تحریر: میر افسر امان اسوقت مشرق وسطیٰ میں تین قوتیں بر سر پیکار ہیں۔ ایران، سعودی عرب اور امریکا۔ تینوں کے اپنے اپنے عزائم ہیں۔ جب ہم امریکا کا نام لیتے ہیں تو اس سے ہمارا مطلب صلیبی اور صہونیوں کا اکٹھ ہے۔ جو شیعہ سنی دونوں کا دشمن ہے۔ان ہی کی مشترکا سازشوں اور مسلمانوں کے اندرونی خلفشار کی وجہ سے اسلامی دنیا کا ہزار سالہ اقتدار ختم ہوا تھا۔ اسلامی دنیا پر انگریز، ڈچ اور کہیں فرانسیسی قابض ہو گئے تھے۔
اِنہوں نے اسلامی دنیا پر اپنی آخری کیل١٩٢٤ء میں خلافت عثمانی پر ٹھونک کر مسلمانوں کو کئی راجوڑوں میں تقسیم کیا تھا جو آج بھی کسی نہ کسی شکل میں امریکا کے پٹھوں حکمران کہیں فوجی ڈکٹیٹروں اور کہیں مطلق العان بادشاہوں کی شکل میں موجود ہیں۔مسلمانوں نے اپنے شروع کے دور میں اپنی اصولی جد وجہد کے ذریعے ان سے اقتدار چھینا تھا جسے اسلامی تاریخ میں قیصر وکسریٰ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ قیصر صلیبیوں اور کسریٰ پارسیوں کو کہتے ہیں۔ایک عیسائی دنیا اور دوسری پارسی دنیا۔ اسی دوران شیعہ اور سنیوں میں خلافت اور امامت کے اختلافات بھی چلتے رہے جو مسلمانوں کے زوال کی بھی ایک وجہ ہے۔ اگر ہم موجودہ دور کی بات کریں تواس وقت شیعوں کی امامت ایران کر رہا ہے۔ سنیوں کی امامت سعودیوں کے ہاتھ میں ہے اور ان دنوں کو امریکہ صلیبی اور صیہونی لڑا رہے ہیں۔
اگر آپ اس بات کو سمجھنا چاہتے ہیں تو کچھ اس طرح ہے کہ جب ایران میں امام خمینی نے انقلاب بر پاہ کیا تو امریکا کو ایک آنکھ نہ بھایا۔امریکا نے ایران کے انقلاب کو نقصان پہچانے کے لیے عراق کے سنی حکمران صدام حسین کو استعمال کیا۔ دس سال تک ایران اور عراق میں جنگ ہوتی رہی۔ امریکاپھر سعودیوں کو صدام کا حوا دیکھا کر انکے پیسے کی مدد سے عراق پر حملہ آور ہوا۔ عراق میں شیعہ سنی جھگڑے شروع کرا کے جاتے جاتے شیعہ مالکی رہنما کو اقتدارحوالے کیا جس نے انصاف سے حکومت کرنے کے بجائے سنیوں کی قتل غارت کی جس میں ایران کی اشیر آباد شامل تھی۔ اس رد عمل اور امریکا کی مدد سے ان کے سامنے سنی قیادت داش کھڑی کی۔ اس کو اسلحہ فراہم کیا داعش نے عراق اور شام کے سرحدی علاقوں میں اپنی خلافت کا اعلان کر دیا۔ اب مالکی کے بعد عراق میں باقاعدہ شیعہ ملیشیا اور سنی داعش آپس میں لڑ رہے ہیں۔ اسی طرح شام میں شیعہ بشار کے خاندان کو ایک عرصہ سے سنی اکثریت پر قابض کیا ہوا ہے۔ جس کے لیے سنی اکثریت بشار شیعہ سے بر سرے پیکار ہے۔امریکا شام میں بشار کے مخالف سنیوں کی مدد کر رہا ہے۔
امریکا پاکستان میں بھی اپنی ایجنٹوں کے ذریعے شیعہ سنیوں کو آپس میں لڑواکر قتل و غارت کروا رہا ہے۔ بڑی مہارت سے سعودیوں کو اخوان المسلمین کے خلاف کیا ۔ مصری ڈکٹیٹر سیسی کے ذریعے مصر کی جمہوری حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ اخوانیوں کو عدالتوں کے ذریعے بھانسیوں کی سزا دے کر راستے سے ہٹا دیا۔سعودیوں نے اربوں ڈالر سے سیسی ڈکٹیٹرکی مدد کی۔ فلسطین میں حماس کے ساتھ بھی سعودیوں کی لڑائی کر دی اور اخوان اور حماس اور حزب اللہ کو دہشت گرد قرار دے دیا گیا۔ یمن میں بھی امریکی فوج موجود تھی وہاں القاعدہ پر ڈرون حملے بھی ہورہے تھے مگر اب گریٹ گیم کی وجہ یعنی شیعہ سنی لڑائی کرانے کے لیے وہاں سے اپنی فوج ہٹا لی۔ امریکا یمن میں شیعہ عناصر کی مدد کر رہا ہے ایران نے بھی یمنی شیعہ باغیوں کو جہاز اُڑانے کی تربیت دی ہے اور عسکری مدد بھی کر رہا ہے۔ اب یمن میں شیعہ زیدی قبائل اور سنی اکثریت لڑ رہے ہیں۔ شیعہ باغیوں نے یمن کے کئی شہروں پر قبضہ بھی کر لیا ہے اور اخباری خبروں کے مطابق مکہ اور مدینہ کی طرف چڑھائی کی باتیں کر رہے ہیں۔ سعودی بھی اب امریکا کی گریٹ گیم کو کچھ کچھ سمجھنے لگے ہیں۔
