تحریر : صاحبزادہ نعمان قادر مصطفائی بھتہ مافیاز، شو گر مافیاز، اسمگلنگ مافیاز، زکوٹا جن مافیاز، سیاسی مافیاز، ذخیرہ اندوز مافیاز وغیرہ۔۔۔۔۔۔یہ ہیں وہ ناسور، نیت فتور جو ہمارے ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہے ہیں اور یہ وہ چڑیلیں ہیں جو اپنے خونی پنجے گاڑھے ارضِ وطن کو خون خون کر رہی ہیں اور اِن جونکوں نے وطن عزیز کی عوام کا خون چوسنے میں اہم کر دار ادا کیا ہے اِن کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے ، کیونکہ ان کی سرپرستی وہی عناصر کر رہے ہوتے ہیں جو عام الیکشن کے دنوں میں مسکین صورت بنائے ،یتیمی کا چُغہ اور چولا پہنے ووٹرز کی دہلیز پر شرافت اور حُب الوطنی کا کاسہ اُٹھائے ووٹ کی بھیک مانگتے نظر آتے ہیں الیکشن کے دنوں میں یہ بہروپیے، نو دولتیے، موسمی پرندے، فصلی بٹیرے، لُٹیرے ، وڈیرے عوام کی دوستی کادم بھرتے نظر آتے ہیں اور جیسے ہی اِن کی جعلی” جیت ”کا اعلان ہوتا ہے پھر اِن کی دہلیز پر مافیاز یوں یاترا کرتے نظر آتے ہیں جیسے سِکھ برادری اپنے گرو نانک کے جنم دن کے موقع پر ننکانہ صاحب نظر آتی ہے۔۔
اگر بھتہ مافیاز کو بھتہ نہ دیا جائے تو وہ غریب عوام کو دھمکیاں دینا شروع کر دیتا ہے دھمکی دینے کی سزا تو یہ ہونا چاہیے کہ اُس کے خلاف فوری ایکشن لیا جائے ،یہ سب یورپ میں تو ہو سکتا ہے مگر اپنی سر زمین پر ایسا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن بھی ہے کیونکہ جس محکمہ نے ایکشن لینا ہوتا ہے وہی تو بھتہ خوری پر پل رہا ہوتا ہے ،روشنیوں کے شہر کراچی میں بھتہ خوری کی اصطلاح سے بہت پہلے ایم کیو ایم نے واقفیت کرائی تھی ہمیں کیا معلوم تھا کہ یہ وباء ہمارے اپنے شہر لیہ میں بھی پہنچ جائے گی ٹرانسپورٹ شعبے میں بھی ایک بہت ہی تگڑامافیا ہے جو اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کے لیے مختلف حیلے بہا نوں سے چھوٹے موٹے گاڑی مالکان کو تنگ کرتا رہتا ہے اگر کسی نے غلطی سے کہیں سے قرض لے کر کبھی کوئی ایک گاڑی لے کر روٹ پر ڈال بھی دی ہے تو اب اُس بے چارے کی شامت آ جاتی ہے کبھی ٹریفک پولیس کا مافیا گاہے گاہے مختلف مدات میں اُس سے ”بھتہ ” کی شکل میں پیسہ بٹورتا ہے ، کبھی لاری اڈہ کا وہ بد قماش جوکانوں میں جھمکے پہنے اور ہاتھ میںسٹک اُٹھائے ”جگہ ٹیکس ” کے نام پر اپنا حصہ وصول کرنا اپنا فرض منصبی سمجھتا ہے میرے ذاتی مشاہدے میں بہت سے ایسے لوگ جنہوں نے بڑے شوق سے اپنی بیگم صاحبہ کے زیور تک بیچ کر ”ٹویوٹا ہائی ایس ”یا کیری ڈبہ اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے خریدا تھا روڈ پر آتے ہیں اُن کے سر پر بھی ویسی ہی آفت ٹوٹتی ہے جیسے ہم بچپن میں ایک محاورہ سُنتے تھے کہ ”سر مُنڈاتے ہی اولے پڑے ”حالانکہ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شمس محمود مرزا نے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ پک اینڈ ڈراپ کرنیوالی ویگنوں پر اڈا فیس کا نفاذ نہیں ہوتا ، عدالت نے یہ ریمارکس مقامی ٹرانسپورٹرمنور کی پٹیشن پر سماعت کے دوران دیئے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔لاری اڈا(نیو جنرل بس اسٹینڈ ) لیہ میں بھتہ خور وں نے اپنے ٹولے اور گروہ بنا رکھے ہیں جو ویگن مالکان اور ڈرائیوروں کو حراساں کر کے اڈا فیس کے نام پر 150 روپے وصول کرتے ہیںبھتہ نہ دینے کی پاداش میں سنگین نتائج اور جان سے مارنے کی دھمکیوں کے علاوہ ویگن کو آگ لگانے کی دھمکیاں دیتے ہیں ان میں عبدالستار اوڈ،مہر حیات ،مہر سعید ،عزیز احمد ودیگر بھتہ خور ودیگر لوگ بھی شامل ہیں جو انتظامیہ کی ناک کے نیچے اور ان کی سرپرستی میں یہ مکروہ دھندہ کرتے ہیں۔۔
اس موضوع پر کالم لکھنے کی نوبت کیوں آئی ، گزشتہ دنوں ضلع لیہ کے کثیر الاشاعت اخبار ”سنگِ بے آب ”میں ایک خبر نظر سے گزری اور یہ خبر ہمارے چوک اعظم سے کہنہ مشق اور ہمیشہ خبر کی تلاش میں سرگرداں صحافی جناب ِ لیاقت علی چوہدری نے فائل کی تھی ،یہ لیاقت چوہدری بھی عجیب صحافی ہے کبھی تو ٹمبر مافیا کے کرتوت عوام کے سامنے لاتا ہے اور کبھی پولیس مافیاز کی کلاس لیتا ہوا نظر آتا ہے مجھے توخطرات مول لینا اس کا مشغلہ لگتا ہے ،مافیاز کو ایسے لوگ ”دلِ یزداں ”میں کانٹے کی طرح کھٹکتے ہیں ،بھتہ مافیاز کے خلاف خبر تو شائع ہو گئی مگر وہی ہوا جس کا ڈر تھا یعنی ”ڈھاک کے تین پات ” والی بات ہماری بیورو کریسی پر سچ ثابت ہوتی ہے ، بھتہ مافیا روشنیوں کے شہر کراچی سے رینجرز کے ڈر سے بھاگ کر اب ضلع لیہ میں داخل ہو گیا ہے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے یوں لگتا ہے کہ بھتہ مافیا کے ہاتھ بہت ہی لمبے ہیں اور بھتہ پرچی کے ذریعے اکھٹی ہونے والی رقم سے کچھ ”حصہ ” اُوپر تک بھی گردش کرتا ہے جس کا واضح ثبوت لیہ جنرل بس اسٹینڈ میں اڈا فیس کے نام پرویگن مالکان سے سر عام بھتہ وصول کرنے والوں کے خلاف ڈی سی او لیہ، ڈی پی او لیہ کو گزاری گئی درخواستوں پر تین ہفتے گزرنے کے بعدبھی کارروائی عمل میں نہ لائی جا سکی ہے،حصولِ انصاف کے متلاشی متاثرین نے عدالت عالیہ سے رجوع کا فیصلہ کیا ہے، اب اگر ہر کام فوج اور عدالت نے ہی کرنے ہیں توبہتر ہے حکمران دوبئی اور لندن لمبی چھٹی پر چلے جائیں ۔۔۔۔۔