تحریر: غلام مرتضیٰ باجوہ آج کل پوری دنیا میں یہ بحث جاری ہے کہ چین عالمی سپرپاور کے طور پر امریکہ کی جگہ لے لے گا۔اس حوالے سے عالمی مبصرین اور ماہرین کے مطابق 2025ء تک ’’چین عالمی سپر پاور کے طور پر امریکہ کی جگہ لے لے گا‘‘اس کا انکشاف حال ہی شائع ہونے والی کتاب ’’سو سال میراتھن‘‘میں کیاگیا تھا۔اور امریکہ چین کا مقابلہ کرنے کیلئے بھارت اور پاکستان پر قبضہ کرے گا۔جس میں ایران امریکہ حمایت کرے گا۔
مختصرتاریخی حوالے سے عوامی جمہوریہ چین موجودہ چین کو کہتے ہیں اور جمہوریہ چین سے مراد تائیوان اور اس سے ملحقہ علاقے ہیں۔چین ایک ایسا ثقافتی اور قدیم تہذیب کا علاقہ ہے جو ایشیا کے مشرق میں واقع ہے۔چین کو دنیا کی سب سے پرانی تہذیبوں میں سے ایک ہے جو کہ آج ایک کامیاب ریاست کے روپ میں موجود ہیں اور اس کی ثقافت چھ ہزار سال پرانی ہے۔ جنگ عظیم دوئم کے بعد ہونے والی چین کی خانہ جنگی کے اختتام پر چین کو تقسیم کرکے دو ممالک بنا دیا گیا، ایک کا نام عوامی جمہوریہ چین اور دوسری کا نام جمہوریہ چین رکھا گیا۔ عوامی جمہوریہ چین کے کنٹرول میں مین لینڈ، ہانگ کانگ اور میکاؤ، جبکہ جمہوریہ چین کا کنٹرول تائیوان اور اس کے ملحقہ علاقوں پر تھا۔چین کی تہذیب دنیا کی ان چند ایک تہذیبوں میں سے ایک ہے جو بیرونی مداخلت سے تقریبا محفوظ رہیں اور اسی وقت سے اس کی زبان تحریری شکل میں موجود ہے۔ چین کی کامیابی کی تاریخ کوئی چھ ہزار سال قبل تک پہنچتی ہے۔ صدیوں تک چین دنیا کی سب سے زیادہ ترقی یافتہ قوم ، مشرقی ایشیا کا تہذیبی مرکز رہا جس کے اثرات آج تک نمایاں ہیں۔ اسی طرح چین کی سرزمین پر بہت ساری نئی ایجادات ہوئی ہیں جن میں چار مشہور چیزیں یعنی کاغذ، قطب نما، بارود اور چھاپہ خانہ بھی شامل ہیں۔
خانہ جنگی میں فتح کے بعد کمیونسٹ پارٹی آف چائنہ نے مین لینڈ کا زیادہ تر حصہ سنبھال لیا۔ یکم اکتوبر 1949ء کو انہوں نے عوامی جمہوریہ چین قائم کی اور اور آر او سی کو بھی اپنا حصہ قرار دیا۔ آر او سی کی مرکزی حکومت کو تائیوان چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔ مسلح جنگوں کا اختتام 1950ء میں ہوا لیکن دونوں اطراف سے ابھی بھی تکنیکی اعتبار سے جنگ جاری تھی۔1970ء کی دہائی کے اختتام پرعوامی جمہوریہ چین نے اپنے زیر انتظام علاقوں یعنی تائیوان، تائی پی، کاوہسیونگ اور فیوجیان کے دور دراز کے جزائر پر مکمل، کثیر الجماعتی، نمائندہ جمہوریت کو رواج دینا شروع کیا۔ آج آر او سی میں تمام شعبہ ہائے زندگی سے متحرک سیاسی نمائندگی ہورہی ہے۔ آر او سی کی سیاست میں اہم موڑ چین کے ساتھ اتحاد اور چین کی رسمی آزادی کے ساتھ جڑا ہے۔
1978ء کی مین لینڈ میں اصلاحات کے بعد انھیں کچھ شعبہ ہائے زندگی میں رعایات دینی پڑیں۔تاہم چینی حکومت کے پاس ابھی تک سیاست پر مکمل کنٹرول حاصل تھا اور اس نے ملکی سلامتی کو لاحق خطرات کو ہٹانے کا کام جاری رکھا۔ مثالوں میں دہشت گردی کے خلاف جنگ، سیاسی مخالفین اور صحافیوں کو جیل بھیجنا، پریس پر کنٹرول، مذاہب کی اصلاح اور آزادی کی حامی تحاریک کو کچلنا شامل ہے۔ 1989ء میں تیانانمین سکوائیر میں احتجاج کرنے والے طلباء کو چینی فوج نے پندرہ روزہ مارشل لا میں ٹھکانے لگا دیا۔1997ء میں ہانگ کانگ برطانیہ کی طرف سے عوامی جہموریہ چین کے حوالے کیا گیا اور 1999ء میں مکاؤ کی پرتگال کی طرف سے واپسی ہوئی۔چین کی کل آبادی ایک اعشاریہ تین ارب یعنی ایک ارب تیس کروڑ کے لگ بھگ ہے جو دنیا کی کل آبادی کا پانچواں حصہ ہے۔ چین میں سو سے زائد لسانی گروہ موجود ہیں لیکن عوامی جمہوریہ چین کی حکومت ان میں سے صرف چھپن کو مانتی ہے۔ اب تک کا سب سے بڑا لسانی گروہ ہن ہے۔ یہ گروپ بہت ترقی یافتہ ہے اور اس کو مزید کئی چھوٹے گروہوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
