کاروان ادب پاکستان کی دوسری دو روزہ کانفرنس مکمل

Conference

Conference

لاہور (اختر سردار چودھری) پاکستان میں بچوں کا ادب ہمیشہ سے بے اعتنائی کا شکار رہا ہے ۔ گزشتہ حکومتوں نے بچوں کے ادب اور ادیب کی سرپرستی کا ذمہ لیا جس میں نیشنل بک فائونڈیشن اور بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی دعوة اکیڈمی میں شعبہ بچوں کا ادب نے فعال کردار ادا کیا لیکن گذشتہ چند سالوں میں بچوں کے ادب و ادیب کی سرپرستی سے ہاتھ اٹھا لیا گیا اور پاکستان کے دیگر اداروں کی طر ح ان اداروں کا بھی کوئی پرسان حال نہ رہا اور آخر کار یہ ادارے فنڈز کی عدم دستیابی کی وجہ سے معدوم ہوتے چلے گئے ۔ ایسے میں پاکستان میں بچوں کے لیے لکھنے والوں اپنے طور پر اپنی مدد آپ کے تحت بچوں کے ادیبوں کو ایک پلیٹ فارم ”کاروان ادب پاکستان ” مہیا کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ہی ملک گیر تحریک بن گئی جس میں پاکستان کے چاروں صوبوں سے بچوں کے رسائل اور نوجوان اہل قلم اس تحریک کا حصہ بن گئے ۔ کاروان ادب پاکستان جہاں پاکستان میں ادیبوں کی تربیت ، بچوں کے لیے لکھی کتب کی پذیرائی و مذاکرات کا بن اہتمام کرتا ہے وہاں ہر سال کاروان ادب کانفرنس کا انعقاد بھی بروئے کار لاتا ہے جس میں ہر سال سینکڑوں ادیب جمع ہو کر بچوں کے ادب کے فروغ کے لیے اپنی آواز بلند کرتے ہیں امسال بھی دو روزہ کاروان ادب کانفرنس 2015کا اہتمام لاہور میں کیا گیا جس میں ملک بھر سے سینکڑوں بچوں کے ادیبوں و مدیران رسائل ،دانشور وں اور مشاہیر کی بڑی تعداد نے شرکت کی ،اور اس کانفرنس کو پاکستان میں بچوں کے ادب کی تاریخ ساز کانفرنس قرار دیا گیا ۔

پہلا دن : 22مارچ2015کی روشن دوپہر تھی،نیشنل ہوٹل لکشمی چوک لاہور کے مرکزی گیٹ پر کاروان ادب کانفرنس کے میزبان ندیم اختر ،اظہر عباس ،کاشف بشیر کاشف اور وسیم کھوکھر ملک بھر سے آنے والے قلمکاروں کا استقبال کر رہے تھے۔ تعمیر ملّت اور فروغ ادب اطفال کے لیے کوشاں کاروان ادب پاکستان نے ”دو روزہ کاروان ادب کانفرنس” کے انعقاد کے لیے بچوں کے ادیبوں،مدیران رسائل اور مشاہیر کوملک کے چاروں صوبوں بشمول آزاد کشمیر سے مدعو کیا تھا۔نیشنل ہوٹل کے کمرے ادیبوں اور مدیران رسائل سے بھرتے چلے جارہے تھے ۔اور شام مغرب سے پہلے تک پاکستان بھر میں سے 100سے زائد مہمانان نیشنل ہوٹل میں آچکے تھے ۔ نماز مغرب کے بعد نیشنل ہوٹل کے عمر ہال میں استقبالیہ اور کانفرنس کے پہلے سیشن ”ایک شام مدیران رسائل کے نام ” کا آغاز کاروان ادب کانفرنس 2015ء کے کوارڈینیٹر اظہر عباس نے افتتاحی اجلاس میں شرکاء سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ معزز مہمانوں کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیںکہ بچوں کے ادب کے فروغ کی اس تحریک میں ہمارے ہم قدم کھڑے ہیں۔اس کے بعد انہوں نے خواجہ مظہر صدیقی کو کانفرنس کی نظامت تفویظ کی۔

