اب یاد رفتگاں کی بھی ہمت نہیں رہی یاروں نے کتنی دور بسائی ہیں بستیاں
9 فروری 2015 ء کو ہر دلعزیز شخصیت، انسان دوست اور عظیم صحافی و کالم نگار محترم عدنان شاہد مرحوم کی آٹھویں برسی کے موقع پر مرکزی تقریب میں ایڈیٹر خبریں و چینل 5 محترم امتنان شاہد کی طرف سے شرکت کی عوت میرے لیئے کسی بڑے اعزاز سے کم نہیں تھی۔ اس اعزاز پر جہاںمجھے بے حد مسرت ہوئی وہاں اس سے بڑھ کر کہیں زیادہ دکھ بھی ہوا۔ دکھ یہ تھا کہ جس ہستی کی برسی پر مجھے مدعو کیا گیا تھا اسے ہم سے بچھڑے آٹھ برس بیت چکے ہیں۔
مگر آٹھ برس بیتنے کے بعد بھی اس کی جدائی کا زخم ہرا ہے جو کبھی بھی مندمل نہ ہو سکے گا اور ہمیشہ اس کی یاد دلاتا رہے گا اور خوشی اس بات کی تھی کہ ہم ایک دور افتادہ اور پسماندہ خطے کے باسی ہیں۔ یہاں کے لکھاریوں، شاعروں، ادیبوں، صحافیوں سمیت ہر شعبہ ہائے زندگی سے منسلک افراد کو ہمیشہ نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔اور اس پسماندگی کی سب سے بڑی سزا یہاں کے ٹیلنٹ کو ملتی ہے۔ مگر ” خبریں” نے اس غیر منصفانہ تقسیم کو ختم کرنے کی بھر پور سعی کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مجھے اپنے خطہ کی نمائندگی کا موقع ملا۔” خبریں” نے ہمیشہ اپنے سے جڑے ہر رشتے کو اہمیت دینے کے ساتھ ساتھ اسے اپنے ہر ایونٹ پہ یاد رکھا ہے اور یہی ” خبریں” کی مقبولیت کی وجہ ہے۔” خبریں” نے محبتیں بانٹنے کاکام ہمیشہ خوش اسلوبی کے ساتھ سرانجام دیا ہے اور یہی محبتیں سمیٹنے کے لیئے میں نے 9 فروری کورخت سفرباندھا اور بذریعہ بس زندہ دلان کے شہر لاہور جا پہنچا۔ بس سے نیچے اترا تو یوں محسوس ہوا کہ یہاں کی پررونق شاہرائیں، درودیوار اور کوچہ و بازار بھی عدنان شاہد کی جدائی پر ماتم کناں ہیں اور یہاں کا موسم بھی اسی سوگ میں سراپاء احتجاج ہے۔بے رحم سرد ہوائیں اور فضائیں سوگوار ہیں اور گلشن میں موجود تمام پھولوں نے کالے لباس پہن رکھے ہیں ۔ کسی شاعر نے کیا خواب کہا تھا کہ
یہ کس کے سوگ میں موسم نے احتجاج کیا ہے آج تمام گلابوں کے لباس کالے تھے
بلا تاخیر میں ٹرمینل سے ایک چاند گاڑی میں سوار ہو کر خبریں ٹاور واقع لارنس روڈ کی جانب روانہ ہوا، ٹریفک کی فراوانی اور دھکم پیل کی وجہ سے جگہ جگہ پر رکنا پڑ رہا تھا۔ آخر کار 45 منٹ کی مسافت کے بعد ڈرائیور نے ایک سائیڈ پر رک کر مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اتریئے صاحب وہ سامنے خبریں کا دفتر ہے۔چاند گاڑی سے اتر کر میںنے خدا کا شکر ادا کیا اور دفتر کی جانب چل پڑا۔ جب بیسمنٹ میں داخل ہوا تو اسحاق چوہدری مرحوم کے ایصال ثواب کے لیئے دعا کرا رہے تھے۔ جس میں ان کی مغفرت اور درجات کی بلندی کے لیئے دعا کی گئی ۔ اس موقع پر عدنان شاہد کے مشن کو جاری رکھتے ہوئے معذور افراد اور بچوں میں 10 وہیل چیئرز بھی تقسیم کی گئیں ۔ نوفل اویس شاہد نے اپنے مرحوم والد کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ پاپا پیار سے مجھے ” نوفی” کہ کر پکارتے تھے، کہتے تھے بیٹا کسی کا دل نہ دکھانا بدقسمتی سے زندگی میں کم وقت ملا ان کی باتیں میرے لیئے سرمایا حیات ہیں ان کے الفاظ آج بھی میرے ذہن میں ہیں کہ” بیٹا میں جا رہاہوں ماںاور بہنوں کا خیال رکھنا” چیف ایڈیٹر روزنامہ خبریں گروپ جناب ضیاء شاہد نے کہا کہ زندگی میں آج تک کسی نے عدنان شاہد کی شکایت نہیں کی، ہر کوئی ان کے کردار کی تعریف کرتا ہے اور مجھے ہر دیوار پر اسکا ہنستا مسکراتا ہوا چہرہ اور ہر جگہ اس کی آواز گونجتی ہوئی سنائی دیتی ہے۔