Chinese Military
بہت سے لسانی گروہ اپنے ارد گرد کے گروہوں میں مل گئے ہیں اور اب ان کا نام و نشان تک نہیں ملتا۔ ماضی کے بہت سے نمایاں گروہ اب ہن گروہ کے ساتھ مل کر چینی شکل کے حامل بن گئے ہیں، جس کے باعث ہن گروہ کی تعداد میں اچانک ڈرامائی اضافہ ہوا ہے۔اسی دوران ہن گروہ کے درمیان موجود بہت سے چھوٹے گروہوں نے اپنی شناخت کو الگ سے برقرار رکھا ہوا ہے اور ان کی اپنی لسانی اور ثقافتی خصوصیات ہیں لیکن وہ ابھی بھی اپنے آپ کو ہن گروہ کے نام سے ہی متعارف کراتے ہیں۔بہت سے غیرملکی گروہوں نے بھی ہن گروہ کی بود وباش اختیار کرلی ہے اور انہوں نے اپنے کو سورکی دم جیسی پونی بنا کر خود کو ہن سمجھنا شروع کردیا ہے کیونکہ مانچوریوں نے ہن آبادی پر یہ شناخت لازمی قرار دے دی تھی۔ اصطلاح چینی قوم یعنی زہونگوا منزو سے مراد وہ تمام افراد ہیں جو چینی شہریت رکھتے ہیں اور چاہے وہ کسی بھی لسانی گروہ سے ہوں۔
ثقافتی اعتبار سے ترقی کے علاوہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی فیلڈ میں چینی ترقی کچھ ایسے ہے’’ایشیائی ایباکس بلاسٹ بھٹی (سٹیل کے لئے)،بلاک پرنٹ میکنگ/ پرنٹنگ ٹیکنالوجی،تابنا،کیلیپر جو کہ پیمائش کے لئے استعمال ہوتے ہیں،گھڑی،کمپاس یعنی قطب نماکراس بو،خشک گودی،پنکھے،آتش بازی اور سالڈ فیول راکٹ،مچھلی کے شکار کی بنسی،بارود ،بم،ہاٹ ائیر بیلون،پتنگ،وارنش،ماچس،کاغذ،کاغذی نوٹ اور دیگر مالیاتی ادارے،پیراشوٹ،تیل کے کنویں،پسٹن والاپمپ، پورسیلین ، پروپیلر ،امدادی نقشہ،پہیہ،بیج بونے والا ڈرل،زلزلہ پیما، ریشم،رکاب،سسپنشن برج یعنی لٹکتے پْل،ٹائلٹ پیپر،ٹوتھ برش،چھتری،وال پیپر،چھکڑا،وہسکی برائے ادوایاتی اور جراحی کے مقاصد کے لئے ودیگرایشاء شامل ہیں۔ دوسری جانب 2025ء تک پاکستان کوتعلیمی نظام کے حوالے سے بہت سی مشکلات سامنا بھی کرناپڑے گا۔کیونکہ امریکہ چین کے خلاف عالمی معاشی جنگ لڑنے کیلئے پاکستان پر قبضہ کرے گا۔ 1900ء سے لیکر اب تک پوری دنیا پر قبضہ کرنے کی جنگ میں کروڑوں افراد زندگی کی بازی ہارچکے ہیں ۔ اورانگریزوں نے اس لئے اردو زبان ثقافت ، تہذیب اور مذہب کو نقصان پہنچایا ۔آج ایسا طبقہ بھی پاکستان میں موجودہے جوانگریزوں کی نمائندگی کر رہے ہیں ۔پاکستان کی بیوروکریسی جس مقابلے کی امتحان کے ذریعے آتی ہے وہ انگریزی کے بغیر نا ممکن ہے اور وہ انگریزی کی وکالت کرتے ہیں ۔اس وقت پاکستان میں تقربناً220کے قریب تعلیمی نظام موجود ہیں۔اور95فیصد تعلیمی نظام پر نجی اداروں کا قبضہ ہے۔ حکومت ان نجی تعلیمی اداروں کے خلاف کارروائی نہیں کرسکتی کیونکہ بیوروکریسی کے پاس ان کا ریکارڈہی نہیں۔ صوبہ پنجاب سب سے زیادہ خرچ تعلیم پر کررہاہے ۔لیکن ہائرایجوکیشن سیکرٹری کی سیٹ2004ء سے خالی ہے۔ سیکرٹر ی سکول ایجوکیشن کی سیٹ پرعبدالجبار شاہین نامی شخص تعینات جو ایک کنال پر مشتمل بنگالے میں رہائش پذیرہے۔ جس کی پالیسیو ں سے اساتذہ اور کلرک اور طالب علم سٹرکوں پر ہیں۔ چندماہ تک وہ بھی ریٹائرڈ ہوجائے گا۔ اور وہ بھی تعلیم نظام کی تمام ترذمہ داریوں سے بری الذمہ ہو جائے گا۔حکمرانوں کے پاس پاکستانی قوم اور عالمی صورتحال پر سوچنے کا ٹائم نہیں۔اس غفلت کا نتیجہ آج قوم کے سامنے ہے۔چند سال قبل دہشتگردی کے نام پر شروع ہونے والی جنگ میں لاکھوں پاکستان شہیدہوچکے ہیں۔اور مدارس تک جائے پہنچی ہے۔جن کیخلاف سرچ آپریشن ہوررہے ہیں۔اگرپاکستا ن میں تعلیم نظام پرنہ دی گئی تو 2025ء تک پاکستانی تعلیم اداروں کے خلاف آپریشن ہوگئے اور پاکستان میں تعلیم حاصل کرنے والوں کو بھی مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