تحریر : محمد شہباز فکرِاغیار، سو چ بچار، حالت استفسار، آزادی ء اظہار اور صاحب خو د مختار رہنا بہت اچھی با ت ہے مگر اس کا یہ مطلب تو ہر گز نہیں کہ انسا ن بلا وجہ ہی کسی دوسرے کے الفاظ پر اپنے ہی غیر ضرو ری نقا ط لگا کر نا صر ف ان الفا ظ کو بگاڑ دے بلکہ ان کے مطا لب کو بھی مکمل طو ر پر تبدیل کر دے تاکہ ان کی سو چ امن و آشتی کی بجا ئے فساد اور ظلم و زیادتی کو جنم دے دے ۔ آج اگر معاملہ صر ف اپنے ہی گھر تک محدود ہو تا تو کو ئی بڑی با ت نہیں تھی کیو نکہ ہم تو ان معا ملا ت کو بر سو ں سے ایسا ہی دیکھ رہے ہیں اور ہر لحا ظ سے ان الجھی ہو ئی گتھیو ں کو سلجھا نے کی نا ممکن کا و شیں بھی سر انجا م دے ر ہے ہیں مگر جب معاملہ کسی دو سرے کے سا تھ منسو ب ہو جائے تو پھر اپنے معاملا ت کو فو قیت دینی چا ہیے ناکہ اغیار کی الفت کو اپنے او پر حاوی کر کے، اپنے سا تھ منسو ب عوام کی خوا ہشا ت کو پس پشت ڈال کر ، محض چند رنگ و نما ئش سے مزین پنو ں اور لا ئق صد احتر ام اعزا زت کے لیے پچھلے کئی بر سو ں سے چھٹر ی جنگ کو آخر ی دہا نے پر لا کر پھر نئے سرے سے ہو ا دینی چا ہیے۔کچھ لو گ تو بڑ ے آرا م سے یہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ ہمارا حق ہے کہ ہم اپنی مر ضی سے جیسی گفتگو مر ضی کر یں مگر انھیں یہ نہیں پتہ کہ ایسا حق جب وہ کسی کے عقید ے پر انگلی اُٹھا نے کے لیے استعمال کر تے ہیں
وہ در حقیقت کسی دو سرے کا بنیا دی مذہبی اور سما جی دو نو ں قسم کے حقو ق کا قتل ِعام کر تے ہیں کیو نکہ دنیا کا کو ئی مذہب بھی کسی دو سرے مذہب کو یا اُس کے لو گو ں کو یا اس سے بھی زیا دہ عام مگر وسیع اصطلا ح میں کسی بھی انسا ن کی روایا ت اور اس کے عقید ے کو ٹھیس پہنچا نے کی ہر گز اجا زت نہیں دیتا۔ حتی کہ ادب سے تعلق رکھنے والے بھی کچھ لو گ اگر یہ کہتے ہیں کہ ادب مذہبی اقدارنہیں سکھا تا لیکن وہ سا تھ ہی اس با ت کا اعترا ف بھی کر لیتے ہیں کہ یہ انسا نیت ضر و ر سکھا تا ہے کیو نکہ انسا نیت ہر انسان کی بنیا دی صفت ہے جو کہ چند سما جی روایا ت اور رو ا بط کی وجہ سے منظر ِعام پر نہیں رہی اور شا ذو نا در ہی کسی کسی انسان میں ملتی ہے ۔ مذ ہب اگر تقلید ی سو چ کا نا م ہوتا تو شر و ع سے ایک ہی چلتا مگر مختلف اوقات میں مختلف اقوام کے لیے مختلف مذا ہب اتارے گئے اور پھر آخر میں ایک ہی کو ساری کا ئنا ت اور پو ری عا لم انسانیت کے لیے را ئج فرما یا گیا اور اسے اصلا ح ، امن اور محبت کا را ہنما بنا یا گیا۔ اگر اپنے ذاتی مفا دات کے لیے ہم انسا نیت کو بھلا نا چا ہتے ہیں تو پھر ہم خو د بھی انسا نیت کے حق سے محر وم ہو جا ئیں گے۔ اگر کو ئی کسی کے گھر پر حملہ کر دے تو نقصان تو زیا دہ اسی گھر کو اور اس کے با شندو ں کو ہو گا مگر ار د گر د کے لو گ بھی کسی حد تک اس وبا ل سے دو چار ہو ں گے۔