پہلا سیشن : ”ایک شام مدیران رسائل کے نام ” نقیب مجلس خواجہ مظہر صدیقی نے حاجی لطیف کھوکھر کو دی کہ وہ تلاوت قرآن حکیم سے کانفرنس کا باقائدہ آغاز کریں۔تلاوت کے بعد تقریب کے خاص مہمانوں جناب اختر عباس(معروف ادیب ودانشور) ،جناب اشفاق احمد خاں(ایڈیٹر آفاق انسائیکلو پیڈیالاہور)،جناب طارق حسین(ڈائریکٹر رابعہ بک ہائوس لاہور)،جناب ندیم اختر(بانی ممبرکاروان ادب پاکستان)،جناب محبوب الٰہی مخمو(چیف ایڈیٹر ماہنامہ انوکھی کہانیاں کراچی)ر،جناب سید فصیح اللہ حسینی (ایڈیٹر ماہنامہ ساتھی کراچی )،جناب علی حسن ساجد(ایڈیٹر ماہنامہ جنگل منگل کراچی)،جناب اشرف سہیل(چیف ایڈیٹر ماہنامہ پکھیرو لاہور)،جناب فرخ شہباز وڑائچ(ایڈیٹر ماہنامہ پیغام ڈائجسٹ لاہور )،جناب سعید سعیدی(ایڈیٹر ماہنامہ بزم منزل کراچی)،جناب آفتاب شاہ(ایڈیٹر ماہنامہ بزم قرآن لاہور ) ،جناب تصور عباس سہو(ایڈیٹر بچوں کا گلستان خانیوال) ،جناب امان اللہ نیئر شوکت(چیف ایڈیٹر بچوں کا پرستان لاہور) اور جناب ڈاکٹر ضیغم مغیرہ(چیئرمین الفلاح سکالرشپ سکیم ) کو سٹیج پر جلوہ افروز ہونے کی دعوت دی گئی۔

جناب ڈاکٹر ضیغم مغیرہ نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ کاروان ادب اسم بامسمیٰ ہے۔آدم کو علم و حکمت کی وجہ سے ملائکہ پر فضیلت دی گئی۔انسانیت کے لیے پہلا حکم الٰہی”اقرائ” علم کی فضیلت کی واضح دلیل ہے۔انہوں نے پیش کش کی کہ ضرورت مند طلباء اور خصوصََا قلکاروں کے لیے ترکی میں اعلیٰ تعلیم کے حصول میں ہمارا ادارہ ہر لحاظ سے معاون ہو گا۔جناب نورمحمد جمالی(بلوچستان)نے شرکاء سے گفتگو کرتے ہوئے کاروان ادب کی کوششوں کو سراہا۔اور بلوچستان کی نمائندگی دینے پر شکریہ ادا کیا۔ محترمہ رابعہ حسن (آزاد کشمیر)نے کہا کہ میرا تعارف قلم اور کتاب ہے۔انہوں نے مدیران رسائل سے درخواست کی نئے لکھنے والے قلمکاروں کی حوصلہ افزائی کریں۔محترمہ راحت عائشہ نے رسائل و جرائد کی افادیت پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مجھے لکھنا انہی رسالوں کے مطالعہ سے آیا۔انہوں نے کہا کہ آج اگر میں کسی مقام پر ہوں تو انہی رسالوں کی مرہون منّت ہے۔نوجون صحافی جناب سید بدر سعید نے بچوں کے ادب کی ترویج و اشاعت کے لیے کاروان ادب کی کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ لیہ سے ساہیوال،ساہیوال کے بعد لاہور کو ادبی سرگرمیوں کا مرکز بنانا جان جوکھم کام ہے اور بچوں کے ادب کے فروغ کے لیے یہ تحریک اپنی مثال آپ ہے ۔ جناب علی حسن ساجد (کراچی)نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ جب تک بچے ہیں تب تک بچوں کا ادب ہے یعنی بچوں کا ادب ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا ۔انہوں نے لکھاریوں کے اتحاد پر بھی زور دیا۔انہوں نے پیش کش کی کہ کاروان ادب کااگلا پروگرام کراچی میں منعقد کریںتو میری طرف سے حتی الامکان تعاون حاصل ہو گا۔جناب سید فصیح الدین (ماہنامہ ساتھی) نے کہا کہ کاروان ادب کے توسط سے ملک بھر سے آئے ادیبوں اور مدیران سے ملاقات کا موقع میسر آیا۔نئی نسل کی آبیاری میں اہل قلم کا بہت اہم کردار ہے۔جناب فرخ شہباز وڑائچ(ماہنامہ پیغام)نے کہا کہ بچوں کے ادب کے فروغ کے لیے نئے آئیڈیاز پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

