تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نرم گداز قالین پر بیٹھا مرمریں ستون سے ٹیک لگائے میں خو شگوار حیرت سے پوری دنیا سے آئے ہوئے عاشقانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھ رہا تھا۔ میرے رگ و پے میں نشے اور سرور کی لہریں دوڑ رہی تھیں یقینا میں اپنی زندگی کی بہترین گھڑیوں کو ENJOY کر رہا تھا میں اِن لمحوں کو قطرہ قطرہ جنت کی شراب سمجھ کر پی رہا تھا۔
میں چشم تصور میں چودہ صدیاں پہلے والے مدینہ پاک کو ڈھونڈ رہا تھا ۔محسنِ انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے پروانوں کے ہجوم میں جلوہ افروز ہیں کہ ایک معصوم اور پاگل سی لڑکی شہنشاہِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آتی ہے یہ لڑکی مدینہ منورہ کی گلیوں میں پھرتی رہتی تھی اور خود سے باتیں کرتی رہتی اہل مدینہ کو پتہ تھا کہ یہ لڑکی پاگل ہے اِس لیے کوئی بھی اِس پر توجہ نہ دیتا آج یہ لڑکی سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آگئی اور کہنے لگی یا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرا ایک کام کریں گے محسنِ انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہاں بتائو کیا کام ہے معصوم لڑکی بولی تو آپ ۖ میرے ساتھ آئیے۔
رحمتِ دو جہاں ۖ فرمانے لگے تم مجھے کہاں لے جانا چاہتی ہو تو لڑکی نے عرض کی اُس گلی تک آپ ۖ میرے ساتھ چلیں میں پھر آپ ۖ کو بتائو گی کہ مجھے آپ ۖ سے کیا کام ہے رحمتِ دو عالم ۖ نے فرمایا اچھا چلو میں تمھارے ساتھ چلتا ہوں صحابہ یہ سارا منظر بہت حیرت سے دیکھ رہے تھے کہ اِس پاگل لڑکی کے کہنے پر حضور ۖ اُس کے ساتھ تشریف لے جا رہے ہیں ۔جبکہ اُس پاگل لڑکی کو خود بھی نہیں معلوم کہ وہ کیا کر رہی ہے ۔ لیکن رحمتِ دو عالم ۖ اس لڑکی کے ساتھ کے ساتھ تشریف لے گئے وہ لڑکی مدینہ کی گلیوں میں چلتی رہی اور آپ ۖ سے اِدھر اُدھر کی باتیں کرتی جارہی تھی ۔ نبی کریم ۖ اُس لڑکی کے ساتھ اُس کے کہنے پر چلتے رہے ایک جگہ پر پہنچ کر وہ لڑکی رک گئی اوروہاں بیٹھ گئی اور حضور ۖ سے کہنے لگی یا رسول اللہ ۖ آپ ۖ بھی بیٹھ جایئے ۔ فخرِ دو عالم ۖ اُس لڑکی کی دل جوئی کے لیے بیٹھ گئے ۔ لوگوں کو شدید حیرت ہو رہی تھی کہ حضور ۖ ایک پاگل لڑکی پر اتنی توجہ دے رہے ہیں جبکہ صحابہ جانتے تھے کہ رسول اللہ ۖ پوری امت اور جہانوں کے والی ہیں سب کے ہمدرد اور غم گسار ایک معمولی پاگل سی لڑکی کے لیے رحمت دو جہاں ۖ صحابہ کو چھوڑ کر اُس کے ساتھ مدینہ پاک کی گلیوں میں پھرتے رہے ۔ یقینا آپ ۖ ہی سراپا دو جہاں ہیں اگر چشمِ بینا سے دیکھیں تو زمین آسمان کائنات کا چپہ چپہ آپ ۖ سے محبت کے جذبہ نے اپنے اند سمو رکھا ہے ۔ انسان تو انسان حیوانات بھی عشقِ رسول ۖ سے معمور تھے یہ بھی محسنِ انسانیت ۖ سے شدید محبت کرتے تھے انصار مدینہ میں سے کسی کے پاس ایک اونٹ تھا جس سے وہ پانی ڈھویا کرتا تھا ۔ وہ کسی وجہ سے سرکش ہو گیا لہذا اب وہ سر کشی کی وجہ سے اپنی پیٹھ پر پانی نہ اٹھا تا تھا اونٹ کا مالک سرورِ کونین ۖ کے حضور حاضر ہوا اور عرض کی یا رسول اللہ ۖ ہمارا اونٹ سرکش ہو گیا ہے اب وہ پانی نہیں اٹھا تا شہنشا ہِ دو عالم ۖ اُس صحابی کے ساتھ اُس کے باغ میں گئے جہاں وہ سرکش اونٹ ایک گوشے میں کھڑا تھا نبی کریم ۖ اُس اونٹ کی طرف بڑھے تو صحابہ نے عرض کی یا رسول اللہ ۖ یہ اونٹ کاٹنے والے کتے کی مانند ہو گیا ہے ۔ ڈر ہے کہ کہیں آپ ۖ کو تکلیف نہ پہنچائے حضو ر ۖ نے فرمایا تم اطمینان رکھو مجھے اِس سے کچھ ڈر نہیں۔
Muhammad PBUH
