تحریر: شفقت اللہ خان سیال آج یہ کوئی نہیں سوچ رہا ہے۔ کہ میں پہلے اپنے اندر کے کرپٹ انسان کو ختم کرو۔ ہر کوئی ایک دوسرے پر انگلی اٹھا رہا ہے۔آج جس طرف بھی دیکھوں آپ کو ظلم کا ایک نیا افسانہ دیکھنے کو ملے گا ۔یہاں آج کی اس دنیا میں اکثرلوگ ایک دوسرے کو اعتماد میں لے کر اس کی کمر کے پیچھے سے وار کر رہے ہے۔کوئی دوست بن کر تو کوئی بھائی بن کر اصل حقیقت تو یہ رہے گئی ہے ۔کہ جو بھائی اصل میں ہے وہ ہی بھائی ہے اور یہ جو آج کے دوست یا بھائی ہے ۔بس مطلب کے ہے۔ مطلب نکل گیا تو بعد میں تو کون اور میں کون اور یہ اس لیے ہو رہا ہے۔ کہ ہمارے ضمیر مردہ ہو چکے ہے۔اور ہم آج نام کے مسلمان بن کر رہے گئے ہے۔ مگر آج کے اس دور میں اگر کسی جگہ چار لوگ اکھٹے تو بیٹھے نظر آجائے گئے۔ مگر اندر سے ان کا من ایک دوسرے کے لیے صاف نہیں ہوگا۔او آج کے مسلمانوں ہمارئے پیارئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو کہا ۔کہ سب مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہے۔ کوئی گورا ہو یا کالا امیر ہو یا غریب۔مگر یہ آج تم کو کیا ہو کیا ہے۔ آج کوئی زن کے پیچھے کوئی زر کے پیچھے تو کوئی زمین کے کے پیچھے ایک دوسرے کے دشمن بنے ہوئے ہیں۔ ہم کویہ سوچ بھی ختم ہو گئی ہے۔ کہ ہم کس سے لڑ رہے ہے۔ او بندئے خدا کے آخر ایک دن مرنا ہے۔ تو اس وقت اپنے رب کو قبر میں کیا منہ دکھائو گے۔آج ہم اپنی گھوگھلی عزت کی خاطر اپنے ہی مسلمان بھائیوں کو نیچا دیکھنے کی سوچ رہے ہے۔اگر ہم میں کچھ بھی خوف خدا ہوتا تو ہم کو غلط کام کرنے سے ہمارا ضمیر روکتا۔
لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ ہمارئے ضمیر مردہ ہو چکے ہے۔آج آپ عطائی ڈاکٹرز ولیڈی ڈاکٹرز کو ہی لے لو۔جو پیسے کی خاطر جگہ جگہ عطائیت کے ڈیرئے ڈالے ہوئے ہے۔جس گلی یا کوچے میں دیکھوں آپ کو عطائی ڈاکٹر نظر آئے گئے۔کئی عطائی ڈاکٹروں نے اپنے بڑے بڑئے پرائیویٹ ہسپتال یا کلینک بنا کر ان کے باہر ایم بی بی ایس ڈاکٹر حضرات کے نام لکھ رکھے ہیں ۔آپ جھنگ شہر کے محلہ منشیا نوالہ ۔محلہ گلاب والہ ۔بستی شہنی والی۔بستی گھوگھے والی۔ریلوئے اسٹیشن نذد بستی ملاح والی جھنگ شہر۔چنڈ بھروانہ۔منڈی شاہ جیونہ۔شاہ جیونہ۔مسن۔حویلی شیخ راجو وغیرہ۔جس طرف دیکھوں آپ کو عطایئت دن رات بڑھتی نظر آئے گئی ۔مگر ان کو کوئی روکنے والہ نہیں ،کئی تو ایسے کلینک بھی ہے جو کئی دفعہ سیل ہوئے مگر نہ جانے کس مصلحت کے تحت وہ دوبارہ کھول کر چلا رہے ہے۔یہ عطائی نہ جانے کتنی بارایک ہی سرنج کو اپنے استعمال کرتے ہے۔جس کی وجہ سے لوگوں میں موذی امراض کا خدشہ لگا رہتا ہے۔ یہ عطائی اتنی جرات سے دن رات اپنے ہی مسلمان بہن بھائیوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ کر ان کو موذی امراض میں مبتلا کرنے میں مصروف عمل ہے۔آج تک کسی نے ان کے خلاف سخت ترین کوئی ایکشن نہیں لیا۔ اگر ان کے خلاف سخت ترین کاروائی کئی گی ہوتی۔تو یہ آج عطائیت دن رات پھلتی پھولتی نہیں۔آج یہ اپنے ہی مسلمان بہن بھائیوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ کر ان کی جانوں سے کھیل رہے ہے۔
Jhang