جناب طارق حسین (رابعہ پبلشرز)نے کہا کہ بچوں کا رشتہ کتاب اور قلم سے ہٹ کر جدید ذرائع ابلاغ کی طرف منتقل ہو گیا ہے۔ان کو کتابوں کی طرف راغب ہونے کے لیے انداز میں جدت لانی ہو گی اور ہمہ پہلو ادب تخلیق کرنا ہو گا۔ جناب نوشاد عادل(کراچی) نے کانفرنس کی بچوں کے ادب کے حوالہ سے خدمات کو سراہا اور منتظمین کا شکریہ ادا کیا۔جناب اشفاق احمد خاں(آفاق انسائیکلو پیڈیا)نے رسائل کے مدیران کی بچوں کے ادب کے حوالہ سے کاوشوں کو سراہا۔انہوں نے کہا کہ مسائل کے باوجود بچوں کے لیے رسائل کا اجراء قابل ستائش ہے۔انہوں نے کہا کہ بچوں کا ادب تخلیق کرنے والوں کی ذمہ داری ہے کہ ایسا ادب تخلیق کریں جو دور حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہواور اطفال میں اعلیٰ اخلاقی اقدار کو فروغ دینے کے ساتھ زبان و بیان کی درستگی اور اظہار کے سلیقے بھی سکھائے۔اختر عباس نے کہا کہ قلمکار اپنے لیے نہیں لکھتا بلکہ انعام اور اکرام کی توقع رکھے بغیر دوسروں کے لیے لکھتا ہے۔انہوں نے کہا کہ فنکار بہت ہیں لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ انہیں ڈھونڈا جائے اور تراشا جائے۔قلمکار لوگوں کا آئیڈیل ہوتا ہے اس لیے اسے ایسا ہونا چاہیے کہ دوسروں کے لیے مشعل راہ بنے۔ انہوں نے نوجوان لکھاریوں سے مخاطب ہو کر کہا کہ اپنے مقام کا تعین خود نہ کریں بلکہ دوسروں کو کرنے دیں۔

دوسرا سیشن :”بچوں کے ادیبوں کے مابین تقریب بہر ملاقات ” کانفرنس کے پہلے دن کے دوسرے سیشن ”تقریب بہر ملاقات ” کی صدارت معروف ناول نگار جناب امجد جاوید نے کی ۔ جب کہ مہمانان گرامی میں معروف ناول نگار عبدالرشید عاصم ، بچوں کے پسندیدہ ادیب عبدالرشید فاروقی ، معروف ادیب اعجاز احمد اعجاز،بچوں کے معروف ادیب احمد عدنان طارق ، کوارڈی نیٹر کانفرنس اظہر عباس ، ایوارڈ یافتہ مصنف ڈاکٹر افضل حمید ، چیئر مین پاکستان رائٹر پوائنٹ رانا راشد علی خان ، بچوں کے معروف ادیبہ رابعہ حسن ، بچوں کی مصنفہ راحت عائشہ ، معروف کہانی نویس محمد ناصر زیدی ، سابق مدیر شہباز جاوید نور اور حق نواز چشتی تھے ۔ اس نشست میں مجلس میں شریک تمام احباب نے فرداََ فرداََ اپنا مختصر مگر جامع تعارف کروایا۔اس نشست میں نامور اہل قلم احباب نے بچوں کے ادب کو درپیش مسائل اور ان کے حل کے لیے موثر تجاویز بھی پیش کیں۔یہ سیشن اس لحاظ سے بھی یاد گار رہا کہ قلمکاروں نے اپنی تخلیقات سے بھی آگاہ کیا اور اپنی ادبی زندگی کے احوال کو بھی گفتگو کا حصہ بنایا۔اس سیشن سے خطا ب کرتے ہوئے کاروان ادب پاکستا ن کے بانی ممبر ندیم اختر نے کہا کہ کاروان ادب پاکستان کوئی باضابطہ ادارہ نہیں بلکہ یہ بچوں کے ادیبوں کی ایک ایسی تحریک ہے جو میں بچوں کے لیے لکھنے والے اور مدیران رسائل سمیت وہ تمام شخصیات اس کا حصہ ہیں جو ادب سے وابستہ ہیں ۔ اور پاکستان میں بچوں کے ادب کے فروغ کے لیے سب سے بڑی تحریک ابھر کر سامنے آئی ہے جس کی مثال اس کانفرنس میں ملک بھر کے مختلف شہروں سے ادیبوں اور مدیران رسائل کا ایک جگہ اکٹھا ہونا ہے ۔اور وقت کے ساتھ ساتھ اس کادائرہ کار بڑھتاجارہاہے اور اس وقت پاکستان میں بچوںکے ادب سے وابستہ ہر شخص اس تحریک کا حصہ ہے۔

