تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی آخر تاریخ کائنات کی غم ناک ترین ساعت آگئی تھی ‘نسلِ انسانی کے سب سے بڑے انسان رفیق اعلی کے پاس جا چکے تھے۔ درودیوار ساکت تھے۔ عجیب غم اور سناٹے کا علم تھا۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے ہر ذی روح زندگی کی حرارت سے محروم ہو گیا ہو۔ آج عاشقان ِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہروں پر وہ رونق نہیں تھی جِسے زندگی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ غم، جدائی اور اداسیوں کی بارش ہو رہی تھی ہر شے نے ماتمی لباس پہن لیا تھا۔
صحابہ کرام کو محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے نبضِ کائنات تھم سی گئی یہ سانحہ ِ عظیم نہایت کرب ناک جاں گداز و المناک تھا۔عاشقانِ مصطفے ٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جدائی کا کبھی تصور بھی نہ کیا تھا ۔پروانے جدائی کے درد سے نڈھال و دل گرفتہ تھے ۔ہر آنکھ پر نم تھی مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایک ہنگامہ برپا تھا ۔ فوری طور پر یارِ غار حضرت ابو بکر صدیق کو اطلاع دی گئی تو وہ فوری طور پر مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آئے ‘پروانوں کی حالت غیر تھی’ یارِ غار کسی سے بات کیے بغیر حجرہ عائشہ میں محسنِ انسانیت کی خدمت ِ اقدس میں حاضر ہو گئے ‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جسدِ مبارک دھار دار یمنی چادر سے ڈھکا ہوا تھا ۔رخِ انور سے چاد ر ہٹائی جبین ِ اقدس پر بوسہ دیا پھر محبت و عشق کی نظریں نو را نی چہرہ مبارک پر گڑھ گئیں آنکھوں سے اشکوں کا سیلاب بہہ نکلا اور انتہائی کرب ناک آواز میں ادب سے کہا میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قربان ہوں ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر دو موتیں جمع نہیں ہو ں گی جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے مقدر تھی اس کا مزہ چکھ لیا اِس کے بعد پھر کبھی موت نہ آئے گی’ رخِ انور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر چادر ڈالی اور حجرہ مبارک سے باہر تشریف لے گئے اور جدائی اور غم کے سمندر میں ڈوب گئے’ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جدائی کی خبر فوراً پھیل گئی اہلِ مدینہ پر غم کے کئی پہاڑ ٹوٹ پڑے چاروں طرف تاریکیا ں پھیل گئیں ‘حضرت انس فرماتے ہیں جس دن سرورِ دو عالم ہمارے ہاں تشریف لائے اس سے بہتر اور تابناک دن میں نے کبھی نہیں دیکھا اور جس دن رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وفات پائی اس سے زیادہ قبیح اور تاریک دن بھی میں نے نہیں دیکھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لاڈلی بیٹی نے شدت ِ غم نڈھال فرمایا ۔ہا ئے ابا جان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جنہوں نے پروردگار کی پکار پر لبیک کہا ہائے ابا جان ۖ جن کا ٹھکانہ جنت الفردوس ہے ہائے ابا جان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم جبرئیل کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی موت کی خبر دیتے یارِ غار حضرت ابو بکر جو شاعر نہ تھے لیکن ہجر و فراق میں اِس طرح آپ کی جدائی میں بولے۔
