تحریر : ساجد حسین شاہ زندگی کی رو نقیں الجھ کر رہ گئی ہیں ہماری دنیا میںمعا شر تی متوا زی نظا م کی د ھجیاں ہمیشہ سے ا ڑتی آ ئی ہیں اور یوں ہی ا ڑتی رہیں گی ہمیشہ سے ہی انسا نیت شکست خو ردہ رہی ہے ور جب تک یہ غیر متوازی رویہ رہے گا یہ شکست یو ں ہی بحال رہے گی طا قتور قو میں کمزور قوموں کی آ واز دبا نے کی تگ ودو میں لگی رہیں گی ہر قدم کے پیچھے کئی سا زشی عنا صر پو شیدہ ہیں کچھ دن قبل پیرس کے ایک میگزین کے دفتر پر جنہوں نے چند سال قبل گستا خا نہ خاکے شا ئع کیے تھے چند نا معلوم ا فرا د حملہ آ وار ہو ئے ان کی اندھا دھند فا ئرنگ کی زد میں آ کر وہا ں مو جو د سترہ ا فرا د ہلا ک ہو گئے جن میں ایک مسلم پو لیس اہلکار بھی شا مل تھا ان لو گو ں سے اظہا ر یکجہتی اور د ہشت گر دی کے خلاف بروز اتوار تین ملین سے زا ئد لو گوں نے پیرس کی سڑ کوں پر ما رچ کیا جس میں دنیا بھر کے مختلف مما لک کے سر بر ہان شا مل تھے اس ما رچ کی پہلی قطار میں ایک شخص جسکے چہرے پر نظر پڑ تے ہی میرا خو ن کھو لنے لگا اور میں قلم اٹھا نے پر مجبور ہو گیا
وہ شخص نیتن یا ہو اسرا ئیلی وز یر اعظم ہے اسر ائیلی وزیراعظم تو فرا نس میں ہو نے والی دہشت گر دی کے خلا ف ما رچ میں شر یک ہوا آ یا اس سے یہ پو چھنا درست نہ ہو گا کہ فلسطین میں ہزاروں کی تعداد میں شہداء جن میں اکثریت عو رتوں اور معصوم بچو ں کی تھی انکے لیے بھی ایک ما رچ کی ضرورت نہیں ؟فلسطین کے شہداء کے خون کا رنگ بھی اسی طرح لال تھا جس طرح فر انس میں ہلاک ہو نے والے ان لو گوں کا تھا فرق ہے تو صر ف اتنا کہ فلسطینی مسلم قوم میں پیدا ہو ئے جن پر ظلم ڈ ھا نا روایت بنتی جا رہی ہے اور فرانس کے لو گوں نے ایک مہذب اور طاقتور معاشرے میں جنم لیا اس لیے تو سترہ ہلا کتوں پر دنیا بھر کے سر برا ہان اکٹھے ہو گئے مگر فلسطین میں ہزاروں لو گوں کی موت پرکسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی مجھے اس با ت سے قطعا ا ختلا ف نہیں کے وہ لوگ دہشت گر دی کے خلا ف کیوں اکٹھے ہو ئے مگر اس معا شر تی تفر یق سے دل کو ٹھیس پہنچی ا گر اس ما رچ میں اس شق کو بھی ز یر بحث لا یا جا تا اورتحیہ کیا جا تا کہ دو سروں کے مذ ہب کا احترام کیا جا ئے گا ۔جب تک دوسروں کے دین کوتمسخر بنا یا جا ئے گا تو پھر ایسے وا قعا ت جنم لیتے رہیں گے صرف تصویر کا ایک رخ جان لینا ٹھیک نہیں بلکے وا قعہ کیوں وقوع پذ یر ہوا ان عنا صر کا بھی سد با ب ہو نا چا ہیے اسر ائیلی وزیر اعظم جو لانگ ما رچ کی قیا دتی قطار میں شا مل تھا
ان کے ملک میں تو یہ لو جک استعما ل کی جا تی ہے کہ اگر کو ئی فلسطینی بچہ اسرا ئیلی ٹینک پر پتھرائو کر ے تو اسکے گھر کو تبا ہ کر دو اسکے وا لدین کو مار دو کیو نکہ اس بچے کا شما ر دہشت گر دوں میں ہو تا ہے اگر اسکے بر عکس وہی ٹینک اس بچے کو شوٹ کر ے تو وہ عمل اپنی دفا ع میں شما ر ہو گا اسرا ئیل کی گو لا با ری سے کئی ما ئوں کی گو دیں ا جڑیںکتنے بچے اپنے وا لدین کے سا منے تڑ پ تڑپ کر جان دے گئے اور کتنے بچوں کے سر سے باپ کی شفقت اور ماں کی محبت کا سا یہ چھین لیا گیا اس سب کا حسا ب تو اسرائیل سے کسی نے نہ لیا ۔