اب اس کی تحقیق کا مطلب یہ ہے کہ منا سب پو چھ گچھ کی جا ئے اور معا ملا ت کو حو صلے اور انصاف سے حل کیا جا ئے نا کہ کسی بھی مشتبہ شخص کو پکڑکے مو قع پر ہی اپنی مر ضی کے مطا بق سز ا سنا کر عملد رآمد کر دیا جا ئے۔ ہر شخص کو افسو س ہے کہ کیو ں کسی کی عبا دت گا ہ کو نشا نہ بنا یا گیا مگر سا تھ ہی یہ بھی کسی جبر سے کم نہیں کہ صر ف چندبالو ں کی وجہ سے جو کہ قدر تی طو ر پر ہر مذ ہب سے تعلق رکھنے والے کے چہر و ں پر نکل ہی آتے ہیں ، کسی کو بھی بغیر تصدیق کے پکڑ کر مو ت کی سزا دے دی جا ئے ۔اگر یہا ں پر یہ سو چا جا ئے کہ تشدد پسند صر ف کسی مخصو ص مذ ہب کو نشا نہ بنا ئے ہو ئے ہیں تو پھر اس با ت کی بھی کو ئی دلیل نہیں ملتی کیو نکہ حملے تو تما م کی عبا دت گا ہو ں پر ہو چکے ہیں ۔ یہ آجکل ہم جس جنگ کے ما حو ل میں ہیں وہ مذا ہب کی جنگ نہیں ہے بلکہ وہ پو ری عالم انسا نیت کی جنگ ہے اور جس کے اثرا ت تمام عالمِ انسا نیت پر اثر اندا ز ہو رہے ہیں کیو نکہ پو ری انسا نیت سے جنگ در حقیقت کسی مخصو ص مذہب کی بجا ئے تما م انسا نیت کو پستی کی طر ف لے جا رہی ہے ۔ با با بلھے شا ہ فر ما تے ہیں : گل سمجھ لئی تے رو لا کی فیر رام رحیم تے مو لا کی
Handshake
اگر انسا نیت بچے گی تو ہی در حقیقت تما م مذا ہب کو ما ننے والے بچیں گے ہر کو ئی اپنے گھر کا چر ا غ ہی ہو تا ہے بس فر ق صر ف اتنا ہوتا ہے کہ کو ئی خو د تیل بن کر جل رہا ہو تا ہے تو کو ئی کسی کو رو شن کر نے کے لیے استعما ل ہو رہا ہو تا ہے اگر کو ئی بھی کسی بھی معا شرے سے تعلق رکھنے والا کسی کے بنیا دی حقو ق کا احترام نہیں کر تا تو وہ حقیقی طور پر انسا نیت کے مطلب سے نا آشنا ہے اور اس کی یہ نا آشنا ئی کسی کے چر ا غ کو ہمیشہ کے لیے گل کر دیتی ہے ۔ اور چو نکہ انسان کا تعلق انسانیت سے ہے اور اگر کو ئی انسا نیت سے نا واقف ہے تو بنیادی طو ر پر وہ انسا ن سے نا واقف ہے اور جو انسا ن سے نا واقف ہے وہ یقینی طور پر خو د بھی انسان کہلا نے کا حقدار نہیں ہے۔
انسان کو سمجھنے کے لیے اگر کسی وسیع تعر یف کا سہا را لیا تو جا ئے تو وہ یہ ہے کہ اﷲکی سما ئی ہی انسا ن(بند ئہ مو من )کے دل میں ہے۔ اور اسی با ت کو علامہ اقبال اپنے الفا ظ میں یو ں بیان فر ما تے ہیں کہ : آدم کے کسی رو پ کی تحقیر نہ کر پھر تا ہے زما نے میں خدا بھیس بدل کےشعو ر تو انسا ن میں ہو تا ہے کیو نکہ بلا وجہ کی آہ و پکارتو جا نو ر بھی کر تے ہیں اور اس لیے ان کا پر سا نِ حال کو ئی نہیں ہو تا ۔ آج وقت ہے کہ انسان کو انسا نیت سے آشنا کر وایا جا ئے کیو نکہ اگر چھو ٹے چھو ٹے معا ملا ت میں سنجید گی نہ دکھا ئی گئی تو پھر بڑے مسا ئل در پیش آئیں گے اور جب کو ئی سو چ چھو ٹے مسا ئل کو حل نہ کر سکے تو پھر بڑے مسا ئل کیسے حل کر ے گی اور انسا ن کا وجو د انسانیت کے اعتبا ر سے ختم ہو کر رہ جا ئے گا۔
ایک انسا ن کا قتل پو ری انسا نیت کے قتل کے برا بر ہے اور سو چیں کہ آج کتنو ں کی انسا نیت دم تو ڑ چکی ہے ۔ سو چ بچا ر اور آزادی اظہا ر کو اگر اخلا قی و انسا نی اقدارمیں رہ کر استعما ل کیا جا ئے تو کسی کے عقید ے کو بھی ٹھیس نہیں پہنچے گی اور محبت کا بھی فر و غ عام ہو گا جس سے انسا ن کا مقام بلند ہو گا اور انسانیت کو عر و ج ملے گا۔