بات تو سچ ہے مگر

Disciples

Disciples

تحریر : مسز جمشید خاکوانی
ایک شیخ نے اپنے مرید کو خرقہ خلافت عطا کیا ‘اور اسے کسی بستی میں تبلیغ کے لیئے بھیج دیا ۔کچھ عرصہ بعد شیخ کو اطلاع ملی کہ ان کا مرید بڑا کامیاب ہے ۔سب لوگ اس سے خوش ہیں ۔شیخ نے مرید کو طلب کیا اور کہا خرقہ خلافت واپس کر دے ۔” مرید نے شیخ سے ناراضگی کا سبب دریافت کیا شیخ نے کہا سنا ہے لوگ تجھ سے بڑے خوش ہیں ؟ مرید نے کہا ۔” اللہ کی مہربانی ہے ۔” شیخ نے غصہ سے کہا ۔” سب لوگوں کا خوش ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ تُونے سچ بولنا چھوڑ دیا ہے ۔سچ تو یہ ہے کہ واقعی پوری دنیا کو خوش کرنا بہت مشکل ہے بلکہ ناممکن ہے ۔اختلاف رائے زندہ انسانوں میں ہوا کرتے ہیںیہ اور بات ان میں کچھ انسان بھیڑ صفت ہوتے ہیں تو کچھ بھیڑیے ۔بھیڑیوں سے بھیڑوں کو بچانا لیڈر کی زمہ داری ہوتی ہے اور یہی خدمت کہلاتی ہے اور سیاست میں کوئی خدمت نہیں ہوتی بس اپنی ڈفلی اپنا راگ ہوتا ہے جس کو کوئی دوسرا سننا بھی گوارہ نہیں کرتا نوشیرواں کے عہد میں ایک ظالم نے ایک ضعیف کے منہ پر تمانچہ مارا نوشیرواں نے اس کی گردن اڑا دی ۔۔۔ایک مصاحب نے کہا ۔” ایک چھوٹی سی خطا پر اتنی سخت سزا ؟” نوشیرواں نے کہا میں نے آدمی کو نہیں مارا ‘بلکہ ایک بھیڑیے کو قتل کیا ہے تاکہ بھیڑیں محفوظ رہیں

حکمران کے لیئے ظلم کے خاتمے کے لیئے ظالم کو سخت سزا دینا ضروری ہے ۔نہ کہ انہیں بچاتے پھریں ۔ہمارے ملک میں اسی لیئے سب کچھ بگڑ چکا ہے کہ ظالم سزائوں سے بچے رہے اور بے گناہوں کا خون بہتا رہا مشرف کہتے ہیں گڈ گورنس لوگوں کو جرائم سے بچاتی ہے اگر کسی کو حلال رزق میسر آ جائے تو اسے مال حرام کی ضرورت نہ رہے مشرف کا یہ بھی کہنا تھا کہ کسی نے ج تک مجھ سے یہ سوال نہیں کیا کہ میرے دور میں لوگوں کو خوشحالی میسر آئی عام آدمی کی زندگی بہتر ہوئی ،ایگریکلچر ،واٹر منیجمنٹ،انفرا سٹرکچر سب پہ توجہ دی گئی جس سے عام آدمی کا میار زندگی بلند ہوا ،کیا ہم نے بلدیاتی انتخاب کروا کے اختیارات نچلی سطع تک منتقل نہیں کیئے؟ہم نے خزانہ بھی بھرا آئی ایم ایف سے قرض لینا بھی بند کیا ۔ایک اچھے حکمران کا کام عوام کو سہولیات مہیا کرنا ہوتا ہے وہ یہ نہیں دیکھتے کہ ان کے منہ میں روٹی کون ڈال رہا ہے ۔ہاں سیاست دان انھیں یہ احساس دلاتے ہیں ہمیں مسند اقتدار تک پہنچائو تو ہم تمھاری تقدیر بدل دیں گے اس کے بعد وہ پانچ سال تک اپنی اپنی تقدیریں سنوارتے رہتے ہیں اور عوام جھولیاں اٹھا کر بد دعائیں دیتی رہتی ہے ۔کتنے شرم کی بات ہے کہ ہمارے حکمران تیس پینتیس سال اقتدار میں رہ کر بھی عوام کو زندگی کی بنیادی سہولیات تک مہیا نہیں کر سکے ۔جبکہ ملک ریاض بحریہ ٹائون میں وہ ساری سہولیات انکے مکینوں کو مہیا کرتا ہے۔

