تحریر : وقارانساء عوام کو باشعور کرنے میں میڈیا کے کردار سے انکار ممکن نہیں پرنٹ میڈیا ہو یا الیکٹرونک میڈیا ملکی حالات اور واقعات سے انسان فورا باخبر ہو جاتا ہے اور اگر میڈیا اپنے کام کو بہتر مقاصد کے لئے استعمال کرے اور حق سچ کو بیان کرے تو برائی کے خلاف اس کا یہ جہاد ہے۔
انٹر ٹینمنٹ چینل تفريح کا سبب بھی ہیں –وہ بھی وقت تھا جب پاکستان کے چینل پرکچھ اردو ڈرامے اور ان کے ساتھ انگلش فلمیں اور ڈرامے تھے اور خبروں کے لئے اوقات مقرر تھے جن کا دورانیہ بہت کم ہوتا تھا – تیزی سے آگے بڑھتے وقت نے کئی نجی چینل متعارف کروائے –ان کی کارکردگی کو بہترین ٹاک شوز نے چار چاند لگا دئیے اسی طرح کچھ پروگرام ایسے دکھائی دئیے جنہوں نے معاشرتی برائیوں کو بے نقاب کيا –جس انسان نے اپنے کام سے لاکھوں کروڑوں لوگوں کے دل ميں اپنا گھر بنا لیا – وہ ہے اقرارالحسن اس مرد مجاہد نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر انسانیت دشمنوں کے گھناؤنے چہرے کو بے نقاب کيا اس فرض کو انجام دیتے اپنی ٹيم کے ساتھ پريشان اور تکليف دہ صورتحال سے بھی دوچار ہونا پڑا اور کتنی جگہوں سے وہ لوگ بمشکل تمام جان بچا کر نکلنے ميں کامیاب ہوئے۔
رياست ميں امن وامان جان مال کا تحفظ جو ذمہ دارياں انتظاميہ کی تھيں انکو نہ مہيا نہ کرنے کے پيچھے کيا حالات اور واقعات کارفرما ہيں اس نے ان سب کی بھی نشاندہی کر دی –کتنے افسوس کی بات ہے کہ حکمران جن باتوں سے چشم پوشی اختيار کئے ہوئے ہيں اقرار الحسن کے پروگرامز ان امور اپر ان کی توجہ کروانے کے لئے مثبت کردار ادا کر رہے ہيں بلکہ يوں کہنا بے جا نہ ہو گا کہ اعلی عہديداران کبوتر کی طرح آنکھيں بند کئے بيٹھے ہيں اور ملک کی تباہی اور ابتری کو ديکھنے سے قاضر ہيں –شائد وہ چين سے اس لئے بيٹھے ہيں کہ يہ ہولناک واقعات ان کے گھر اور خاندان ميں نہيں ہو رہے۔
Media
اس سے قبل يہ معاشرتی برائياں اس طرح بے نقاب نہيں ہوئي تھيں جتنی اقرارالحسن نے سامنے لائی ہيں افسوس صد افسوس کہ کہ جتنی محنت اس نے اس کام کے لئے کی –حکومت نے ان معاشرتی برائيوں کے تدارک کی کوئی کوشش نہيں کی –رياست کے جسم ميں يہ برائياں ناسور کی صورت اختيار کر چکی ہيں –کيونکہ مجرموں کی پشت پناہی اس ملک کے اعلی عہدے دار اور صاحب اختيار کرتے ہيں۔
جن فيکٹريوں کارخانوں کو ناقص کارکردگی اورانسانی جان کے لئے ان کی مصنوعات کو مہلک قرار دے کر وہ بند کرواتا ہے چند دنوں ميں پھر وہ اپنا غليظ کاروبار شروع کرچکی ہوتی ہيں انصاف کا گزر دور دور تک کہيں نہيں آپ سب نے بھی یقينا وہ پروگرام ضرور ديکھا ہو گا جس ميں چھ ماہ سال اور دوسال کے کمسن بچوں کو اغواء کر کے لڑکوں کو تين لاکھ اور لڑکيوں کو ايک لاکھ ستر ہزار تک فروخت کيا گيا اس گروہ ميں خواتين کے ساتھ ايک لڑکا بھی پکڑا گيا جو لوگوں کے معصوم بچے اغواء کر کے ان کو فروخت کرتے ہيں – پيسوں کے عوض ماؤں کی گود اجاڑتے ہيں آگے يہ بکنے والے بچے کہاں اور کس حال تک پہنچتے ہيں -اس بات سے ان شقی القلب لوگوں کو کوئی سروکار نہيں۔
جن پروگراموں ميں بنت حوا کی عزت کو پامال کيا جاتا ہے قحاشی اور عريانی کے اڈے جہاں ايک مزارعے اور کسان کی بيٹی يا معاشرے ميں غربت وافلاس کا شکار خاندان جہاں ماؤں بہنوں اور بيٹيوں کو مفت کا مال سمجھا جاتا ہے کتنے پروگرام ميں نشاندہی ہوئی کہ اس کے پيچھے ھمارے امراء کا طبقہ ہے دولت کے نشے ميں چور يہ لوگ جو گدھ بنے بيٹھے ہيں ان سب کے پيچھے پوليس کا مکروہ چہرہ جو ان برائيوں کو پھيلانے ميں پيش پيش ہيں جعلی پاسپورٹ جعلی شناختی کاردڈ ملازمتوں کے لئے لی گئی جعلی ڈگرياں-يہ بس تو منظر عام پر آچکا ليکن کيا۔
Sar-E-Aam With Iqrar Ul Hassan
ان ميں س کسی برائی اور خلاف قانون کام کے تدارک کی کوشش کی گئی ؟ کيا ملزم اور مجرم اپنے انجام کو پہنچے؟ نہيں جناب کچھ نہيں ہوسکا اس ملک ميں! وہ کام جو انتظاميہ کی ذمہ داری ہيں کہ امن وامان جان ومال کا تحفظ اور مجرموں کو قرار واقعی سزا اور قانون کا اطلاق وہ یکسر اس سے بے خبر ہيں اگر اقرارالحسن جيسا ايک محب الوطن انسان دليری سے يہ سب سامنے لا سکتا ہے تو کيا حکومت اس کا کوئی نوٹس نہيں لے سکتی !!! سليوٹ ہے وطن کے اس باہمت اور حوصلہ مند بيٹے کو جو اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے برائيوں سے بر سرپيکار ہے اس کی اتنی محنت اور کوشش سب اکارت چلی جاتی ہے جب ان برائيوں ميں ملوث لوگ کيفر کردار کونہيں پہنچتے سوچنے کی بات ہے فرد واحد اتنی برائيوں کو بے نقاب کرسکتا ہے تو حکومت اپنا کردار ادا کيوں نہيں کر رہی۔