کوئی افسر ایسا ہو گا۔جو ضلع جھنگ کی عطائیت کے خلاف سخت ترین ایکشن لیے گا ۔اور تو اور میٹ اور خاکروب حضرات بھی کسی عام آدمی کی بات تک نہیں سنتے ۔اگر ان حضرات سے کسی نے اپنی گلی کی صفائی کروانی ہو تو پہلے ان کی جیب گرم کرنا پڑتی ہے۔تب جاکر وہ بات سنتے ہے۔اور کام بھی کرتے ہیں۔ایسے ہمارئے ایماندار فرض شناش افسران جو ٹی ایم اے جھنگ کے ملازم ہے ۔ان ایمان دار فرض شناش افسران نے سفید پوش افراد کو خاکروبوں کی نوکریاں دئیے رکھی ہے ۔جنکی حاضریاں میٹ یا سینٹری انسپکٹر حضرات لگا دیتے ہے ۔جبکہ یہ سفید پوش خاکروب حضرات صرف اور صرف تنخواہ لینے کے لیے ٹی ایم اے آتے ہیں۔ان میں کئی افراد ایسے ہیں ۔جن کے اپنے کاروبار ہے ۔صبح سے شام تک اپنے کاروبار میں مصروف ہوتے ہیں۔اور ہر ماہ تنخواہ ٹی ایم اے سے خاکروب کی وصول کرتے ہے۔ہمارا ضمیر مردہ ہو چکا ہے۔افسوس تو ان لوگوں پر ہے جنہوں نے ان کو نوکریوں پر رکھا ۔جو ان کی تنخوائیں ہر ماہ بنا رہے ہے۔یا جو ان کی حاضریاں لگا رہے ہیں۔ آج اگر یہ ایمانداری سے روڈ اور گلیوں میں آکر کام کرنے آجائے۔تو آپ کو ہر طرف صفائی نظر آئے گئی ۔لیکن یہ کرئے گا کون ۔کوئی تو ایسا ایمان دار افسر ہو گا ۔جس کا ضمیر زندہ ہوگااور وہ ان سب کے خلاف ایکشن لیے گا۔ یہ جو ہر ماہ تنخواہ کی مد میں سرکار خزانہ کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ ان سفید پوش خاکروب حضرات کا جو ٹی ایم اے کے لوگ ایسے لوگوں کا ساتھ دیئے رہے ہیں ۔جو ان کی حاضریا ں لگا رہے ہے۔ان میٹ حضرات ۔سینٹری انسپکٹرزیا چیف سینٹری انسپکٹر وغیرہ جو ان لوگوں کا ساتھ دے رہے ہے۔
کیا یہ ایمان داری یا فرض شناشی ہے۔کیا ہمارئے مذہب دین اسلام سے یہی درس ملتا ہے۔کہ ہم اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے حق پر ڈاکہ ڈالے۔جو حق دار لوگ ہے ۔ان کو نوکری نہیں دی جاتی۔اور ایسے سفید پوش افراد کو نوکریوں پر رکھا لیا جاتا ہے ۔جو تنخواہیں بھی اپنے گھروں میں بیٹھے وصول کر رہے ہیں ۔آج ضرورت مند افراد چیف سینٹری انسپکٹروغیرہ کے پیچھے دھکے کھا کر واپس آجاتے ہے۔ مگر ان کی سننے والا کوئی نہیں ۔کیوں کہ ان کے پاس کو ئی بڑی شفارش نہیں یا وہ ان لوگوں کی ڈیمانڈ پوری نہیں کر سکتے ۔او نام کے مسلمان تیرے روزے۔ نماز زکوة وغیرہ کس کام کی ۔تو اپنے ہی مسلمان بھائیوں کا حق کھا رہا ہے۔اور جن کا حق کھا رہا ہے انہی کے ساتھ بد اخلاقی سے پیش آتا ہے۔او بندے خدا کے وہ حق دار ہے ایک تو ان کو نوکری نہیں دے رہا ۔اوپر سے ان سے بد سلوقی کرتا ہے۔تو ان لوگوں کا ساتھ دیئے رہا ہے۔ جو خزانہ سرکار کو لوٹ رہے مفت کی تنخواہیں لینے والے خاکروب ۔او بندئے اللہ کے آخر ایک دن مر کر قبر میں جاناہے۔تو اس وقت اپنے رب کو کیا منہ دکھائے گا۔ آج اگر حقیقت میں جو خاکروب حضرات ہے ۔جو اپنے گھروں میں بیٹھے تنخواہیں وصول کر رہے ہیں ۔سب روڈز پر آکر صفائی کرئے تو شہر میں آپ کو کسی جگہ گندگی مظر نہیں آئے گئی۔آخر یہ یہی کہوں گا۔کہ کوئی ایسا افسر تو ہوگا۔ جو ایمان دار فرض شناش ہو ۔جس کا ضمیر زندہ ہو گا ۔اور وہ ایسے خاکروبوں کو نوکریوں سے فارغ کرئے گا ۔جو گھروں میں بیٹھے حق داروں کا حق کھا رہے ہے۔اور جو ان لوگوں کو نوکریوں پر رکھنے والے۔ان کی ہر ماہ تنخوائیں بنانے نے والے۔اور ان کی حاضریاں لگانے والوں ۔سب کے خلاف کاروائی کرئے گا۔ کوئی تو ہوگا ایسا ایمان دار افسر جو جھنگ کی غریب عوام۔۔۔۔