بالآخر یہ یادگار دعائیہ تقریب اپنے اختتام کو پہنچی ۔ وہیں پہ نہایت ہی پیارے دوست اور خبریں کے فورم انچارج شفقت حسین سمیت دیگر شخصیات اور کالم نگاروں سے ملاقات ہوئی۔ تھویڑی دیر بعد شفقت حسین مجھے اپنے دفتر لے گئے ایک دوسرے کے حالات دریافت کیئے اور گرما گرم چائے پینے کو ملی، ابھی چائے ختم نہیں ہوئی تھی کہ شفقت بھائی نے کہا کہ شمسی بھیاجلدی میرے ساتھ آئیں آپ کو چیف صاحب بلا رہے ہیں آپکی ملاقات کروانی ہے۔ میں شفقت صاحب کے ساتھ ہو لیالفٹ میں کھڑے ہو کر اوپر پہنچے اجازت کے بعد اندر داخل ہو کر جناب ضیاء شاہد صاحب کو سلام پیش کیا۔ انہوں نے بیٹھنے کو کہا میں ان کے سامنے والی چیئر پر بیٹھ کر ان سے گفتگو کرنے لگا اور میں نے اپنے علاقہ کے مسائل کے بارے میںانہیں آگاہ کیا جس پر انہوں نے یقین دہانی کروائی کہ میں آپکے مسائل اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ ارباب اختیار کے نوٹس میں لائوں گا انہوں نے مزید کہا کہ اور کوئی میرے لائق حکم احکام ہو تو میں حاضر ہوں۔ چیف صاحب کی پیاری باتیں مجھے اپنے سحر میں جکڑتی جا رہی تھیں مگر وقت کا گھوڑا تیزی سے اپنی منزل کی جانب دوڑ رہا تھا۔
Columnist
دل پر ہاتھ رکھ کر اجازت طلب کی اور واپس پلٹے تو سامنے ہال میں آویزاں عدنان شاہد کی تصویر دیکھ کر آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور میں سوچنے لگا کہ انسانوں کے اس تلاطم خیز سمندر میں کتنے چہرے ابھرے اور کتنے ابدی طوفانوں کی نذر ہو کر ساگر زیست سے اوجھل ہو گئے ۔ بازار دنیا میں کتنے چہرے نمودار ہوئے ، کچھ بھول گئے کچھ یاد رہے اور کچھ عزیز ازجان چہرے لوح ذہن سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے مٹ گئے۔ بچھڑنے اور ملنے والے چہروں میں کچھ چہرے ایسے بھی تھے جو دل کے کورے کاغذ پرکسی مقدس تحریر کی طرح ثبت ہو کے ہمیشہ کے لیئے محفوظ ہو گئے ۔ انسانوں کے ٹھاٹھیں مارتے میلے جسے “دنیا” کہتے ہیں جب کوئی بہت پیارا چہرہ دور ہو جاتا ہے تو میلے کی فکر نہیں رہتی بلکہ بہت دکھ ہوتا ہے۔ کبھی جو یادوں کی پٹاری کھولیں تو کیسی کیسی رنگ برنگی یادیں ہماری آنکھوں کو خیرہ کرتی ہوئی ادھر ادھر بکھر جاتی ہیں۔ اس ذات اور اس کی پرانی یادوں سے وابستہ کتنے دیکھے بھالے منظر لمحہ بھر کے لیئے ہماری آنکھوں کے سامنے ٹھہر جاتے ہیں۔ گزرتے ہوئے سنہری بچبن کی یادیں، بارش کے پانی میں کاغذ کی نائو چلانے کی ننھی یادیں، کسی کی الفت میں گزارے ناقابل فراموش لمحات کی قرب آمیز یادیں، ہجرووصال کی صلیب پہ سسکتے تڑپتے مہرووفا کے لاشے اور ان سے جڑی دلخراش یادیں، عہد شباب میں عہدشکستہ کے کرب کی رنج آمیز یادوں کی اس نایاب کتاب کوزندگی کی شلف(الماری) میں کس قدر سجا کر رکھتا ہے پھر انہی حسین و سنگین یادوں کے سہارے باقی ماندہ حیات کے شب و روز گزرتے زندگی کی بند گلی میں شام ہو جاتی ہے۔
یادیں ہی زندگی کا بہترین ساتھی اور تنہائیوں کی ہمراز ہوتی ہیں۔ کچھ یادیں اذیت ناک ہوتی ہیں۔ اور کچھ سامان راحت میسر کرتی ہیں۔ یادیں کبھی اشک بار کرتی ہیں تو کبھی سرشار، انسان کا اپنی ذات سے جڑی یادوں سے الگ ہونا کسی بھی طور ممکن نہیں ہے۔ زندگی کی گھٹا ٹوپ اندھیری میںجب آرزئوں کے جگنو چمکنا چھوڑ دیں تو یادیںبہت دور تک اجالے کا کام کرتی ہیں۔ جب سر سفر قدم ڈگمگاتے ہیں منزل کے نشان سے پہلے ہی شریک سفر اکتا کے ساتھ چھوڑ جاتے ہیں تو یادیں ہی مشکل راہ بن کر منزل کا پتہ دیتی ہیں۔ یادیں قلب و روح میں سما کر زندگی کا اہم حصہ بن جاتی ہیں ۔ عدنان شاہد اس دنیا فانی سے کوچ کر کے منوں مٹی تلے ابدی نیند سو دچکے ہیں مگر انکی یادیں زندہ و جاوید ہیں اور وہ اپنے کردار، پیار ومحبت کی وجہ سے آج بھی زندہ ہیں۔ اللہ پاک انہیں غریق رحمت کرے اور ضیاء شاہد کو لمبی عمر عطا کرے(آمین)
اس شخص کے جانے کا غم کیوں نہیں جاتا یہ بوجھ میرے دل سے اتر کیوںنہیں جاتا یہ شام وہ شام ہر شام فقط اسی کے نا م مت پوچھ کہ ہر شام میں گھر کیوں نہیں جاتا