مُفت کی روٹیاں تونہ توڑیں اور ٹی اے ڈی اے کھرے نہ کریں، ملک پہلے ہی عیاش حکمرانوں کے اللوں تللوں کی وجہ سے قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ خبر کے مطابق چوک اعظم کے رہائشی ویگن مالکان نے ڈی پی او لیہ اور ڈی سی او لیہ کو گزاری گئی درخواستوں میں موقف اختیار کیا ہے کہ عرصہ دراز سے لیہ جنرل بس اسٹینڈ میں بھتہ مافیا کا راج ہے لوکل روٹ لیہ تا چوک اعظم چلنے والی مسافر ہائی ایس ویگنوں کے ڈرائیوروں اور مالکان کو حراساں کر کے اڈا فیس کے نام پر 150روپے فی پھیرا گاڑی سے زبر دستی بھتہ وصول کر رہے ہیں انکار پر طرح طرح کی دھمکیاں دینے کے ساتھ ساتھ تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے اور ویگن سے سواریوں کو اتار کر اڈا سے ویگن کو بھگا دیا جاتا ہے بھتہ مافیا کے کارندے درخواست گزاروں کو مسلسل دھمکیاں دے رہے ہیںیوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم پاکستان میں نہیں بلکہ ”دھمکستان ” اور دھماکستان ” میں رہتے ہیں جہاں آئے روز دہشت گردوں کی طرف سے دھماکے اور مافیاز کی طرف سے دھمکیاں کا سلسلہ بھتہ مافیاز کے لمبے ہاتھوں کی طرح طویل ہوتا جا رہا ہے ایک غریب دیہاڑی دار مزدور کس طرح اپنے بال بچوں کا پیٹ پالے یہ ہمارے ارباب ِ اقتدار کے لیے ایک سوالیہ نشان ہے اعلیٰ حکام سے غریب ویگن مالکان نے اپیل کی ہے کہ بھتہ مافیاز سے ہماری جان چھڑائی جائے۔۔
Bhatta Mafia
پیارے قارئین :جب سے ہم نے شعور کی دہلیز پار کی ہے اُس وقت سے ہم نے ”پولیس کا ہے فرض ، مدد آپ کی ” کا نعرہ سُن رکھا ہے مگر پولیس دُکھی اور لاچار انسانیت کی خدمت کی بجائے معاشرے کے چوروں ،وڈیروں ،جاگیر داروں ، سرمایہ داروں ،زر داروں ،زور داروں ، ، رسہ گیروں ، ڈاکو ئوں ، منشیات فروشوں ، دلالوں ، بد معاشوں کی ”خدمت ” کا فریضہ بڑے احسن انداز سے سر انجام دیتی ہے حالانکہ پولیس اسٹیشن دُکھی ، لاچار ، بے سہارا اور زمانے کے ٹھکرائے ہوئے انسانوں کے لیے ایک آماجگاہ کی حیثیت رکھتے ہیں مگر موجودہ پولیس کلچر کی وجہ سے تھا نے آماجگاہ کی بجائے انسانیت کے لیے ”اذیت گاہ ” کا روپ دھار چکے ہیں اور تھانوں میں جس طرح ایک شریف اور معزز شہری کی عزت کی دھجیاں بکھیری جاتی ہیں دیکھ اور سُن کر شرافت کے ساتھ ساتھ انسانیت بھی کانپ اُٹھتی ہے ، معاشرے کے بد معاش ،اُچکے ،بھتہ خور ،حرام خور ،شراب نوش ،شباب نوش ، جواری ، بُکیے ،جگہ ٹیکس کھانے والے ، کرائے کے قاتل اور غنڈے کو تو تھانے میں ”وی وی آئی پی” کا پروٹوکول دیا جاتا ہے اور معاشرے کے ایک معزز، با وقار ، تعلیم یافتہ اور محب ِ وطن شہری کو ذلت و رسوائی کی علامت بنا دیا جاتا ہے اس وقت تھانے انسانیت کے لیے ”اذیت گا ہوں” اور تھا نے دار مقا می نمائندگان کے لیے” عشرت گاہوں” کا سامان مہیا کرنے کاکردار ادا کر رہے ہیں علاقے کا ایس ایچ او با قاعدہ بد معاشوں ، غنڈوں ، رسہ گیروں اور شراب و کباب و شباب کے رسیا بد قماش لو گوں کو ”تفریح ” کے وہ تمام ذرائع مہیا کرنے کا پابند ہو تا ہے جس کی وجہ سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہو تا ہے اگر علاقہ کا