Saudi Arabia and Pakistan
اس لیے اپنے اتحادی امریکا سے مدد مانگنے کے بجائے پاکستان کی طرف رجوع کیا ہے۔ اس میں شک کی کوئی بات نہیں کہ پاکستان کے نواز شریف صاحب کے سعودیوں سے ذاتی تعلقات ہیں۔ ویسے بھی سعودی پاکستان کی ہر بُرے وقت میں پاکستان کی مدد کرتے رہے ہیں۔ سعودی عرب میں مسلمانوں کے مقدس مکامات ہیں۔ جن کی حفاظت کے لیے پاکستانی جان و مال سے ہر وقت تیار ہیں اور تیار بھی رہنا چاہیے۔ مگر ساتھ ہی ساتھ امریکا کی گریٹ گیم کو بھی سمجھنا چاہیے۔ مسلمانوں میں شیعہ سنی ایک حقیقت ہے۔ شعیوں کا اورسنیوں کا اپنا اپنا ایک تاریخی نقطہ نظر ہے۔ ایک طرف ایران ہے تو دوسری طرف سعودی عرب ہے۔ پاکستان مسلم دنیا کی ایک بہادر فوج اور عظیم ایٹمی طاقت ہے ۔ جسے یقیناً مسلمانوں کی عظمت کا مظہر ہونا چاہیے۔اس طاقت کو مسلمانوں کے مشترکا دشمنوں کے خلاف استعما ل ہونا چاہیے نہ کہ آپس کے جھگڑوں میں۔اس لیے پاکستان میں ایسی بحثیں نہیں ہونی چاہیے کہ شعیہ ایران کے ساتھ ہوں اور سنی سعودی کے ساتھ۔ بل کہ سب کو حق کا ساتھ دینا چاہیے۔ پاکستانیوں کی مشترکا رائے ہے کہ ہمارے اور ترکی کے حکمران اس معاملے میں پڑ کر ثالثی کا کردار ادا کریں۔ اس سلسلے میںنواز شریف صاحب ترکی گئے ہیں یہ اچھی بات ہے۔ اس ملاقات میں ترکی نے بھی سعودی عرب سے یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔ دونوں نے ایران کو بھی اعتماد میں لینے کی بات ہے جو خوش آئند ہے۔
پاکستان نے پالیمنٹ کا مشترکا اجلاس بھی بلایا ہے اس میں کھل کر بات ہونی چاہیے جس میں پاکستان اور مسلمانوں کی بھلائی ہے وہ راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ جلد بازی میں فیصلے نہیں ہونے چاہیے ہیں۔ اس سلسلے میں ہم اپنے گذشتہ کالموں میں کئی بار نشان دہی کر چکے ہیں کہ کوئی بھی فریق اپنے اپنے مئوقف سے پیچھے نہیں ہٹے گا ۔یہ کوئی ایک دو دن کی بات نہیں ہے بل کہ صدیوں کا معاملہ ہے۔ اس بات کو اللہ پر چھوڑ دینا چاہیے۔ اللہ آخرت میں فیصلہ کر دے گا کہ کون حق پرہے۔ دونوں فریقوں کا اس میں ہی فاعدہ ہے ۔ ہم اپنے کالموں میں بیان کرتے رہے ہیں۔ اپنے اپنے عقیدے پر قائم رہو دوسرے کے عقیدے کو مت چھیڑو۔ کسی کو بھی کافر مت کہو۔رہا اقتدار تو اس کا ایک ہی فارمولہ ہے جہاں جہاں جس جس ملک میں جس فرقے کی اکژیت ہے اسی کو حکمرانی کا حق ہے۔
اگر امریکی کا آلہ کار بن کر کسی بھی اکثریت پر اقتدار حاصل کرنے کی کسی بھی فرقے نے کوشش کی، جیسے ابھی تک ہو رہا ہے تو اس سے ا مریکا کو ہی فاعدہ ہوگا مسلمانوں کی صرف بربادی ہی ہو گی۔امریکا برسوں سے مسلمانوں کو لڑا کر اپنا الو سیدھا کر کے اپنا اسلحہ فروخت کر رہا ہے۔فلسطین، کشمیر، بوسینیا، عراق، افغانستان ،پاکستان ،برما،چیچناغرض ہرجگہ مسلمانوں کاخون بہہ رہاہے۔ اب یہ بات مسلمانوں سمجھ آ جانی چاہیے۔اب نہیں آئے گی تو کب سمجھ آئے گی؟ جب مسلمان امریکا یعنی صلیبیوں اورصہونیوں کی مکمل غلامی میں چلے جائیں گے؟ جس کسی نے اسرائیل کی پارلیمنٹ پر کندہ یہ الفاظ نہیں پڑھے ہیں تو اب پڑھ لے وہ الفاط کیا ہیں”اے اسرائیل تیری سرحدیں نیل اور دجلہ تک ہیں” اس میں مکہ اور مدینہ بھی شامل ہیں۔ اللہ مسلمانوں کا حامی و ناصر ہو آمین۔