کیا ملک ریاض کے پاس ”جن ” کام کرتے ہیں ؟جی نہیں صرف اس بندے کی نیت صحیح ہوتی ہے بحریہ ٹائون لاہور میں غالباً ایشیاء کی سب سے بڑی مسجد بنی ہے پچھلے سال صرف بنیادی سٹرکچر بنا تھا اور اس بار وہ مسجد پوری شان و شوکت کے ساتھ کھڑی تھی ۔برستی بارش میں شیشے کی طرح چمکتی سڑکوں پر گندگی کا نام نشاں تک نہ تھا ،لش گرین کارپٹڈ گھاس فٹ پاتھوں کی رونق بڑھا رہی تھی لڑکے جدید مشینوں سے گھاس اور پھولوں کی کیاریوں کی کٹائی چھنٹائی مین مصروف تھے تو سیکورٹی کا عملہ برساتیاں پہنے اپنی زمہ داریاں نبھا رہا تھا ۔بچے کھلکھلاتے چہروں سے بارش انجوئے کر رہے تھے ۔لش پش کرتی گاڑیاں سبک رفتاری سے سڑکوں پر روان دواں تھیں ،فائبر گلاس کے بنے جانوروں اور پرندوں سے سجی گرین بیلٹس ایک عجیب منظر پیش کرتی تھیں سنا ہے رات میں ان سب کے اندر لائٹس جل جاتی ہیں ،ایک ایریا ایسا بھی آیا جہاں کی گرین بیلٹس پر صرف گائو ماتا کا راج تھا ۔اس منظر نے مجھے تھوڑا ڈسٹرب کیا لیکن اچانک تبدیل ہونے والے منظر نے کچھ اور سوچنے پر مجبور کیا ۔یہ ایک چوک میں لگا بلند ٹاور تھا جس پر قدیم مصری تہذیب کی شبہیں کندہ تھیں اس سے آگے جانے پراہرام مصر کے آثار نظر آنا شروع ہو گئے ،ملک ریاض نے اجنا کے غاروں سے لیکر مصر ،بابل و نینوا انڈیا اور اسلامی شان و شوکت کا ہر منظر بحریہ ٹائون میں سامنے لا کے کھڑا کر دیا ہے یہ تو لاہور کا بحریہ ٹائون تھا

Bahria Town Islamabad

Bahria Town Islamabad

اسلام آباد کے بحریہ ٹائون میں پیرس کا ایفل ٹاور اور پورے یورپ کی قابل ذکر چیزیں دکھائی دیتی ہیں۔گرین ہائوس دنیا کی ہر نعمت سے بھرا ہے ،پھلوں ،میووں ،سبزیوں ،مربہ جات سے لیکر پنسار خانے تک کی ہر چیز صاف ستھری اور فریش دستیاب ہے ۔مچھلیا ں،مرغیاں ،گوشت ،انڈے،پکے پکائے سالن ،قسم قسم کی سیلڈز ،سلاد ،فریش جوسز آئس کریم کیا نہیں ہے وہاں اگر نہیں ہے تو گندگی اور بد بو۔۔۔۔حتی کہ قیمتیں بھی بہت مناسب بلکہ عام جگہوں سے کم ہیں ،میں نے یہ بھی سنا کہ رات کو ساری باسی چیزیں پھل سبزیاں وغیرہ تلف کر دی جاتی ہیں تاکہ لوگوں کو شکایت نہ ہو ۔۔۔اب آپ کہیں گے وہاں تو امیر لوگ رہتے ہیں تو امیر لوگ تو پاکستان کے چپے چپے پر رہتے ہیں لیکن ان کی امارتیں صرف ان کے گھروں تک محدود ہوتی ہیں کچھ نے اتنی دولت جمع کر لی ہے کہ اب اس کو سیف کرنے کی پریشانی میں مبتلا ہیں ۔کون نہیں جانتا کہ کراچی میں اتنے نوٹ ہیں جو بوریوں میں بھر کر رکھے جاتے ہیں ۔اور سب سے بڑی خریداری اسلحے کی ہوتی ہے ،لوگوں کے ذاتی جہاز اور ذاتی چڑیا گھر بھی ہیں ان پرندوں اور جانوروں کی دکھ بھال پر کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں ۔اس کے لیئے عملہ رکھنا پڑتا ہے اور عملے کو وفادار رکھنے کے لیئے اسلحہ بامٹنا پڑتا ہے۔جب ہما شما کے ہاتھ میں اسلحہ جاتا ہے تو پھر ریاست کی رٹ چیلنج ہوتی ہے جب ریاست کی رٹ ہی نہ رہے تو انارکی پھیلتی ہے اس انارکی میں ہر جرم اور ظلم پنپتا ہے ۔(یہی حالات ملک کے کچھ اور علاقوں میں بھی بن چکے ہیں )