ایس ایچ او محب ِ وطن اور ذمہ دار ہونے کا ثبوت دے اور اپنی توند کو رزقِ حلال سے بھرنے کی کوشش کرے تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ علاقہ سے چو روں ، ڈاکوئوں ، رسہ گیروں ، بد قماشوں کا خاتمہ نہ ہو سکے ،ایس ایچ او کے لیے پورا علاقہ ہتھیلی پر رکھے اُس دانہ کی مانند ہو تا ہے جس کا حدود ِ اربع اُس کے سامنے ہو تا ہے ، اگرکسی جاگیر دار اور وڈیرے کی مُرغی بھی گُم ہو جائے تو ایس ایچ او کی نیندیں حرام ہو جاتی ہیں تھانہ کی ساری نفری کو الرٹ کر کے پورے ضلع کی ناکہ بندی کر لی جاتی ہے اور چند سیکنڈ میں گواچی گئی مُرغی کا سُراغ بھی لگا لیا جاتا ہے ”مُرغی چورگینگ”کو عبرت کا نشان بھی بنا دیا جا تا ہے تاکہ آئندہ کسی بھی ”گینگ ” کو علاقہ کے جاگیر دار ، وڈیرے ، رسہ گیر ، چور گر اور سرمایہ دار کی پالتو مُرغی اغوا اور چوری کرنے کی ہمت نہ ہو سکے ، مگر دوسری طرف اگر کسی غریب کی بیٹی کی عزت کسی جاگیر دار یا سر مایہ دار کی ہوس کا نشانہ بن جائے اور وہ شراب و کباب و شباب کا رسیہ جاگیر دار اپنے ہوس کے طبلے کی تھاپ پر اُسے نچاتا رہے تو جنابِ ایس ایچ او کی رگِ غیرت نہیں پھڑکتی اور وہ غریب و بے بس انسان کی عزت کو ایک جاگیر دار کی امپورٹِڈ نسل کے ہا تھوں لُٹتا دیکھ کر آنکھوں پر بے حسی کی پٹی اور کا نوں پر کاگ چڑھا لیتا ہے اِس موقع پر جاگیر داروں کے ٹکڑوں پر پلنے والے ڈی پی او ، ڈی سی اواور جنابِ ایس ایچ او کو نہ کچھ سُجھا ئی دیتا ہے اور نہ ہی کچھ دِکھائی دیتا ہے وہ اپنے آپ کو عوام کے سامنے گویاگونگا ، بہرا اور اندھا پیش کرنے کی بھونڈی کوشش کر تا ہے اور غریب عوام سڑکوں پر چھوٹا موٹا احتجاج کر کے اپنے دل کی بھڑاس نکال لیتے ہیں یوں جب عوام احتجاج کر رہی ہوتی ہے علاقہ کا ایس ایچ او اپنی ”خواب گاہ ”میں اُنہی وڈیروں کے ساتھ رنگ رلیاں منا رہا ہو تا ہے جنہوں نے ایک غریب کی عزت کی دھجیاں بکھیری ہوتی ہیں اور بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ہمارے ”غریب پرور ”نمائندگان بھی اپنے آپ کو ایسا شو کرانے کی کوشش کراتے ہیں کہ اِن سارے واقعات سے وہ لاعلم ہیں غریبوں کے ووٹوں سے ایوان کی زینت بننے والے ”غریب پرور ”نمائندگان نے بھی ہمیشہ رسہ گیر اور صاحب ِ جاگیر ہی کی حمایت کی ہے کیونکہ اُسے بھی ”عیاشی ” کے تمام تر ذرائع اِنہی لوگوں کی دہلیز سے میسر آتے ہیں خادم اعلیٰ پنجاب جناب ِ میاں شہباز شریف نے پولیس کلچر کی اصلاح کے لیے اربوں روپے خرچ کر ڈالے مگر تھا نہ کلچر میں تبدیلی نہیں لائی جا سکی ۔۔۔۔۔ سی سی پی او لاہور کیپٹن (ر) محمد امین وینس صاحب سے میری اکثر اِسی موضوع پرنشستیں ہوتی ہیں کہ پولیس کلچر کو کیسے بدلا جا سکتا ہے ۔۔۔۔؟ مگر وہی روایتی بے حسی اور سُستی ،جائے واردات پر ہمیشہ تاخیر سے پہنچنا ہماری بہادر پولیس کا پسندیدہ مشغلہ ہے جس کی واضع مثالیں آپ کو سانحہ کوٹ رادھا کشن ، یوحنا آباد ، سانحہ فیصل آباد ،سانحہ ماڈل ٹائون ایسے واقعات میں روز روشن کی طرح نظر آتی ہیں ہزاروں ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ جب واردات ہو جاتی ہے ڈاکو سب کچھ لوٹ کر چلے جاتے ہیں ہماری بہادر پولیس کے ”شیر دل ” جوان پھر ہوٹر مارتی گاڑیوں کے ساتھ نمبر ٹُنگنے کے لیے پہنچ جاتے ہیں۔۔
Police
خادم اعلیٰ شو باز شریف بھی صرف نمبر ٹُنگ پالیسی پر کام کرتا ہے وہ بھی اس نظام کے خلاف صرف گرجتا ہی ہے یہ سب کچھ عوام کو محض بے وقوف بنانے والی بات کے مترادف ہے ،خالی خولی انقلاب کی باتیں کرنا اور سلطان راہی کی طرح بڑھکیں ما رنا محض اپنے آپ کو تسلی دیناہے اگر شو باز شریف واقعی پولیس کلچر میںانقلاب کے خواہش مند ہیں تو سب سے پہلے اپنے آپ کو نچلی سطح پر لانااور عوام ہی کے طرز زندگی کو اپنانا ہو گا اور آپ چا ہتے ہیں کہ غریب عوام کی قسمت سنورے تو سب سے پہلا کام آپ کو یہ کرنا ہو گا کہ آپ خود ساختہ خادمیت کا نقاب اُتار کر ،شا ہانہ طرز زندگی اور جاہ و حشم و کروفر کو ترک کر کے عوام میں اپنے آپ کو لائیں اور عوامی سٹائل میں زندگی گزارنا سیکھیں عوام کے اندر رہیں تا کہ آپ کو اندازہ ہو سکے کہ ایک غریب انسان کس طرح ہر لمحہ اور ہر گھڑی پولیس کلچر کی اذیت کا شکار ہو تا ہے آپ کو معلوم ہو سکے کہ ما رکیٹ میں آپ ہی کے ایم پی ایز اور ایم این ایز نے ذخیرہ اندوز مافیاز سے مل کر پیاز کاریٹ کیا مقرر کیا ہوا ہے اور چینی اور آٹاآج کس ریٹ پر دستیاب ہے۔۔۔۔۔ ؟آپ نے تو زندگی بھر کبھی بھی مارکیٹ کا رخ ہی نہیں کیا آپ کو کیا معلوم کہ غریب عوام کے شب وروز کیسے بسر ہو رہے ہیں پل پل ان کے نا تواں جسم پر انگارے لوٹ رہے ہیں بقول شاکر شجاع آبادی
جیویں عمر نبھی اے شاکر دی ہِک منٹ نبھا پتہ لگ ویندے
اگر آپکو ایک منٹ بھی ڈبن پورہ میں رات بسر کرنا پڑے تو چینی ،آٹے کا بھا ئو معلوم ہو جائے گا کہ کس طرح مچھر رات کو ساکنین ڈبن پورہ کا سواگت اور عزت افزائی کرتے ہیں لاہورکے چندپوش ایریا ز کے علاوہ زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم ان علاقوں میں اگر آپ کو کچھ راتیں اور دن گزارنا پڑ جائیں تو آپ بڑھکیں مار نا اور انقلاب انقلاب کی رٹ لگانا بھول جائیں گے اور سارا دن اپنے جسم کو خارش کرتے گزار دیں گے لاہور کی ٹوٹی پھوٹی سڑکیں ، ابلتے گٹر ،بہتی نالیاں ، دھوواں چھوڑتی گا ڑیاں اور کانوں کے پردے پھاڑتا بے ہنگم ٹریفک کا شور آپ کے دور حکومت کاشاخسانہ ہے لاہور کے چند علاقوں کوتمام سہو لیات کا چغہ پہنا دینے اور چند سڑکوں کو کا رپوریٹس کر دینے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ نے واقعی انقلاب