تحریر: حبیب اللہ سلفی وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں جاری پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں 12 نکاتی قرارداد کی متفقہ منظوری دی گئی ہے جس میں سعودی عرب کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اگر سعودی عرب کی علاقائی سلامتی کی خلاف ورزی کی گئی یا حرمین شریفین کو کوئی خطرہ لاحق ہوا تو پاکستان سعودی عرب اور اس کے عوام کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہوگا اور حرمین شریفین کی حفاظت میں سب سے آگے ہوگا۔وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار کی جانب سے پیش کردہ قرار داد میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کو یمن کے تنازعہ میں غیرجانبدار رہنا چاہیے تاکہ وہ اس بحران کے خاتمے میں متحرک کردار ادا کر سکے ۔قرار داد میں یمن میں حوثی باغیوں کیخلاف سعودی عرب کی قیادت میں قائم اتحاد کی عسکری کارروائی میں شمولیت کے حوالہ سے سعودی عرب کی درخواست کا ذکر گول کردیاگیا۔ادھر سعودی عرب کی زیرقیادت اتحادی افواج کے ترجمان بریگیڈئر جنرل احمد العسیری نے کہا ہے کہ پاکستان نے قومی اسمبلی کی پاس کردہ قرارداد سے آگاہ نہیں کیا اور نہ ہی اتحاد میں شمولیت کیلئے ابھی تک پوزیشن واضح کی ہے البتہ پاک فوج کی شمولیت سے جنگ کو مزید تقویت مل سکتی ہے اور سعودی عرب حوثیوں کے خلاف آپریشن میںپاک فوج کی شمولیت کا خواہاں ہے۔
رابطہ عالم اسلامی کی دعوت پر مجھے اسلام آباد کے ایک مقامی ہوٹل میں یمن میں بغاوت کی صورتحال سے متعلق منعقد کئے جانے والے سیمینار میں شرکت کا موقع ملا جس کا عنوان ”سرزمین حرمین شریفین کی حفاظت کے سلسلہ میں پاکستانی علماء و مشائخ کا موقف” تھا۔ سیمینار میں وفاقی وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف، علامہ سینیٹر پروفیسر ساجد میر، پروفیسر حافظ محمد سعید، ڈپٹی چیئرمین سینیٹ عبدالغفور حیدری، مفتی محمد رفیع عثمانی، لیاقت بلوچ، حافظ عبدالغفار روپڑی ودیگر قائدین اور جید علماء کرام نے شرکت کی۔ رابطہ عالم اسلامی کے پاکستان میں نگران ڈاکٹر عبدہ محمد عتین اور انٹرنیشنل اسلامک ریلیف آرگنائزیشن کے پاکستان میں ڈپٹی ڈائریکٹر محمد جاوید بٹ خود مہمانوں کے استقبال کیلئے موجود تھے۔ اس تقریب میں شریک سبھی علماء کرام اور قائدین نے سعودی عرب کی کھل کرمددو حمایت کا اعلان کیا اور حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا گیا کہ سرزمین حرمین شریفین کے تحفظ کیلئے فوری طور پر پاک فوج بھجوائی جائے۔
Saudi Arabia and Pakistan
رابطہ عالمی اسلامی کی بنیاد شاہ فیصل بن عبدالعزیز رحمة اللہ علیہ نے رکھی جو اپنے سینے میں ملت اسلامیہ کا درد رکھتے اور امت کے اتحاد کیلئے ہر وقت فکر مند رہتے تھے۔ ان کی کوششوں سے ہی 1962ء میں عالم اسلام کے جید اور ممتاز علماء کا اجلاس مکة المکرمہ میں طلب کیا گیا جس میں رابطہ عالم اسلامی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس وقت سے لیکر آج تک یہ ادارہ اپنے مشن پر کاربند ہے۔ اس انتہائی حساس موقع پر رابطہ عالم اسلامی کی جانب سے ملک بھر کے جید علماء کرام اور دینی قائدین کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر کے متفقہ رائے سے قوم کو آگاہ کرنایقینی طور پر خوش آئند امر ہے۔ سیمینار میں وفاقی وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف، رابطہ عالم اسلامی اسلام آباد مکتب کے نگران ڈاکٹر عبدہ محمد عتین اور جماعةالدعوة کے سربراہ حافظ محمدسعید نے فکر انگیز خطابات کئے۔
رابطہ عالم اسلامی کے سیمینار کے اگلے دن ہی اسلام آباد میں جماعةالدعوة کی جانب سے زیروپوائنٹ سے اسلام آباد پریس کلب تک بڑے تحفظ حرمین شریفین کاررواں کا انعقاد کیا گیا جو بلا شبہ سعودی عرب کی حمایت میں کیاجانے والا اب تک کا سب سے بڑا پروگرام تھا جس میں تمام مکاتب فکر اور شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد نے جوق در جوق شرکت کی اور سرزمین حرمین شریفین سے گہری عقیدت و محبت کا اظہار کیا گیا۔ کارواں کے شرکاء کے جذبات دیکھنے کے لائق تھے۔ہزاروں افراد کی طرف سے حرمین شریفین سے رشتہ کیا ‘لاالہ الااللہ کے فلک شگاف نعرے لگائے جاتے رہے۔ پریس کلب تک کارواں کے اختتام پر بڑے جلسہ عام کا بھی انعقادکیا گیا جس میں جماعةالدعوة کے سربراہ پروفیسر حافظ محمد سعید، سردار عتیق احمد خاں، مولانا محمد احمد لدھیانوی، حافظ عبدالرحمن مکی، مولانا فضل الرحمن خلیل، علامہ زبیر احمد ظہیر، جمشید دستی ، مولانا امیر حمزہ و دیگر سیاسی و مذہبی قائدین نے شرکت کی۔اس موقع پر سب مقررین کی متفقہ رائے تھی کہ یمن میں بغاوت ایران اورسعودی عرب یا شیعہ سنی لڑائی نہیں ہے۔ بعض سیاسی جماعتیں اور بیرونی ایجنڈے پر عمل پیرا نام نہاد دانشور اس مسئلہ کو الجھانے کیلئے سعودی عرب کی حمایت کے نتیجہ میں فرقہ واریت پروان چڑھنے کی باتیں کر رہے ہیں اور پاکستان سے ثالثی کروانے کے بے سروپا مطالبات کئے جا رہے ہیں۔