Security Forces
7جو لا ئی2014 کو اسرا ئیلی حکومت نے اعلان کیا کہ وہ آپر یشن کر کے حما س کی ان ٹنلز کو تبا ہ کر یں گے جو حما س نے ان کی تبا ہی کے لیے بنا ئی ہیں جہاں سے وہ اسرا ئیلی سیکو رٹی فور سز کو نشا نہ بنا تے ہیں اس بہانے غزہ پر ایسا دھا وہ بو لا کہ فلسطینی سر زمین انکی اپنی ہی عوام کی لا شوں سے ڈھک گئی کیا فلسطینی عوام کو اپنی جا ئے پیدا ئش پر عز ت اور وقا ر کے سا تھ رہنے کا کو ئی حق نہیں اسی خو اہش کا خو اب دیکھتے دیکھتے کئی فلسطینی نسلیں اختتام کو پہنچ گئیں اور نئی نسل اس حق کے لیے اپنے خو ن کا نذرا نہ پیش کر رہی ہے جب کے اسرائیل کی دست درا زیاں اس حد تک بڑھ چکی ہیں کہ وہ بیت المقدس کو تا ر یخی ورثہ قرار دے کر ہتھیا نے کی کو شش کر رہا ہے اسرا ئیل دھیرے دھیرے بیت المقدس اور دیگر تا ریخی عما رتوں کو قو میا نے کی مسلسل کو شش میں مشغو ل ہے مسجد ابراہیم اسکی ایک زندہ مثا ل ہے ۔اقوم متحدکی بنیا د اس لیے رکھی گئی تھی کہ دنیا میں کو ئی طا قتور ملک کسی کمزور ملک کو دبو چ نہ سکے اور ان تنا زعات کو با ت چیت سے بلا تفر یق حل کیا جا ئے مگر افسوس فلسطین کے معا ملے کو تو لے کر اقوام متحدہ نے اپنی آ نکھیں بند کی ہو ئی ہیں
اسرا ئیل جب فلسطین کی نہتا عوام پر ظلم کے پہا ڑ ڈھا رہا تھا تب اقوام متحدہ کے ان بڑے ایوانوں میں انصاف کو دستک تک دینے کی اجا زت نہ تھی اقوام متحدہ کے چا رٹر کے رو سے اس ملک کی رکنیت خا رج کی جا سکتی ہے جو مسلسل اقوام متحدہ کے منشور کی خلاف ورزی کر ے مگر اسرائیل تو پچھلی پا نچ چھ دہا ئیوں سے یہی کر تا آ رہا ہے اسکی ر کنیت کیو ں نہ خا رج کی گئی جنرل کو نسل اور سلا متی کو نسل میں اسرا ئیل کے خلا ف متعدد بار قراردادیں پیش کی گئیں مگر یہودی لا بی ان قرار دادوں کو کا غذ کے ٹکڑوں کی طرح مر وڑ کر پھینک دیتی ہے اس دنیا میں عددی اعتبا ر سے سب کم تعداد میں پا ئی جا نے وا لی یہ قوم نہ جا نے کیسے اقوام متحدہ تک کی قرار دادوں پر قا بض ہو گئی اور دنیا میں ہو نے والی معا شی تبدیلیوں میں اہم قر دار ادا کر نے لگی ۔
قوم بنی اسرائیل جسکا ذکر قرآ ن پا ک میں سب سے زیا دہ ہو نے وا لی قوموں میں سے ہے اس قوم کو سا بقہ امت مسلماں ہو نے کا اعزاز بھی حا صل ہے اڑ ھا ئی ہزار سال تک نبوت و رسا لت ان میں ہی چلتی رہی لیکن اگر ہم ان کی تا ریخ کا بغو ر جا ئزہ لیں تو انتہا ئی شر منا ک اور المناک وا قعات سے بھری پڑی ہے اسرائیلیوں کا ظلم و جبر کا سلسلہ ہر دور میں جا ری رہا ہے لیکن اب یہ تما م حد وں سے تجا وز کر چکے ہیں یہ وہ قو م ہے جو نبی آخر الزماں کو نبی بر حق جا ننے کے با و جو د آ پ کے اور آ پ کی تبلیغ کے مخا لف ہی رہی ا ور اسلام کے رستے میں شروع سے ہی مشکلات کا با عث بنتی رہی آ ئیں مل کر دعا کریں اللہ تعا لیٰ ہم سب مسلما نوں کو ہمت و صبر عطا فر ما ئے تا کہ ہم امت مسلماں کے خلاف ہو نے وا لی سا زشوں کو نہ صرف بے نقا ب کر سکیں بلکہ انھیں جڑ سے اکھا ڑ کر پھینک دیں۔ سنا ہے تجھے درد کا احساس نہیں ہو تا آتجھے شہر فلسطین لے چلوں
Sajid Hussain Shah
تحریر : ساجد حسین شاہ engrsajidlesco@yahoo.com 00966592872631