رونما کر دیا ہے ، خادم اعلیٰ صاحب ضلع لیہ آئیں اور آکر عوام کی بے بسی کا نظارہ کریں عمران خان بھی تو جا گیر داروں کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے اور تحریک انصاف کے قیام کے اول روز سے لے کر تا دم گفتگو وہ ایک ہی موقف پر ڈٹا ہوا ہے کہ یہ سب چور لٹیرے ہیں اور ملک کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں ان کے خلاف جہاد کرنا اور ان کے ظالمانہ شکنجوں سے غریب عوام کو آزاد کرانا عمران خان کی زندگی کا مقصد ہے قول و فعل میں یکسانیت کا مظہر کپتان ظالمانہ اور جاگیر دارانہ ذہنیت کے خلاف مورچہ زن ہے اور آج یہی وجہ ہے کہ وہ دن بدن عوام کی آنکھوں کا تارا اور غریب عوام کے دکھوں کا سہارا بنتا جا رہا ہے خادم اعلیٰ صاحب۔۔۔۔ آپ بھی یہ منصب اور عزت حاصل کر سکتے ہیں مگر اس کے لیے شرط صرف ایک ہی ہے کہ آپ قول و فعل کے تضاد سے نکل کر دل و زبان سے ایک ہو جائیں اور جھوٹے ٹسوے بہانا چھوڑ دیں اور اپنی خواہشوں اور چا ہتوں کا رخ عوام کی طرف موڑ دیں آپ بھی عوام کے دلوں پر حکمرانی کر سکتے ہیں ،امید ہے خادم اعلیٰ اور ان کی کچن کیبنٹ بھی ان با توں پر دھیان دے گی اور انقلاب کے مفہوم کو سنجیدگی سے لے گی اور غریب عوام کو بھتہ مافیاز کلچر سے نجات دلائے گی ۔۔۔۔۔۔ہمارا کام تھا ضلعی انتظامیہ کے دلوں پر دستک دینا ، اب دیکھتے ہیں کہ کون سا افسر بھتہ مافیاز کے خلاف سنجیدہ ایکشن لیتا ہے ۔۔۔۔۔؟یا پھر اپنی ”خواب گاہ”اور ”عیش گاہ ” کی بالکونی سے صرف پردہ سِرکا کر”مجھے پردے میں رہنے دو ” کا گیت گاتا اور جام ِ غفلت سے دِ ل لبھاتا ہے ۔۔۔۔۔افسر تو افسر ہی ہوتا ہے ، چاہے وہ کسی پسماندہ علاقہ کا ہو یا پوش ایریاز کا ۔۔۔۔۔۔عیاشی اور فحاشی دونوں(اِلا ماشا ء اللہ ) کا پسندیدہ مشغلہ ہوتا ہے، پڑھنے والوں کو آگاہ کرتا چلوں کہ اِلا ما شا ء اللہ کا مطلب ہوتا ہے ہر شعبہ میں نیک و بد ، گناہگار ، نیکو کار موجود ہوتے ہیں اب بھی محکمہ پولیس میں گنتی کے چند افسر موجود ہیں جو رات کی تنہائیوں میں اپنے رب تعالیٰ کو یاد کرتے ہیں تو دن کی پنہائیوں میں رب تعالیٰ کی مخلوق کی خدمت میں کمر بستہ نظر آتے ہیں ۔۔۔۔۔۔شعبہ صحافت میں بھی ایک طرف توایسے عناصر موجود ہیں جو دن کی جلوتوں میں گلے میں پریس کارڈ لٹکائے دیہاڑی کے چکر میں کسی سیاسی وڈیرے کی خوشامد اور چاپلوسی میں مصروف نظر آتے ہیں تو رات کی خلوتوں میں شراب کے نشے میں ”دُھت ”کسی حسینہ کے پہلو میں دِل پشوری کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں جبکہ دوسری طرف ایسے صحافی بھی ہیں جو دن کو مخلوق کو راضی کرتے ہیں تو رات کو خالق کی رضا کا دم بھرتے ہیں ، زندگی کے ہر شعبہ میں انواع و اقسام کے لوگ موجود ہیں ۔۔۔۔۔اللہ تعالیٰ ہم سب پر رحم فرمائے (آمین)