کاروان ادب کانفرنس کا دوسرا دن : کاروان ادب پاکستان کی دوسرے روز پہلی نشست چلڈرن لائبریری کمپلکس لاہور میں منعقد ہوئی۔معروف ناول نگار،افسانہ نگار محترم جناب انتظار حسین(ستارہ امتیاز ) جبکہ مہمانان گرامی میں معروف دانشور و ادیب اختر عباس ،معروف ڈرامہ نگار یونس جاوید (پرائیڈ آف پرفارمنس ) ایڈیٹر آفاق انسائیکلو پیڈیا اشفاق احمد خان ، کوارڈی نیٹر آفاق محمد زمان ، پراجیکٹ آفیسر دوآبہ فائونڈیشن محمد سمیر خان نیازی تھے ۔ دوسرے دن کی نظامت جاوید نور ، صابر عطا ء ، رابعہ حسن اور محمد وسیم کھوکھر نے کی ۔

پہلا سیشن “بچوں کی تعمیرشخصیت میں اہل قلم کا کردار”(مقالہ جات ) پہلے سیشن کے آغاز میں بانی کاروان ادب پاکستان کاشف بشیر کاشف نے کاروان ادب پاکستان اور کانفرنس کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ کاروان ادب پاکستان کا آغاز تین سال قبل میرے سمیت ندیم اختر ، عبداللہ نظامی ،محمد وسیم کھوکھر نے سوشل میڈیا کے توسط سے پرانے وہ لکھنے والے جو کئی دہائیوں سے لکھنا چھوڑ چکے تھے انہیں ایک پلیٹ فارم پر اکٹھاکرنے کے لیے کیا اور اس کے نتیجے میں دسمبر 2013 میں باقاعدہ ان کے لیے پہلی کانفرنس کا انعقاد ساہیوال میں کیا گیا جس میں پنجاب ،سرحد اور سندھ سے 60سے زائد ادیب جمع ہوئے ۔ بعد ازاں کاروا ن ادب کے تحت لاہور میں اظہر عباس کی رہائش گاہ پر افطار پارٹی ،الحمرا میں عطاء الحق قاسمی کی زیر صدارت جس کے مہمان خصوصی انسپکٹر جمشید سیریز کے خالق اشتیاق احمدتھے ،احمد عدنان طارق کی کتاب بارش اور گلاب کی تقریب رونمائی اور شیخوپورہ میں قاسم پبلک سکول میں جس کے میزبان قاسم سرویا تھے مذاکرہ ”بچوں کے ادب میں مضافاتی ادیبوں کاکردار ” کا انعقاد کیا ۔ اور دیکھتے دیکھتے سوشل میڈیا سے شروع ہونے والی تحریک پورے ملک کے ادیبو ں کے دلوں کی دھڑکن بن چکی ہے ۔ جس کا خالصتا مقصد بچوں کے ادب کا فروغ ہے ۔ دوسرے سیشن میں بچوں کی تعمیر شخصیت میں اہل قلم کا کردار ”کے موضوع پر اشرف سہیل ،محبو ب الہی مخمور ، ڈاکٹر طارق ریاض (سائنسی بابو) اور ڈاکٹر افضل حمید نے مقالہ جات پیش کیے ۔

