لاہور (جیوڈیسک) مختصر ہوتے ہوئے بھی زندگی بڑھ جائے گی ، ماں کی آنکھیں چوم لیجئے روشنی بڑھ جائے گی ، لیکن جب طاقتور ماں کی آنکھوں کی روشنی ہی چھین لیں تو ویسی ہی قیامت ٹوٹتی ہے جو لاہور کے پندرہ سالہ زین علی کی بیوہ ماں پر ٹوٹی ہے۔
ایک سابق وفاقی وزیر صدیق کانجو کے بیٹے کی کار کسی دوسری گاڑی سے ٹکرائی۔ نوبت تلخ کلامی سے آگے بڑھی تو طاقت کا نشہ سر چڑھ کر بولا۔ سابق وزیر کے بیٹے نے فائرنگ کر دی اور ایک گولی موت بن کر تیرہ سالہ زین کو جا لگی جو صرف وہاں سے گذر رہا تھا۔
ایک ایسے گھر کا دیا بجھ گیا جس کے سربراہ کا سایہ پہلے ہی اُٹھ چکا تھا اور پیچھے رہ گئی آہ و بکا ۔ میں نے روتے ہوئے پونچھے تھے کسی دن آنسو ، مدتوں ماں نے نہیں دھویا دوپٹا اپنا ، لیکن آج یہ عالم ہے کہ خود ماں کے آنسو پونچھنے والا کوئی نہیں اور کوئی ایسی ماں کے آنسو پونچھے بھی کیا جس کے بڑھاپے کا واحد سہارا بھی اُس سے چھن گیا ہو۔
کوئی اُن دوبہنوں کو کیا دلاسہ دے جن کی دنیا ہی اُن کا بھائی تھی ۔ بے کراں تنہائیوں کا سلسلہ رہ جائے گا، ہمارے تمہارے درمیاں بس اِک خلا رہ جائے گا ۔ ماں گھر میں محنت کر کے سموسے بناتی اور زین علی انہیں سپلائی کرنے کی ذمہ داری نبھاتا اور پھر یہ کہتا ہوا تھک ہار کر اپنی ماں کی آغوش میں سوجاتا۔ تیرے دامن میں ستارے ہیں تو ہوں گے اے فلک، مجھ کو اپنی ماں کی میلی اوڑھنی اچھی لگی ، لیکن طاقت نے سب ختم کر دیا اور پیچھے رہ گئیں حسرتیں، اداسیاں اور عمر بھر کا غم۔