تحریر: میر افسر امان، کالمسٹ یہ اُس وقت کی بات ہے جب مکہ میں قریش کے تمام قبائل نے طے کیا کہ تمام قبائل کا ایک ایک آدمی مل کر رسولۖاللہ پر حملہ کر کے انہیں (نعوذ باللہ) شہید کر دیں۔ اس طرح رسولۖ اللہ کے قبیلہ بنو عاشم اس سب قبائل سے خون بہا نہیں لے سکے گا۔دوسری طرف اللہ نے اپنے پیغمبرۖ کو مدینہ ہجرت کی اجازت فرما دی۔ رسولۖ اللہ راتوں رات اپنے رفیق حضرت ابو بکر صدیق کو ساتھ لے کر مکے سے نکل پڑے۔ رسولۖ اللہ کے پاس مکہ کے لوگوں کی کچھ امانتیں تھیں۔
چناںچہ رسولۖ اللہ نے حضرت علی کو کہا کہ آپ میرے بستر پر لیٹ جائو اور لوگوں کو ان کی امانتیں واپس لوٹا دینا۔ جب کفار حملہ کرنے آئے اور وہاں حضرت علیۖ کو دیکھ کر حیران رہ گئے۔ اُدھر رسولۖ اللہ حضرت ابوبکر ۖ کو ساتھ لے کر مدینہ کا عزم کر کے گھر سے نکل چکے گئے۔ اس خیال سے کہ آپ ۖ کا تعاقب کیا جائے گا۔ رسولۖ اللہ نے مدینہ کے عام راستے کو چھوڑ کر مشکل ترین راستے سے چلے۔ اسی راستے میں غارثور تھا۔ رسولۖ اللہ نے ابوبکر کے ساتھ اس غار میں تین دن تک پناہ لی۔ کفارِ مکہ جو رسولۖاللہ کے خون کے پیاسے تھے نے رسولۖ اللہ کو گرفتار کرنے کے لیے انعام کی رقم رکھ دی۔ لوگ رسولۖاللہ کو تلاش کرنے نکلے اطراف مکہ کی وادیوں کا کوئی گوشہ انہوں ایسا نہ چھوڑا جہاں آپۖ کو تلاش نہ کیا ہو۔ اس سلسلے میں ایک مرتبہ چند لوگ غار ثور کے دہانے پر بھی پہنچ گئے جس میں آپ ۖ چھپے ہوئے تھے۔ حضرت ابوبکر کو سخت خوف لا حق ہوا کہ اگر ان لوگوں میں سے کسی نے آگے بڑھ کر غار میں چھانک لیا تو وہ ہمیں دیکھ لے گا۔ لیکن رسولۖ اللہ کے اطمینان میں ذرا فرق نہ آیا اور آپ ۖ نے یہ کہہ کر حضرت ابو بکر کو تسکین دی کہ غم نہ کرو، اللہ ہمارے ساتھ ہے۔
اسی بات کو قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے اس طرح فرمایا”جب وہ صرف دو میں کا دوسرا تھا، جب وہ دونوں غار میں تھے، جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا، غم نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے۔”(التوبہ: ٣٠)ابو بکر صدیق کا نام عبداللہ تھا۔ کنیت ابوبکر تھی کنیت کی شہرت نام پر غالب آگئی۔ صدیق اور عتیق دو لقب رسولۖ اللہ سے پائے تھے۔جن دس صحابہ کرام کو رسولۖ اللہ نے زندگی میں جنت کی بشارت دی تھی جنہیں عشرہ مبشرہ کہا جاتا ہے ان حضرات میں ابو بکر صدیق کانام سرِ فہرست ہے۔آپ رسولۖ اللہ کے بچپن کے دوست تھے۔ آپ مردوں میں سب سے پہلے اسلام لائے تھے۔ آپ کی فضیلت میں کئی آیات نازل ہوئیں جن کی تلاوت تا قیامت ہوتی رہے گی۔خلیفہ اوً ل حضرت ابوبکر صدیق رسول ۖ کی زندگی میں نماز بھی پڑھاتے تھے جن کی تعداد سترہ ہیں۔اور رسولۖ کو مشورے بھی دیتے تھے۔ایک دفعہ رسول ۖ نے فرمایا تھا کہ جس جس نے اللہ کے دین کو قائم کرنے میں میری مدد کی،میں نے اس کو دنیا میں ہی بدلہ دے دیا ہے مگرابو بکر ایسے شخص ہیں جن کا بدلہ میں نہیں دے سکا۔ اس قول سے یہ بات نشر ہو جاتی ہے کہ حضرت ابو بکر نے اسلام کو قائم کرنے میں رسول ۖ کی سب سے زیا دہ مددکی جس کااعتراف رسول ۖ نے خود کیا۔جنگ تبوک کے موقع پر حضرت ابوبکر گھر کا سارا سامان رسول ۖ کی اپیل پر لے آئے تھے پوچھا گیاگھر بھی کچھ چھوڑ آئے ہو۔ کہا! میرے لیے اللہ اور اُس کا رسول ۖ بس۔ بخاری کی حدیث کا مفہوم ہے کہ ایک خاتون رسول ۖ کے پاس آئی اور ہدایت حاصل کی ،جاتے ہوئے کہا اگر میں دوبارا آوں اور آپ ۖ نہ ملیں تو کیا کروں۔ رسول ۖ اللہ نے کہا حضرت ابوبکر سے مل لینا۔اس سے حضرت ابوبکر کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔
Muhammad PBUH
حضرت ابوبکر ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ کے والد تھے چناں چہ آپ کو ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ کے حجرے میں دفن کیا گیا۔رسولۖ اللہ کی وفات کے بعد جب مسلمانوں کے خلیفہ کے چنائو کا وقت آیا تو بنی ساعدہ میں بحث شروع ہوئی۔اس دور ان حضرت عمر آگے بڑھے اور حضرت ابو بکر کے ہاتھ میں ہاتھ دیتے ہوئے کہا کہ آپ ہمارے سردار اور ہم لوگوں میں سے بہتر ہیں۔ رسولۖ اللہ آپ کو زیادہ عزیز رکھتے تھے۔چناں چہ لوگوں نے آپ کی بیعت کر لی۔ اور مسلمانوں کے پہلے خلیفہ راشد کہلائے۔ رسول ۖ اللہ نے جو مدینے میں اسلامی ریاست قائم کی تھی ،خلافت راشدہ اسی طرز کی حکومت تھی جس میں خدا خوفی تھی، حاکمیت اللہ تعالیٰ کی،خلیفہ کا انتخاب مسلمانوں کی آذاد رائے کے ذریعے،نظامِ حکومت باہمی مشورے سے،بیت المال پر عام مسلمانوں کا حق،عدل و انصاف کا نظام وغیرہ تھا۔ حضرت ابوبکر خلیفہ کے منصب پر فائز ہوئے تو واقعات میں آتا ہے کہ دوسرے دن کندھے پر کپڑا رکھ کر بازار میںفروخت کرنے کے لیے گے تو حضرت عمر سے ملاقات ہو گی،حضرت عمر نے حضرت ابوبکر سے فرمایا اَب آپ مسلمانوں کے خلیفہ ہیں کپڑے فروخت کرنے کے بجائے خلافت کے منصب کے لیے اپنے آپ کو وقف کر دیںاور عام مسلمان فرد کے خرچے جتنا بیت المال سے وظیفہ لیں اور سارے کا سارا وقت خلافت کے کام چلانے میں لگائیں۔
اسی وظیفے سے بچت کر کے خلیفہ اول کی بیوی نے ایک دفعہ کھانے میں سویٹ ڈش بنا دی تو خلیفہ نے اپنے وظیفے میں بچت جتنی رقم کم کر دی اور بیوی سے کہا کہ اس بقایا وظیفے میں ہمارے خاندان کی گزر ہو سکتی ہے ۔ دوسری طرف بیرونی قرضوں تلے دبی ہوئی پاکستانی قوم کے وزیروں کے دفتروں اور خود سربراہِ مملکت کے کچن کی تزئین و آرائش پر کروڑوں کے خرچے کی خبریں تو اخبارات کی زینت بن چکی ہیں ۔ خلیفہ منتخب ہونے کے بعدحضرت ابوبکر کو سب سے پہلے بڑا امتحان منکرین زکوٰة کے ساتھ ہوا ،لوگوں نے کہا یہ مسلمان ہیں ان سے کیسے معاملہ کرو گے ،کہنے لگے ان سے جنگ کروں گا جب تک یہ ایک رسی کا ٹکڑاجو رسول ۖ اللہ کے زمانے دیتے تھے ،دینا شروع نہ کر دیں ۔ اسطرح ایک اسلام کے ستون کو ختم ہونے سے بچایا ۔یہ تھاپہلے خلیفہ ہونے کا حق جو ادا کیا۔یہ تھا تفقّہ فی الدین۔ اطاعت رسول ۖ اللہ کا یہ عالم تھا کہ حضرت رسول اکرم ۖ اپنی زندگی میں ایک فوجی مہم پر حضرت اُسامہ کو کمانڈر مقرر فرما گئے تھے۔رسولۖ اللہ کی وفات کے بعد صحابہ نے حضرت ابو بکر سے کہا کہ ان کو اتنے بڑے معاذ پر بھیج رہے ہو جبکہ بڑے بڑے قبیلوں کے سردار موجودہیں ان میں سے کسی کو فوجوں کا کمانڈر مقرر کر کے بھیجو۔ مگر رسول ۖ اللہ کے یار غار حضرت ابو بکر صدیق نے فرمایا کیا کمال ہے آپ حضرات مجھے یہ مشورہ دے رہے ہو کہ جو فیصلہ رسولۖ اللہ کر گئے ہیں میں اُس سے منحرف ہو جائوں ۔ ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا۔ حضرت اُسامہ ہی اس معاذ پر کمانڈربن کر جائیں گے۔ یہ تھے حضرت ابوبکر صدیق رسولۖ اللہ کے یار غارجن کی وفات کادن ٢٢جمادی الثانی ١٣ ھ ہے۔