اشرف سہیل(ماہنامہ پکھیرو)نے اس نشست میں شرکاء سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ بچوں کے ادب کی ابتداء بچپن میں بڑوں سے سنی گئی کہانیوں سے ہوئی۔انہوں نے بچوں کے لیے لکھنے والے اہل قلم کا مفصل تعارف کروایا۔جناب ڈاکٹر ریاض(سائنسی بابو)نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ شخص مر جاتا ہے لیکن شخصیت زندہ رہتی ہے۔بیج خواہ کتنا ہی اعلیٰ کیوں نہ ہو جب تک اس کو سازگار ماحول میسر نہ ہو گا اس وقت تک وہ ایک تناور درخت نہیں بن سکتا۔شخصیت پر ماحول اور وراثت کا گہرا اثر ہوتا ہے۔اہل قلم کی تحریروں کے ذریعے بچوں کی فکری اور کرداری تعمیر ہو سکتی ہے۔ادیب کو امید کا چراغ جلائے رکھنا چاہیے۔جناب محبوب الٰہی مخمور (مدیر انوکھی کہانیاں)نے شرکاء سے خطاب کے دوران کہا کہ درسی کتب سے حاصل ہونے والی تعلیم صرف معاشی ضروریات کو پورا کرتی ہے۔رسائل و جرائد کا مطالعہ بچے کو اخلاقی آسودگی مہیا کرتا ہے اور اسلامی طرز زندگی کے متعلق آگاہ کرتا ہے۔اچھے لکھاریوں کی تخلیقات بچوں کے لیے مشعل راہ ہوتی ہیں۔انہوں نے کتاب کی افادیت کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ جن مقامات پر انٹرنیٹ کی سہولت میسر نہیں وہاں کتاب کے ذریعے سے ہی سیر،صورت اور سیرت سے آگاہ کیا جاتا ہے۔جناب ڈاکٹر محمد افضل نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ لکھنے والے دستار اور معاش کے لیے لکھ رہے ہیں اس لیے ان کی تخلیقات میں اثر باقی نہیں رہا۔اچھا قلمکار خیر اور شر کا فرق بتاتا ہے۔قلم کی طاقت قوموں کو ابھارتی اور حوصلہ دیتی ہے۔جبکہ مہمانان گرامی نے خطاب کرتے ہوئے کہا جس میں جناب اشفاق احمد خاں نے شرکاء سے مخاطب ہو کر کہا کہ بچے ملک و قوم کے معمار اور اثاثہ ہیں اس لیے بچوں کا ادب تخلیق کرنے والوں کی ذمہ داری ہے کہ ایسا ہمہ پہلو ادب تخلیق کریں جو دور حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو۔اس ادب کے مطالعہ سے بچوں کے اندر موجود تجسس،جستجو کے جذبے کو تسکین ملے اور ان کو آگے بڑھنے کی امنگ ملے۔محمد زمان نے اظہار خیال کرتے ہوئے آفاق رائٹرز فورم کا تعارف کروایا اور کہا کہ نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔جناب سمیر خان نیازی نے ملک میں رونماہونے والی آفات کے حوالے بات کی اور اس بات پر زور دیا کہ اہل قلم اپنا کردار ادا کریں اور اپنی تحریروں میں آفات سے بچائو کے حوالے سے بھی تحریروں کا حصہ بنائیں تاکہ لوگ آفات سے قبل از وقت تیاری کو یقینی بنا کر اپنے نقصانا ت کوکم سے کم کرسکیں ۔ صدر محفل معروف ناول نگار،افسانہ نگار محترم جناب انتظار حسین نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ مختلف ادارے،انجمنیں اور افراد بچوں کی تربیت کے حوالے سے خاصے متفکر ہیں ۔پرانے نظام تعلیم اور خاندانی نظام میں بچوں کی تربیت کا مسئلہ اتنا اہم نہیں تھا۔شیخ سعدی اور قصص القرآن کے ذریعے بزرگ تربیت کر دیتے تھے۔موجودہ وقت میں ہمارے معاشرے سے نانی،دادی “رخصت”ہو گئی ہیں۔انہوں نے کہا کہ خاندان کے بکھرنے سے دادا،دادی کی کہانیوں کے ذریعے سے تربیت ملنے کا سلسلہ بند ہو چکا ہے۔انہوں نے بچوں کے لکھاریوں کو رائے دی کہ بچوںکا ادب تخلیق کرتے وقت بچوں کی کیفیت کو خود پر طاری کر لیا کریں۔آخر میں انہوں نے کاروان ادب کی کامیابی کے لیے دُعا کی۔

