تہران (جیوڈیسک) ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے کہا ہے کہ ایران دنیا میں اپنا اعتدال پسند، تعمیری اورباوقار کردار ادا کرنا چاہتا ہے اس لیے حتمی معاہدے پر عملدرآمد کرنے میں اپنا کردار ادا کرے گا۔
اگر مغربی ممالک اس معاہدے سے جسے 30جون کو حتمی شکل دی جانی ہے، سے پیچھے ہٹ گئے توایران اپنی جوہری سرگرمیوں کو دوبارہ شروع کرنے کا اہل ہوگا۔یہ بات انھوں نے سرکاری ٹی وی کے ایک ٹاک شو کے دوران کہی۔ ایرانی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ایران مغربی طاقتوں کی جانب سے معاہدے کی پاسداری نہ ہونے کی صورت میں ایسا ایکشن کرنے اور واپس لوٹنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
جواد ظریف کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر معاہدے کی خلاف ورزی ہوئی تومعاہدے میں شامل تمام فریق اس پرعمل کرنے کی ذمے داری سے الگ ہوسکتے ہیں۔ انھوں نے واضح کیا کہ 30جون یعنی حتمی معاہدے پر اتفاق رائے کے لیے مقرر کی گئی ڈیڈلائن سے قبل تک جمعرات کوطے پانے والے عبوری معاہدے کی کوئی پابندی نہیں ہے۔
جواد ظریف نے مزید کہا کہ اگرمغربی ممالک کے ساتھ ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے معاہدہ طے پاگیا تو اس کے ساتھ ہی ایران کے جوہری پروگرام کے خلاف سلامتی کونسل میں موجود قراردادیں اوریورپی یونین اورامریکا کی جانب سے اس پر عائد پابندیاں غیرموثر اورختم ہوجائیں گی۔ ایرانی وزیرخارجہ نے کہاکہ جان کیری نے عبوری معاہدے کے اعلان میں ایران کی پابندیاں ’ختم‘ کرنے کے بجائے ’معطل‘ کرنے کالفظ استعمال کیاجس پرانھیں اعتراض ہے۔
جواد ظریف نے کہا کہ جان کیری کا مقصد اوباما انتظامیہ اور کانگریس کے درمیان اس ڈیل کے حوالے سے دوری پیدا کرنا ہے۔ کسی بھی ملک کا نام لیے بغیر جواد ظریف کاکہنا تھاکہ ہم ایٹم بم کے لیے کوشش نہیں کررہے، نہ ہی ہم خطے میں بالادستی چاہتے ہیں۔ ہمارے ہمسایوں کی سیکیورٹی ہماری بھی سیکیورٹی ہے۔
دریں اثنا ایرانی فوج کے سربراہ جنرل حسن فیروزآبادی نے عالمی طاقتوں کے ساتھ جوہری مذاکرات میں کامیابی پر ایرانی سپریم لیڈرکو مبارکباد دیتے ہوئے کہا ہے کہ جوہری معاہدے کے لیے فریم ورک نے اس کے ایٹمی پروگرام کو محفوظ بنادیا ہے۔ ادھر اسرائیلی وزیراعظم بیجمن نیتن یاہونے سی این این سے گفتگو کے دوران ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیاں ہونے والے جوہری معاہدے کومسترد کرتے ہوئے کہاہے کہ یہ ایک برامعاہدہ ہے۔
اس سے ایران کو ایک بڑے جوہری ڈھانچے کی بنیاد رکھنے اورفوجی طاقت کومضبوط بنانے کا موقع مل جائے گا۔ نیتن یاہو نے کہاکہ یہ معاہدہ ایرانی نیوکلیئر پروگرام کورول بیک نہیں کرے گااور نہ کوئی ایک سینٹری فیوج کو ضائع نہیں کیا جائے گا۔
اس کے علاوہ نہ ہی کسی ایک جوہری ادارے کوبند کیا جائے گا بلکہ ہزاروںسینٹری فیوجز یورنیم افزودہ کرتے رہیں گے۔ اس سے خطے میں موجود سنی ممالک میں اسلحے کی دوڑ شروع ہوجائے گی۔ دریں اثنا لبنانی شیعہ ملیشیا حزب اللہ کے رکن ممبر پارلیمان نوارساحلی نے کہاہے کہ اس معاہدے سے ایران کے ایٹمی پروگرام کوعالمی سطح پرتسلیم کرلیا گیاہے اوریہ عمل ایران کے جوہری کلب میں شمولیت کو تسلیم کیے جانے کی مثال ہے۔ امیدہے کہ یہ معاہدہ خطے میں سلامتی اورامن کے لیے مثبت اثرات چھوڑے گا۔