جب اونٹ نے مالک ِ دو جہاں ۖ کو اپنی طرف آتا دیکھا تو وہ دوڑ کر آیا اور اپنا سر آپ ۖ کے قدموں میں رکھ دیااور سجدے میں گِر پڑا ۔ رحمتِ دو جہاں ۖ نے اُس کے بال پکڑلیے اور وہ ایسا مطیع ہو گیا کہ پہلے کبھی نہ ہوا ہو گا ۔ اِسی طرح رحمتِ دو جہاں جلوہ افروز تھے کہ ایک اونٹ نے آکر آپ ۖ کے قدموں میں اپنا سر رکھ دیا تو آپ ۖ نے پوچھا یہ اونٹ کس کا ہے یہ مجھ سے اپنے مالک کی شکایت کر رہا ہے ۔ بعد میں تحقیق پر جب یہ بات سچ ثابت ہوئی تو حضور ۖ نے اُس اونٹ کو اس کے مالک سے لے کر صدقے کے اونٹوں میں بھیج دیا۔ مومنین کی ماں حضرت عائشہ صدیقہ کے دولت کدہ کے ایک گوشے میں ایک بکری بر وقت اِس انتظار میں رہتی کہ کب رحمت ِ دو جہاں ۖ آئیں گے اور وہ آپ ۖ کا چہرہ اقدس کا دیدا ر کرے گی ۔ جتنا عرصہ فخرِ دو عالم ۖ حضرت عائشہ کے گھر رہتے وہ مسلسل رحمتِ دو جہاں کو تکتی رہتی نبی کریم ۖ سے عشق اُس کی آنکھوں میں نظر آتا ۔ جیسے ہی نبی کریم ۖ باہر تشریف لے جاتے تو بکری ہجر کی آگ میں جلنا شروع ہو جاتی ۔ بکری کا سکون غارت ہو جاتا اور وہ بے قراری اور پریشانی میں مثل پروانہ شمع محبت کی تلاش میں عالم پریشانی میں گھر کے اند ر ایک کونے سے دوسرے کونے تک تیز تیز چلتی اُس کی یہ بے چینی بے قراری انتظار اُس وقت ختم ہو تا ۔ جب وہ محسنِ انسانیت ۖ کو دوبارہ دیکھ لیتی جیسے ہی آقائے دو جہاں کے رخِ انور سے گھر روشن ہو تا وہ بھی غریق ِ مست مئے دیدار پر سکون ہو کر بیٹھ جاتی اور مسلسل ساقی کوثر ۖ کے چہرہ منور کو تکے جاتی اور اپنی پیاسی بجھاتی رہتی۔
شافع ِ محشر ۖکے خاندان کے پاس ایک ہرن تھا وہ اکثر اِدھر اُدھر دوڑتا چوکڑیاں بھرتا اور خوب شور مچاتا لوگ اُس کی اچھل کود اور حرکتیں دیکھ کر خوب لطف اندوز ہوتے ۔اور لوگوں کو اپنی طرف متوجہ دیکھ کر وہ اور بھی شوخیاں کرتا ۔ لیکن یہ تمام شوخیاں اور اچھل کود وہ اُسی وقت کرتا جب محبوب ِ خدا ۖکا شانہ نبوت سے باہر تشریف لے جاتے یہ اُس کا روزانہ کا معمول تھا لیکن جیسے ہی فخرِ دو عالم ۖ واپس کا شانہ نبوت میں تشریف لاتے تو وہ تمام شوخیاں ، شرارتیں اور بھاگ دوڑ بند کر کے خاموشی سے بیٹھ جاتا اور متمنانے کی بھی جرات نہ کرتا اِس طرح بے حس و حرکت خا موشی سے بیٹھ جا تا کہ جیسے وہ وہاں موجود ہی نہیں اُس کی خاموشی کی وجہ وہ ادب و احترام تھا جو وہ شافع محشر ِ ۖ کا کرتا کہ کہیں بارگاہِ رسالت ۖ میں کوئی بے ادبی نہ ہو جائے ۔ یہ انداز جو ہرن نے اختیار کیا وہ عشقِ رسول ۖ ہی تھا کیونکہ جہاں عشق ہو گا وہا ں ادب کا ہونا لازم شرط ہے وگرنہ دعوٰی عشق سچا ثابت نہیں ہو تا اِسی طرح معراج کی رات براق کا عشق اور احترام بھی ایمان افروز ہے ۔فتح خیبر میں مال ِ غنیمت میں جو مال آیا اُس میں گوش دراز بھی تھا ۔ اُس گوش دراز کی عقیدت اور عشقِ رسول ۖ بھی عاشقان ِ رسول ۖ کے دل گرماتا ہے ۔فخرِ دو عالم ۖجب بھی باہر جاتے تو اپنی خاص اونٹنی پر سواری کرتے وہ اونٹنی حضورانور ۖ کو دیکھ کر باغ باغ ہو جاتی اور اُس کے دل کی کلی کھل اٹھتی ادب سے بیٹھ جاتی محبت سے آپ ۖ کو اپنی پشت پر بیٹھاتی اور احتیاط سے قدم اٹھا تی اور اپنی خوش بختی پا نازاں ہوتی اور جب رحمتِ دو جہاں ۖ اپنے رفیق اعلی کے پاس تشریف لے گئے تو جب اپنی خالی پشت پر نظر ڈالتی تو تڑپ اٹھتی جدائی کے غم میں کھانا پینا ترک کر دیا روز بروز کمزور ہوتی گئی آپ ۖ سے جدائی اور عشق کا داغ لیے دنیا سے رخصت ہو گئی اور ہمیشہ کے لیے زندہ ہو گئی۔
Prof Abdullah Bhatti
تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی help@noorekhuda.org