دوسرا سیشن : ”نوجوان اہل قلم کی اگلی منزل ڈرامہ نگار ی ” دوسرے سیشن کی صدارت معروف ڈرامہ نگار یونس جاوید جبکہ مہمان خاص گل نوخیر اختر ،اور مہمانان گرامی میںاختر عباس، منیر احمد راشد ، علی حسن ساجد ، امجد جاوید اور نوشاد عادل تھے ۔ معروف کالم نگار گل نو خیز اختر نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ مضمون میں ایسی کیفیت پیدا کرنی چاہیے کہ پڑھنے والا بوریت محسوس نہ کرے۔انہوں نے کہا کہ کاروان ادب نے بچوں کے ادب کی زوال پذیر صورتحال کو بہتر بنانے کا جو بیڑہ اٹھایا ہے ،اس کے مضبوط اور فعال کردار کے نتیجہ میں بچوں کے ادب کو نئی جان مل گئی ہے۔ مشہور ڈرامہ اندھیرا اُجالا کے خالق جناب یونس جاوید نے کہا کہ بچوں کا ادب تخلیق کرنا ہمیشہ اہم مگر نازک مسئلہ رہا ہے کیوں کہ اس کے لیے جہاں بچوں کی نفسیات،رجحانات،معاشرت اور ماحول کا دقیق علم درکار ہے وہاں بچوں کے فہم و ادراک کی سطح پر اُتر کر تحریر کرنے اور سمجھانے کا فن بھی نہایت ضروری ہے۔

تیسرا سیشن : بچوں کے لیے لکھی گئی کتابوں کی تقریب رونمائی ” اس سیشن کی صدارت محبوب الہی مخمور ایڈیٹر ماہنامہ انوکھی کہانیاں ،جبکہ مہمان اعزاز اختر عباس اور مہمانان گرامی میں ندیم اختر ، رابعہ حسن ، احمد عدنان طارق ، نوشاد عادل ، طارق حسین ، عبدالصمد مظفر ، طاہر عمیر ، محمد علی تھے ۔ اس سیشن میں 15کتابوں کی تقریب رونمائی کی گئی ۔ جس میں گائیڈ پبلی کیشنز کی جانب سے محبو ب الہی مخمور اور نوشاد عادل کی مرتبہ بچو ں کے ادیبوں کی آب بیتیاں ،رابعہ حسن کی کتاب پنتیس سال بعد، اختر عباس کی نئی کتاب ڈریگن کی واپسی اور رابعہ بک ہائو س لاہور کی جانب سے شائع ہونے والی بارہ ادیبوں کی کتابیں جن میں سنہر ی کرن عبدالصمد مظفر ، انعامی لائبریری اعظم طارق کوہستانی ، نیاعزم نیا حوصلہ فصیح الدین حسینی ، شرارت کی چالاکی ندیم اختر ، مار نہیں پیار محمد علی ، بیس روپے کا نوٹ سائرہ غفار ، خواہش سے تکمیل تک افروز فاطمہ ، تتلیاں اور ستارے علی عمران ممتاز ، سچے رشتے حافظ نعیم سیال ، احساس حیدر علی ، صندوق کا راز رابعہ شاہین اور امید کے جگنو طاہر کی کتابیں شامل ہیں ۔

اختر عباس نے سال 2015ء کے تین مہینوں میں اتنی ساری بچوں کی کتابوں کی اشاعت کو بچوں کے ادب کی کامیابی قرار دیا ۔ کانفرنس کے اختتام پر اختر عباس نے شرکاء سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ وہ تحریر زندہ رہتی ہے جو انسانوں سے،بڑے ارادوں سے،خیالوں سے اور خوابوں سے محبت کرتی ہے۔انہوں نے کہا کہ کہانی میں کسی کردار کو متعارف اس طرح کروایا جائے کہ قاری کو یہ بتانے کی ضرورت نہ رہے کہ یہ کردار اچھائی کا ہے یا برائی کا ۔لکھنے والے کردار کے خسائل کو اس طرح بیان کریں کی پڑھنے والے کو اس کردار کی خصوصیات کا اندازہ ہو جائے۔

