لوزین (جیوڈیسک) ایران کے جوہری پروگرام پر عبوری سمجھوتے کی ڈیڈ لائن قریب آتی جا رہی ہے اور اس سلسلے میں سوئٹزرلینڈ کے شہر لوزین میں مذاکرات کا ایک نیا دور جاری ہے۔روسی وزیر خارجہ مذاکرات کے اس فیصلہ کن دور میں شریک نہیں ہیں۔روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروو کی ترجمان کا کہنا تھا کہ اگر ڈیڈ لائن تک کسی معاہدے کے حقیقی امکانات پیدا ہو گئے تو روسی وزیر خارجہ مذاکرات میں واپس آ جائیں گے۔اس سے قبل روسی وزیرِ خارجہ سے جب پوچھا گیا کہ آیا ان کے خیال میں کوئی ڈیل متوقع ہے تو ان کا جواب تھا کہ انھیں ’اس بات کے پیسے نہیں ملتے کہ پْرامید دکھائی دوں۔
جوہری پروگرام سے متعلق عبوری معاہدے کی ڈیڈ لائن آج منگل 31مارچ کو ختم ہو رہی ہے۔مذاکرات کاروں کی کوشش ہے کہ منگل کی رات تک وہ ایک سیاسی ڈھانچے پر متفق ہو جائیں جو جس کی بنیاد پر تکنیکی تفصیلات کے حوالے سے ایک وسیع البنیاد معاہدہ طے پا سکے۔ اس وسیع البنیاد معاہدہ کے لیے 30 جون کی حتمی تاریخ مقرر کی گئی ہے۔پیر کوسوئٹزرلینڈ کے شہر لوزین میں ہونے والے مذاکرات میں ایرانی وفد کی سربراہی وزیر خارجہ محمد جاوید ظریف کر رہے ہیں جبکہ امریکہ، جرمنی اور فرانس کے وزرائے خارجہ کے علاوہ چین ، اور برطانیہ کے نمائندے بھی مذاکرات میں شریک ہیں۔ایران کا کہنا ہے کہ ڈیل تو ممکن ہے لیکن مذاکرات ایک مشکل مرحلے میں ہیں اور بہت سے معاملات اب بھی طے ہونا باقی ہیں۔
برطانوی وزیرِ خارجہ فلپ ہوم لینڈ نے سوئٹزلینڈ پہنچنے کے بعد اپنے بیان میں کہا کہ’ ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق کسی معاہدے پر پہنچا جا سکتا ہے تاہم ایٹمی بم کو ایران کی پہنچ سے دور رکھنا ہوگا۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم یہاں اس لیے موجود ہیں کیونکہ ہمیں یقین ہے کہ کسی بات پر اتفاق ہو سکتا ہے لیکن یہ ڈیل یا مفاہمت ایسی ہونی چاہیے جس میں جوہری بم ایران کی دسترس سے باہر ہو جائے۔ اس (بم) کے معاملے پر کوئی مفاہمت نہیں ہو سکتی۔ امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی، روس اور چین چاہتے ہیں کہ ایران دس برس سے زائد عرصے کے لیے جوہری پروگرام معطل کر دے۔
ایران کے مذاکرات کار حامد بیدنِجاد کہتے ہیں کہ 15 سال تک جوہری پروگرام بند رکھنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا مگر دس سال کے لیے ایسا کرنے پر بات چیت جاری ہے۔ ابتدا میں ایران نے 10000 سینٹری فیوجز مشینوں کو آپریشنل رکھنے کا اصرار کیا تھا۔ نومبر 2014 میں امریکہ نے اشارہ دیا تھا کہ وہ 6000 سینٹری فیوجز میں کام جاری رکھنے کو تسلیم کر سکتا ہے مگر ایرانی حکام کا کہنا کہ وہ ساڑھے چھ سے سات ہزار تک سینٹری فیوجز کو آپریشنل رکھنے کے لیے زور دے رہے ہیں۔لوزین میں موجود بی بی سی نامہ نگار باربرا پلِیٹ کے مطابق ایران کے جوہری پروگرام پر ایک دہائی پابندی عائد کی جائے گی جس میں سخت معائنہ کاری بھی شامل ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ ان مذاکرات میں پیش رفت ہوئی ہے تاہم اب بھی اس پر باہمی اتفاق نہیں ہو سکا کہ ایران کو کتنے عرصے تک اپنا پروگرام محدود رکھنا ہوگا اور اس پر عائد پابندیوں سے اسے کتنے عرصے میں چھٹکارا مل سکے گا۔عالمی طاقتیں ایران سے مطالبہ کر رہی ہیں کہ وہ اپنی سینٹری فیوجز مشینوں میں سے دو تہائی کمی کرے اور جوہری مواد کے ذخیرے کو روس کے حوالے کر دے۔
ایران نے کہا ہے کہ وہ اپنے ہاں افزودہ کیے گئے یورینیم کے ذخائر بیرون ملک نہیں بھجوائے گا تاہم اس معاملے میں عالمی طاقتوں کے ساتھ مل کرکوئی اور حل نکالا جائے گا۔عالمی طاقتوں سے مذاکراتی کمیٹی کے رکن عباس قراقجی نے سوئٹرزلینڈ میں ایک بیان میں کہا کہ مسئلے کے متبادل پہلوئوں پر ہماری بات چیت ہوئی ہے اور ہم حل کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ تاہم یہ طے ہے کہ ایران افزدہ کیے گئے یورینیم کو بیرون ملک منتقل کرنے کا معاہدہ نہیں کرے گا۔
“عباس قراقجی کا کہنا تھا کہ ایران کے جوہری تنازع پر عالمی طاقتوں سے مذاکرات اختتام کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ بیشتر اہم معاملات طے پا گئے ہیں۔ صرف دو تین مسائل حل طلب رہتے ہیں۔ ایک یورپی سفارتکار نے بھی تصدیق کی ایسے مسائل حل ہونا باقی ہیں۔