Yemen Rebels
پاکستان میں باغیانہ سوچ رکھنے والوں کے خلاف آپریشن ضرب عضب کی حمایت کی جاتی ہے اور یمن میں وہ باغی جواپنی مسلح کاروائیوں کے ذریعہ سعودی عرب کیلئے خطرات کھڑے کر رہے ہیں اور اعلانیہ طور پر سرزمین حرمین شریفین پر قبضہ کی دھکمیاں دے رہے ہیں ان کے اور سعودی عرب کے مابین مصالحانہ کردار ادا کرنے کے مطالبات کئے جارہے ہیں۔ یہ تو واضح طور پر حوثی باغیوں کی طرف سے کی جانے والی بغاوت کو قانونی جواز فراہم کرنے اور انہیں حوصلہ دینے کے مترادف ہے۔ایسے بے سروپا مطالبات نہیں کئے جانے چاہئیں۔ تحفظ حرمین شریفین کارواں اور جلسہ عام سے حافظ محمد سعید اور عبدالرحمن مکی کے عربی زبان میں کئے گئے خطابات شاندار اور دلائل سے بھرپور تھے جسے بہت پذیرائی ملی اور عرب میڈیا کی جانب سے خاص طور پر ان کی کوریج کی جاتی رہی۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس اختتام پذیر ہو چکا ہے۔ چار دن جاری رہنے والے اجلاس میں بھانت بھانت کی بولیاں بولی گئیں اورپاکستان کو پرائی جنگ میں نہ کودنے کے مشورے دیے جاتے رہے۔اس طرز عمل کو عوامی سطح پر پسند نہیں کیا گیا۔ پاکستانی قوم کسی طور یہ بات برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں ہے کہ ان کے ووٹ حاصل کرکے اسمبلیوں میں پہنچنے والے نمائندے سرزمین حرمین شریفین کو لاحق خطرات پر بھی مصلحت پسندی سے کام لیںاور گو مگو کی پالیسی کا شکار رہیں۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں جس طرح مسلم امہ کے محسن سعودی عرب کے دفاع کی بات کی جانی چاہیے تھی وہ نہیں کی گئی۔
اگرچہ قرارداد میں اتناضرور کہا گیا ہے کہ برادر اسلامی ملک سعودی عرب یا حرمین شریفین کو کوئی خطرہ لاحق ہوا تو پاکستان ان کے ساتھ کھڑا ہو گا۔قوم سوال کرتی ہے کہ جب حوثی باغی یمن اور عراق کی سرحدیں توڑ کر سعودی عرب میں داخل ہوں گے تو کیا پھر ان کی مددکی جائے گی؟۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اس جنگ کو سرزمین حرمین شریفین کے اندر آنے سے روکا جائے۔ یمن کی منتخب حکومت کو گرانے اور نہتے یمنیوں کا خون بہانے والے باغیوں کے خلاف سخت کاروائی کرنا بہت ضروری ہے۔ بعض سیاستدانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستانی فوج کے جانے سے ایران ناراض ہو جائے گا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ایران تو اس مسئلہ کا فریق ہی نہیں ہے ۔ ہماری فوج ایران تو نہیں جارہی جو وہ ناراض ہو جائے گا۔ اس کی تو سرحد بھی یمن سے نہیں ملتی۔ سینکڑوں میل دور بیٹھ کر باغیوں کے خلاف کاروائی پر اسے کوئی اعتراض نہیں ہو نا چاہیے۔ بہرحال سعودی عرب اور دیگر اسلامی ملکوں کی جانب سے بار بار یہ اعتراض اٹھایا جارہا ہے کہ حوثی باغیوں کو ایران کی طرف سے مکمل سپورٹ مل رہی ہے۔یہ انتہائی تشویشناک امر ہے ۔ ایران کو چاہیے کہ وہ سرکاری سطح پر اس بات کی کھل کر وضاحت کرے اورالگ تھلگ ‘تنہا نظر آنے کی بجائے عالم اسلام کے ساتھ ملکر حرمین شریفین کے تحفظ کا فریضہ سرانجام دے۔پارلیمنٹ کی قرارداد میں سعودی عرب کی جانب فوج بھجوانے کا ذکر گول کرنا درست نہیں ہے۔
Brigadier General Ahmed Asiri
سعودی عرب کی زیر قیادت عرب اتحاد کے ترجمان بریگیڈیئر جنرل احمد العسیری نے کہا ہے کہ پاکستان نے اتحاد میں شمولیت کیلئے ابھی تک پوزیشن واضح نہیں کی ہے۔ پاک فوج کی جنگی مہارت پر کوئی شک نہیں کیا جا سکتا’ اس کی شمولیت سے باغیوں کے خلاف جنگ کو مزید تقویت ملے گی اس لئے ہمیں پاکستانی موقف کاشدت سے انتظار ہے ۔ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت پاکستان کو عوامی رائے کا احترام کرتے ہوئے سرزمین حرمین شریفین کے تحفظ کیلئے فی الفور فوج بھجوانی چاہیے اور سعودی عرب کی سلامتی و استحکام کیلئے بھرپور کردارادا کرنا چاہیے۔