تحریر : الیاس محمد حسین آج ہماری دنیا میں سوچنے والے کم، اور غورو فکر کرنے والے اس سے بھی کم بلکہ خال خال رہ گئے ہیں حالانکہ مومن کیلئے انتہائی ضروری ہے جو سوچتا نہیں حال مست مال مست کی طرح ہے اپنی ذات کے خول میں بند دوسروں کے بارے سوچنا،ان کے دکھ درد میں شریک ہونا انسانیت کا تقاضا ہے اور ایک مسلمان کا شیوہ ۔۔۔لیکن اب دن رات مال جمع کرنے کی فکر، دولت کمانے کے جائز ناجائز طریقوںپر غور ہی انسان کے دل و دماغ پر حاوی رہتاہے آپ کو دوسروں سے کچھ تو مختلف نظر آنا چاہیے صرف اپنے متعلق سو چنا رہبانیت ہے اسلام اس کے سخت خلاف ہے کیونکہ رہبانیت تو انسانیت کی دشمن ہے اچھا آج سے آپ ایک کام کریں روزانہ اور تسلسل کے ساتھ۔۔۔اپنے گلی محلے یا جاننے والوں میں جو کم وسائل ہیں یا جن کے بیشتر فیملی ممبر بیرون ِ ممالک روزگار کیلئے گئے ہوئے ہیں ان سے علیک سلیک تھوڑی سی بڑھا دیں آج ہمارے معاشرے میں اکثر لوگ تنہائی کے مارے ہوئے ہیں وہ خوشگوارزندگی جینا چاہتے ہیں کسی بیمار کا آپ حال چال دریافت کرلیں گے یا کسی سے ہنس کر دو باتیں ۔۔۔تہ یقین جانئے آپ دونوں پر اس کا خوشگوار اثر پڑے گا ایک پنجابی شاعر نے کیا خوب کہا ہے جیون اے دکھ ونڈانا۔۔ تے اگ بیگانی سڑنا مرنے دی خاطر جینا ۔۔ تے جینے دی خاطر مرنا جیون اے ڈھینا ڈھونا جیون اے کھینا کھونا جیون اے ٹردے رہنا۔۔ تے کوئی پڑا نہ کرنا
ایک دوسرے کے کام آنا ایک اچھے معاشرہ کی تشکیل کا بنیادی نقطہ ٔ آغازہے د نیا کے ہر مذہب۔۔ہر نبی اور درددل رکھنے والے نے انسانیت کی بلا امیتاز خدمت کی تلقین کی ہے دین اسلام تو ہے ہی سراسر انسانیت کی فلاح کا مذہب ہے بدقسمتی سے انتہا پسندوںنے اسلامی تعلیمات کو مسخ کرکے رکھ دیا ہے پاکستان میں تو یہ صورت ِ حال مزید ابتر ہوگئی ہے حالانکہ ملکی ترقی و خوشحالی کیلئے آج ہمیں ایک قوم بننے کی ضرورت پہلے سے بھی کئی گنا زیادہ ہے اخوت اس کو کہتے ہیں ،کانٹا چبھے جو کابل میں عرب کا ہر پیرو جواں بے تاب ہو جائے
بدقسمتی سے ہم ایک قوم کے تقاضوں پر پورے نہیں اترتے مجھے تو محسوس ہوتا ہے جیسے ہم سب ہجوم ہیں، تماشائی ہیں ایک دوسرے کو دکھ میں مبتلا دیکھ کر خوش ہوتے رہتے ہیں اس کیفیت سے باہر نکلنے کیلئے کچھ نہیں کرتے۔ ہم قوم اس وقت بن سکتے ہیں جب لالچ ، بغض،مفادپرستی کے خول سے باہر آجائیں ہم الحمداللہ مسلمان ہیں اور مسلمان کا سب سے بڑا وصف اخوت ہے،ہمدردی ہے، ایثار ہے، قربانی ہے اور محبت ہے اور یہی پیغام خلیل اللہ ہے ،ہرعید کا درس ہے اور نبی معظم کی تعلیمات۔۔۔ جن کو ہم نے فراموش کردیا ہے درددِل کے واسطے پیدا کیا انسان کو ورنہ طاعت کیلئے کم نہ تھے کروبیاں
Muslim
ہر شخص بالخصوص ہر مسلمان میں یہی جذبہ کارفرما ہونا چاہیے کہ جس سے جتنی ہو سکے دکھی انسانیت کی خدمت ضرور کرے بلا شبہ اللہ رب العزت دلوں کے بھید جانتے ہیں ہمیں خلوص نیت سے بے لوث خدمت کرنا ہوگی ۔۔ہردل کی خواہش ہونی چاہیے کہ میں کسی کے کام آسکوں۔ بے بس ،اپنے سے کمزور اور معاشرہ کے کچلے اور سسکتے لوگوںکی دعائیں لینا ہے اس میں کوئی سیاست ، کوئی نمائش نہیں ہونی چاہیے یہ عمل صرف اور صرف اللہ اور اس کے پیارے حبیب ۖ کی خوشنودی کیلئے ہے کیونکہ اللہ تبارک تعالیٰ نے انسان کو ایثار و محبت کیلئے منتخب کیا یہی جذبہ اس کی تخلیق کی بنیادہے ہم تو پھر مسلمان ہیں جن کو حکم ہے کہ اگر تمہارا ہمسایہ بھوکا ہے تو تم کامل مسلمان نہیں۔ وہ سفید پوش ،غریب ،مستحقین ، نادار لوگ جو کم وسائل کی وجہ سے بے بس ہوگئے ہیں وہی عظیم جس نے نئی شمع اک جلادی
کے مصداق معاشرہ کے مخیر اور دل میں درد رکھنے والے ان کی بلا امتیاز خدمت کریں میرے خیال میں یہی عبادت ہے۔۔امام غزالی فرماتے ہیں اللہ تبارک تعالیٰ کو عا جز لوگ بہت پسندہیں لیکن دولت مند عاجز انتہائی پسند ہیں جو لوگ مرنے کے بعد زندہ رہنا چاہتے ہیں انہیں چاہیے کہ صالح اعمال کریں کیونکہ درخت اپنے پھل اور انسان اپنے عمل سے پہچانا جاتاہے۔ہماری کوشش اور خواہش ہ بس یہی ہونی چاہیے کہ زیادہ سے زیادہ سفید پوش ،غریب ،مستحقین ، نادار لوگ جو کم وسائل رکھتے ہیں کی خدمت کریں تا کہ اللہ اور اس کا رسول راضی ہو سکے یہی ایک مسلمان کا مقصود و حاصل ہے اللہ ہماری عاجزی کو قبول کرے (آمین) اپنے لئے تو سب ہی جیتے ہیں اس جہاں میں ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا
دوسروںکے دکھ سکھ میں شراکت زندگی کی معراج ہے اسی سے اپنی ذات کے خول میں بند لوگوںکی زندگیوں میں انقلاب آ سکتاہے اور نفرتیں کم ہونے میں مدد مل سکتی ہے اور ہمارے ماحول، گھروں اورمعاشرے میں پھیلی مایوسی تحلیل ہو جائے گی کیونکہ صرف اپنے متعلق سو چنا رہبانیت ہے اور ہم نے اس کے خلاف آواز بلند کرتے رہناہے کیا آپ تیار ہیں اس مشن کیلئے؟انسانیت سے پیارکرنے والے اس مقصدکیلئے روزانہ آدھ گھنٹہ بھی وقف کریں تو معاشرہ میں کافی بہتری لائی جا سکتی ہے۔