کاش موت آتی تو ہم سب کو ایک ساتھ آتی آخر ہم سب اِس زندگی میں بھی ساتھ تھے ‘ اے کاش آپ ۖ کی وفات کے قبل ہی کسی قبر میں اِس طرح دفن ہو جاتا کہ مُجھ پر پتھر ہو تے ۔اے کاش (اسی وقت میں بھی مر گیا ہو تا ) جس وقت مجھے خبر ملی اور لوگوں نے کہا رسول اللہ ۖ انتقال کر گئے ہیں ۔آپ ۖ کے بعد غم و الم کیا کچھ مجھے آزار پہنچاتے رہیں گے جب میں یا دکروں گا کہ اب مجھے کبھی ۖ کا دیدار نصیب ہو گا نبی کریم ۖ کی وفات کی خبر سن کر حضرت عمر جیسے مضبوط دل و دماغ کے ساتھی رسول ۖ کے ہوش گم ہو گئے ۔ انہوں نے کھڑے ہو کر کہنا شروع کر دیا کہ نبی کریم ۖ کی وفات نہیں ہوئی بلکہ آپ ۖ اپنے رب کے پاس تشریف لے گئے ہیں جس طرح موسٰی بن عمران تشریف لے گئے تھے اور پھر چالیس رات غائب رہ کر واپس آگئے تھے ۔ خدا کی قسم رسول کریم ۖ ضرور واپس آئیں گے’ غم و فراق سے عاشقان ِ رسول ۖ کے جگر پارہ پارہ تھے دل و دماغ زخموں سے چور تھے اور آنکھیں دیدارِ شہنشاہ ِ کائنات ۖ سے محروم ہو گئیں تھیں ‘مدینہ کی گلیاں ، کوچے اور راستے اور مسجدِ نبوی ۖ کے مختلف گوشے جہاں آپ ۖ خرام ناز فرمایا کر تے تھے آپ ۖ کی جدائی میں اداس ، غمگین اور نڈھال تھے ۔ حضرت عثمان غنی کو جب رسول کریم ۖ کے وصال کاپتہ چلا تو سناٹے میں آگئے اور چلنے پھرنے کی طاقت نہ رہی اور بے اختیار لبوں سے نکلا۔
Universe
اے میری آنکھ خوب رو اوررونے سے نہ تھک اِ س لیے کہ آقا ۖ پر رونے کا وقت آن پہنچا،حضرت علی نے کیونکہ بچپن و جوانی سب سرورِ دو عالم ۖ کے سایہ عاطفت میں گزارے تھے لہذا اِس جانکاہ صدمہ پر حضرت علی شیرِ خدا پر سکتہ کی سی حالت طاری ہو گئی جدائی کے غم نے شیرِ خدا کو نڈھال کر دیا تھا ۔آپ فرماتے ہیں ان کی موت کے بعد ہم پر ایسی تاریکی چھا گئی جس میں دن کالی رات سے زیادہ تاریک ہو گیا ہائے رات کو آنے والا مجھے جدائی کی خبر دے کر لرزا بر اندام نہ کرتا اور آواز دے کر ساری رات مجھے نہ جگاتا۔ غرض جس نے بھی محسنِ انسانیت کی وفات کی خبر سنی سناٹے میں آگیا ۔آخر حضرت ابو بکر تشریف لائے صحابہ کرام آپ کے گرد جمع ہو گئے تو حضرت ابو بکر صدیق نے فرمایا اما بعد تم میں سے جو شخص محمد ۖ کی پوجا کرتا تھا تو وہ جان لے کہ محمد ۖ کی موت واقع ہو چکی ہے اور تم میں سے جو شخص اللہ کی عبا دت کر تا تھا تو یقینا اللہ ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے کبھی نہیں مرے گا ‘اللہ تعالی کا ارشاد پاک ہے ۔محمد ۖ نہیں ہیںمگر رسول ہی ان سے پہلے بھی بہت رسول گزر چکے ہیں تو کیا اگر وہ محمد ۖ مر جائیں یا ان کی موت واقع ہو جائے یا وہ قتل کر دئیے جائیں توتم لوگ اپنی ایڑ کے بل پلٹ جائو گے ؟