بھی نہیں لگا۔ واہ رے تیری قسمت ابنِ نیاز صاحب۔ ایک نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ لگتا ہے بیگم کے بھائیوں کے جوتے اٹھا کر لے آئے ہیں۔ بندہ جائے تے کتھے جائے۔۔

سوال یہ ہے کہ یہ تینوں چیزیں میری ذاتی استعمال میں تھیں۔ مجھے پسند تھیں۔ تو کیا لوگوں کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ مجھ پر بلاوجہ تنقید کریں۔ جبکہ ان چیزوں کے میرے استعمال سے کسی کو بھی رتی پھر بھی نقصان پہنچنے کا خدشہ بھی نہیں۔ یہ تو اچھا ہے کہ میری طبیعت ایسی ہے کہ اسی باتوں کو ہمیشہ سے نظر انداز کرتا آیا ہوں۔ کیونکہ لوگوں کی اگر سننے لگوں تو لوگ تو اس دنیا میں جینے بھی نہیں دیتے۔ میرے والد مرحوم نے یہ سبق دیا تھا کہ بیٹا سنو سب کی لیکن کرو وہ جو من چاہے۔ تب سے کسی سے ایسی بات پر کبھی بھی بحث تک نہیں ہوئی ، لڑائی ہونا تو دور کی بات۔ لیکن میرا سوال ہنوز قائم ہے کہ کیوں لوگ اپنے کام سے کام نہیں رکھتے۔ کیوں دوسروں کی بالکل ذاتی معاملات میں دخل اندازی کرتے ہیں؟ کوئی جواب دے سکتا ہے۔۔۔۔

Ibn e Niaz

Ibn e Niaz

تحریر: ابنِ نیاز