تقریب تقسیم ایوارڈ و یادگاری شیلڈ ز اس سال لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ معروف ناول نگارو خالق انسپکٹر جمشید سیریز اشتیاق احمد کو دیا گیا جبکہ بچوں کے ادب میں گراں قدر خدمات کے اعتراف میں کاروان ادب ایوارڈ تین بچوں کے ادیبوں جن میں عبدالصمد مظفر، عبدالرشید فاروقی اور محبوب الہی مخمور کو دیاگیا ۔ جبکہ شرکاء میں اسناد اور یادگاری شیلڈ بھی تقسیم کی گئیں ۔اس دوران کراچی سے آئے ہوئے بچوں کے ادیبوں کے وفد محبو ب الہی مخمور ، علی حسن ساجد ، منیر احمد راشد ، نوشاد عادل نے سندھی اجرک بطور تحفہ انتظار حسین ، اختر عباس اور ندیم اختر کو پیش کیا ۔ کانفرنس کے اختتام پر شرکاء کو نظریہ پاکستان فائونڈیشن کا معلوماتی دورہ بھی کروایا گیا جہاں نظریہ پاکستان فائونڈیشن کے وائس چیئرمین جناب پروفیسر رفیق احمد نے نظریہ پاکستان کے متعلق تفصیلی لیکچر دیااور بچوں کے ادب کے فروغ کے لیے کاروان ادب کی کوششوں کو سراہا۔اور کانفرنس اپنے ساتھ بہت سی یادیں اور اس عہد کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی کہ سال 2015بچوں کے ادب کے لیے سنہری سال ہوگا جس میں نئے لکھنے والوں کے ساتھ ساتھ پرانے لکھنے والے ایک بار اپنے قلم کو رواں کریں اور بچوں کی تربیت میں اپنا اہم کردار ادا کریں گے ۔

دوسری دو روزہ کاروان ادب کانفرنس کے ملک بھر سے آنے والے بچوں کے ادیبوں کے نام انتظار حسین (لاہور ) گل نوخیر اختر (لاہور )یونس جاوید (لاہو ر) محمد ندیم اختر (لیہ )رضوانہ ندیم اختر (لیہ )عبداللہ نظامی (لیہ )شکیل اختر (لیہ )صابر عطا (لیہ ) کاشف بشیر کاشف (ساہیوال )فرخ کاشف (ساہیوال )محمد وسیم کھوکھر (ہیڈ مرالہ سیالکوٹ )اظہر عباس (لاہور )برہان اظہر (لاہور )نادیہ اظہر (لاہور )دعائے سحر (لاہور )اختر عباس (لاہور )اشفاق احمد خان(لاہور )محمد زمان (لاہور )محمد سمیر خان نیازی (اسلام آباد ) طارق حسین (لاہور )محمد ناصر زید ی (لاہور )مظہر عباس (جھنگ )صائمہ محمد علی (لاہور ) صائمہ الماس (لاہور ) رفعت مظہر (لاہور )راشد ابراہیم (گوجرانوالہ) محبوب الرحمن (چوک اعظم ) اورنگ زیب (بہاولپور ) بروج حطیم ( منڈی بہائولدین ) ضیغم مغیرہ (منڈی بہائوالدین ) اشفاق احمد خان (لاہور ) آغر ندیم سحر ( منڈی بہائوالدین ) سید نعیم ادیب جعفری (کراچی ) رائو مظہر الیاس (خانیوال ) پروفیسر غلام حسن صابر (مظفرآبا د آزاد کشمیر) روبن سن سیموئیل گل (راولپنڈی ) نور محمد جمالی (اوستہ محمد بلوچستان ) تاج انصاری (لاہور ) ڈاکٹر عبیداللہ (خانیوال ) ذیشان اختر شیخ (وہاڑی ) شاہد شیرازی (مردان ) زبیر ارشد (ملتان ) ذوالقرنین حیدر (لاہور ) ڈاکٹر عبیدالرحمن( لاہور ) اعجاز احمد اعجاز (اسلام آباد ) خواجہ مظہر صدیقی (ملتان ) بشارت علی ( قصور ) عبدالرشید عاصم (رحیم یار خان ) عبدالماجد (آزاد کشمیر ) راحت عائشہ (کراچی ) رابعہ حسن (مظفرآبا دآزاد کشمیر ) عائشہ خان (لاہور )سید بدر سید (لاہو ر) امین بابر (رحیم یار خان ) تصور عباس سہو (خانیوال ) شیخ شاہد لطیف (مانگا منڈی ) اعظم طارق کوہستانی (کراچی ) عمار محبو ب (اسلام آباد ) عمران سہیل بوبی (اوکاڑہ ) عمران سکھیرا(لیہ ) نورالہدی (لاہور ) شہر یار بھروانہ (جھنگ )عبدالرشید فاروقی (جھنگ ) حاجی لطیف کھوکھر (لاہور )عبدالصمد مظفر (لاہور ) سہیل قیصر ہاشمی (لاہور ) محمد علی (اسلام آباد ) عرفات ظہور (ملتان ) زبیر ناصر (ملتان ) خالد جاوید (رحیم یار خان ) منیر احمد راشد (کراچی ) جاوید نور (کوئٹہ ) فرخ شہباز وڑائچ (لاہور ) سید فصیح اللہ حسینی (کراچی ) طارق حسین (لاہور ) اختر عباس (لاہور ) محبو ب الہی مخمور (کراچی ) امان اللہ نیر شوکت (لاہور ) علی حسن ساجد (کراچی ) اشرف سہیل (لاہور )صابر عطا (چوک اعظم لیہ ) افضا ل عاجز (لاہور ) افق دہلوی (لاہور ) رانا راشد علی خان (فیصل آباد ) نوشاد عادل (کراچی ) غلام محی الدین ترک (کراچی ) سید رفیع الزمان (کراچی ) امجد جاوید (حاصل پور ) آفتاب خان (لاہور ) شریف شیوہ (لاہور ) آفتاب احمد خان (لاہور ) رانافاروق طاہر (گوجرانوالہ ) محمد فہیم عالم (لاہور ) محمد ناصر زیدی (لاہور ) ضیا اللہ محسن (ساہیوال ) احمد عدنان طارق (فیصل آباد )حافظ نعیم احمد سیال (ملتان )عمر فاروق ڈیروی (ڈیری غازیخان ) ڈاکٹر افضل حمید (فیصل آباد ) حمادلرحمن گورایہ (گوجرانوالہ ) قاسم گورایہ (گوجرانوالہ) نیر صدیقی (گوجرانوالہ ) حق نواز چشتی (فیصل آباد ) محمد رمضان (گوجرانوالہ) محمد فرحان (گوجرانوالہ ) معروف احمد چشتی (حویلی لکھا ) محمد نعیم یوسف (شیخوپورہ ) اختر رسول جنجوعہ (جنڈیالہ شیر خان )