ظلم حد سے بڑھ جائے تو لوگ اس سے نجات کی دعائیں کرتے ہیں ہمارے ملک میں لوگ اپنے آپ کو ٹھیک کرنے کی بجائے آرمی کی طرف دیکھنے لگتے ہیں جب آرمی حالات کنٹرول کرتی ہے تو جہاں جرم کرنے والے امتیازی سلوک کا رونا شروع کرتے ہیں وہاں حکومتیں امن و امان کا کریڈٹ خود لینے لگ جاتی ہیں اور حالات بہتر ہوتے ہی ملک ٹھیک کرنے والے رٹیکل سکس میں دھر لیئے جاتے ہیں جبکہ جن پر آرٹیکل سکس لگنا چاہیئے وہ آزاد پھرتے ہیں ۔پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں واجد شمس الحسن نے ڈھائی ہزار اورتین ہزار میں اندین اور افغان لڑکیوں کو پاکستانی پاسپورٹ بیچے ،زرداری کے خلاف ثبوتوں کے بنڈل لے جا کر جلائے کیا اس پر آرٹیکل سکس لاگو نہیں ہوتا؟کہ آپ اپنے ملک کی سرحدیں غیر محفوظ کر دیں لیکن ہم لوگ ایسی باتوں پہ سوچنے کی زحمت ہی نہیں کرتے ۔شائد یہ عوام کے مینٹل لیول سے اوپر کی باتیں ہیں مگر عوامی سہولیات کا خیال رکھنا تو ہر حکمران کا فرض ہے اگر بحریہ ٹائون کا مالک اپنی رعایا کے سکھ کا سامان کر سکتا ہے تو سارا ملک چرنے والے ایک بجلی تک مہیا نہیں کر سکتے جس کے بلوں میں بے شمار نئے ٹیکس ایڈ ہو چکے ہیں پھر بھی بجلی میسر نہیں ۔کیونکہ پرانا سسٹم تبدیل نہیں ہوتا معاملہ وہیں کا وہیں رہتا ہے لوڈ شیڈنگ کی ازیت الگ ہے اور آئے دن سسٹم فیل ہونے سے جو گھنٹوں بجلی بند رہتی ہے اس کا کوئی شمار نہیں واپڈا کے ایک افسر بتا رہے تھے کہ بجلی کی کمی نہیں ہے اگر ہم بجلی پوری دیں تو پرانا بوسیدہ سسٹم سہار ہی نہیں سکتا۔

عوام یہ سمجھنے سے قاسر ہے کہ سڑکیں اور پل بنانے کی بجائے یہی پیسہ اس سسٹم کی درستگی پر کیوں نہیں لگایا جاتا ؟تو اس کا جواب یہی ہے اگر سسٹم ٹھیک ہوگیا تو تو لوگوں کو بجلی پوری ملنے لگے گی پھر یہ جنریٹر اور یو پی ایس کون خریدے گا؟ جب کوئی نہیں خریدے گا تو باہر سے منگوانا بھی بند ہو جائے گا ۔پھر وہ کمیشن بھی نہیں ملے گا جس کمیشن کے لیئے یہ سارے بحران پیدا کیئے جاتے ہیں ۔اطمنان قلب کے لیئے آپ اسے کمیشن کہہ سکتے ہیں اپنا حق سمجھ سکتے ہیں لیکن کروڑوں لوگوں کا حق مار کر آپ اطمنان قلب حاصل نہیں کر سکتے بندگان خدا کو اذیت میں رکھ کر آپ نہ سہی آپکی اولادیں اس کا خمیازہ بھگتیں گی۔اس لیئے ٹیکس لیجیئے مگر ملک ریاض کی طرح بدلے میں سہولیات تو دیجئے!

Mrs Khakwani

Mrs Khakwani

تحریر : مسز جمشید خاکوانی