اور جو شخص اپنی ایڑ کے بل پلٹ جائے تو (یاد رکھیے کہ) وہ اللہ کو کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتا اور عنقریب اللہ شکر کرنے والوں کو جزا دے گا سرور دو عالم ۖ کے پروانے جو شدتِ غم سے حیران و پریشان تھے انہیں اب حضرت ابو بکر کا خطاب سن کر یقین آگیا کہ محسنِ انسانیت واقعی رحلت فرما چکے ہیں حضرت ابنِ عباس فرماتے ہیں وللہ ایسا لگتا تھا کہ گویا لوگوں نے جانا ہی نہ تھا کہ اللہ نے یہ آیت ناز ل کی ہے اور جیسے ہی ابو بکر نے اِس کی تلا وت کی تو سارے لوگوں نے اُن سے یہ آیت اخذ کی اور جب کسی انسان کو میں سنتا تو وہ اِسی کی تلاوت کر رہا ہوتا ۔حضرت سعید بن مسیب فرماتے ہیں حضرت عمر نے فرمایا وللہ جوں ہی میں نے حضرت ابو بکر کو یہ تلاوت کرتے ہوئے سنا تو انتہائی متحیر اور دہشت زدہ ہو کر رہ گیا حتی کہ میرے پائوں مجھے اٹھا ہی نہیں رہے تھے میں زمین پر گر پڑا کیونکہ میں جان گیا کہ واقعی رسول اللہ ۖ کی موت واقع ہو چکی ہے۔
منگل کے دن نبی کریم ۖکے کپڑے اتارے بغیر آپ ۖ کو غسل دیا گیا یہ عظیم ترین سعادت حضرت عباس حضرت علی حضرت عباس کے دو صاحبزادوں فضل اور قشم اور رسول کریم ۖ کے آزاد کردہ غلاموں حضرت اسامہ بن زید ، شقران اور اوس بن خوبیکے حصے میںآئی’ حضرت عباس ، فضل اور قشم آپ کی کرو ٹ بدل رہے تھے’ حضرت اسامہ اور شقران پانی بہا رہے تھے’ حضرت علی غسل دے رہے تھے اور حضرت اوس نے آپ ۖ کو اپنے سینے سے ٹیک دے رکھی تھی اِس کے بعد آپ ۖ کو سفید یمنی چادروں میں لپیٹ دیا گیا ۔غسل کے بعد پانی کے چندقطرات جو محسنِ کائناتۖکے گوشہ چشمان اور ناف میں جمع ہو گئے تھے وفورِ محبت میں شیرِ خدا نے پی لیے اُن مقدس قطرات کے طفیل حضرت علی کے علم و حفظ میں اور بھی اضافہ ہو گیا۔آپ ۖ کی آخری آرام گاہ کے بارے میں فیصلہ نہیں ہو رہا تھا تو حضرت ابو بکر نے فرمایا میں رسول کریم ۖ کو یہ فرماتے سنا ہے کہ کوئی نبی بھی فوت نہیں ہو امگر اس کی تدفین وہیں ہوئی جہاں فوت ہوا۔اِس کے بعد حضرت ابو طلحہ نے آپ ۖ کا بستر مبارک اٹھا یا جس پر آپ ۖ کی وفات ہوئی تھی پھر اُسی کے نیچے قبر کھودی ۔اِس کے بعد بار ی باری دس صحابہ کرام حجرہ انور میں داخل ہوتے اور نمازِ جنازہ پڑھتے ‘کوئی امام نہ تھا پہلے بنو ہاشم نے نماز ِ جنازہ پڑھی اِس کے بعد مہاجرین نے پھر انصار نے پھر مردوں کے بعد عورتوں اور بچوں نے بھی نماز جنازہ پڑی’ منگل کا سارادن نماز جنازہ میں گزر گیا اور بدھ کی رات آگئی ۔پھر نسلِ انسانی کے سب سے بڑے انسان محسنِ انسانیت ، فخرِ دوعالم ، مر سلین کے تاجدار ، سید ابرار ، نورِ مجسم وجہ باعثِ تخلیقِ کائنات ، فخرِ موجودات ، مظہرِ رحمت ، مخزن رحمت ، محسنِ عالم ، سرور کونین ، محسنِ اعظم ، مجسمِ رحمت ، ہادی عالم رحمتہ للعالمین ، آمنہ کے لال ۖ کے جسدِ اطہر کو حضرت عائشہ کے حجرہ انور میں سپر دِ خاک کر دیا گیا ۔وہ دن اور آج کا دن لاکھوں عاشقان رسول ۖ روزانہ دنیا کے چپے چپے سے روضہ رسول ۖ پر حاضری دینا اپنی زندگی کی سب سے بڑی سعادت اور خوش قسمتی سمجھتے ہیں ۔پوری دنیا سے آئے ہوئے لاکھوں عاشقانِ رسول ۖ کی درود و سلام کی صدائوں سے مسجدِ نبوی ۖ کا کونہ کونہ قیامت تک اِسی طرح مہکتا رہے گا۔
PROF ABDULLAH BHATTI
تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی help@noorekhuda.org