کاروان ادب کانفرنس کا اعلامیہ دو روزہ سالانہ کاروان ادب کانفرنس کے پانچ سیشنوں کے مقررین نے اجتماعی طور پر اپنے اپنے خطاب میں حکومت پر زور دیتے ہوئے مطالبہ پیش کیے کہ نئی نسل کے کردار سازی اور انہیں علم و عمل کے میدان میں محبت وطن پاکستان بنانے کے لیے صوبائی و قومی سطح پر ”وزرات اطفال ” کا قیام عمل میں لایا جانا چاہیے ۔ انہوں نے کہا کہ دینی ، علمی ادبی ،سیاسی و سماجی سطح پر کی جانے والی بین الاقوامی ، قومی و صوبائی سطح پر منعقد کی جانے والی سرکاری کانفرنسز میں بچوں کے ادیبوں کو بھی مدعو کیا جائے ۔ انہوں نے مزید زور دیتے ہوئے کہا کہ سکول سطح سے لے کر یونیورسٹی سطح پر بچوں ،نوجوانوں کے لیے بزم ادب کے پیریڈ کو بحال کیا جائے اور کالجز کی طرح سکول سطح پر بھی بچوں کے لیے سکول میگزین کا اجراء کیا جائے جس سے پرائمری سطح سے ہی میں لکھنے اورمطالعہ کا شوق پیدا ہوگا اور فروغ ہو گا جس سے پڑھے اور لکھے معاشرے کا خواب تعبیر پائے گا۔ قومی و صوبائی حکومتی بجٹ کے اندر بچوں کے ادب اور ادیبوں کے لیے بھی فنڈز مختص کیے جائیں ۔اور اکادمی ادبیات کے طرز پر ڈویژنل سطح پر ادارے قائم کیے جائیں۔