تحریر: پروفیسر رفعت مظہر پچھلے دنوں ہمارا پیارا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پریشان کہ دھرنے ختم ہوئے، تحقیقاتی کمیشن بھی بن گیا، دہشت گردی میںجان باقی بچی نہ دہشت گردوں میں، کچھ واصل جہنم ہوئے اور بچے کھچے کو نوںکھدروں میں۔ سعودی عرب اور یمن کی جنگ میںبھی کوئی کشش نہیںکہ حکومت، اپوزیشن اور فوج ایک صفحے پر، یک زبان ،متفقہ قرارداد بھی آچکی۔ان حالات میں الیکٹرانک میڈیا بریکنگ نیوز کو ترسا ہوااور گزارا ایسی بریکنگ نیوز پر کہ سائیکل فٹ پاتھ سے ٹکرا گیا یابھینس نے چہل قدمی کرتے ہوئے فیروز پور روڈ بند کردی۔ ان دنوں الیکٹرانک میڈیا کی حیرانی وپریشانی دیدنی تھی لیکن اللہ بھلا کرے کپتان صاحب کا جنہوں نے ”جھپٹنا ،پلٹنا ،پلٹ کر جھپٹنا کی عملی تصویر بنتے ہوئے اپنی توپوں کا رخ ایم کیوایم کی طرف موڑتے ہوئے کراچی کے حلقہ 246 کے ضمنی انتخاب میںحصّہ لینے کا”کھڑاک” کردیا جس پر ایم کیوایم بڑی چیں بچیں ہوئی کیونکہ اسی حلقے میں”نائن زیرو”بھی ہے۔
شروع میںتو ایم کیوایم کویہی محسوس ہواکہ جیسے کوئی بیرونی طاقت اُن کی سلطنت پرحملہ آورہو گئی ہو۔ اسی لیے ایم کیوایم کاردِعمل بھی بہت سخت تھالیکن پھرحالات کی نزاکت کوبھانپتے ہوئے الطاف بھائی نے اپنے کارکنوںکو تحریکِ انصاف کی ریلی پرپھولوںکی پتیاںنچھاور کرنے اورایم کیوایم کی ساری قیادت کوکپتان صاحب کااستقبال کرنے کاحکم صادرفرما دیا۔ الیکٹرانک میڈیانے یہ جاناکہ جیسے حلقہ 246 کا نام ہی پاکستان ہے اور واحد لیڈر عمران خاں یا پھر ان کی اہلیہ ،مستقبل کی خاتون اوّل ریحام خاں۔ بریکنگ نیوزپہ بریکنگ نیوزچلتی رہیںاور الیکٹرانک میڈیاقوم کویہ مفید اطلاعات پہنچاکر نہال ہوتارہا کہ خاںصاحب کراچی جانے کے لیے بنی گالاسے باہر نکل آئے ،گاڑی کے پاس پہنچے ،گاڑی کا دروازہ کھلا ،خاںصاحب اندربیٹھ گئے ،ریحام خاںنے رخصت کیا ۔۔۔۔ایئرپورٹ پہنچ گئے ،گاڑی کادروازہ کھلا ،خاںصاحب نے ایک قدم باہرنکالا اور وہ دوسراقدم بھی باہر نکل آیا، خراماںخراماںخصوصی طیارے کی سیڑھیاں چڑھنے لگے ،جہاز کا دروازہ بندہوا اور خاں صاحب پرواز کر گئے۔
Reham Khan
یہی پریکٹس ریحام خاں کے کراچی جانے پر بھی دہرائی گئی اورکراچی میںخاںصاحب اورریحام خاںکی مصروفیات کی لمحہ بہ لمحہ رپورٹس تواتنی زیادہ کہ لکھنے کے لیے کئی سو صفحات درکار۔ یوںمحسوس ہوتاتھا کہ جیسے میڈیاکی سوئی عمران خاںاور ریحام خاںپر اٹک گئی ہو۔انتہائی افسوسناک امریہ کہ الیکٹرانک میڈیابے نیل ومرام ، کہیں لاٹھی چلی نہ گولی ،اگرایسا ہوجاتا توہمارے میڈیاکی چاندی ہوجاتی۔ ریحام خاںنے ساراکریڈٹ کپتان صاحب کودے دیا۔اُنہوںنے کہا ”جب عمران خاںنے کہا، بس بہت ہوچکا،ہم یہ غنڈاگردی کب تک برداشت کریںگے ،تب لہجوں میں تبدیلی آئی”۔مستقبل کی ”خاتونِ اول ”شایدنہیں جانتی کہ ایم کیوایم تو پہلے ہی رینجرز کے ہاتھوں”وَخت”میں پڑی اپنا وجودبچانے کے لیے اِدھرادھر ہاتھ پاؤںمار رہی ہے ۔اِن حالات میںوہ کوئی نیا ”پنگا”لینے کی متحمل نہیں ہوسکتی ۔اسی لیے تو فاروق ستارنے کہہ دیا ”ہمارے پاس ڈنڈاہے نہ انڈا اورنہ ہی ٹماٹر”۔اگرایسا نہ ہوتاتوپھر خاںصاحب کی دھمکیاں؟؟۔۔۔چہ پِدّی ،چہ پِدی کاشوربہ ۔یہ وہی حلقہ ہے جس میں 2013ء کے انتخابات کے موقعے پر تحریکِ انصاف کوکوئی پولنگ ایجنٹ بھی میسرنہ تھا۔ہوسکتا ہے کہ یہ اب کسی کا” دست شفقت”ہو جس نے خاں صاحب کو سینہ تان کرایم کیوایم کے گھرمیں گھسنے پہ قائل اور مائل کیا؟۔ کیاقوم ایک دفعہ پھرکسی ”امپائر”کی انگلی کھڑی ہونے کاانتظار کرے؟۔
کراچی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے خاںصاحب نے انکشاف کیاکہ ”آدھے” مہاجروہ بھی ہیں کیونکہ اُن کی والدہ بھی ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان آئی تھیں۔ دَرجوابِ آںغزل ،محترم الطاف حسین نے فرمایاکہ عمران خاںآدھے نہیں”پورے” مہاجرہیں ۔پہلے ہم دونوں پاکستانی تھے ،اب ”مہاجر” اِس لیے بھائی بھائی ہیں ۔اُنہوںنے کہا”خاں صاحب نائن زیروآئیں اور بھابھی ریحام خاںکو بھی ساتھ لائیں ،ہم اُن کی دعوت کریںگے اور بھابی کوتحفے بھی دیںگے ”۔ریحام خاںنے تویہ کہہ کر نائن زیرو جانے سے صاف انکارکر دیاکہ وہ کسی” غیرملکی” کی دعوت قبول نہیں کر سکتی لیکن گئے عمران خاںبھی نہیں اور یوں نائن زیرو پر کیے جانے والے سارے انتظامات دھرے کے دھرے رہ گئے ۔اب الطاف بھائی نے حکم دیاہے کہ خریدے گئے تحائف خاںصاحب تک پہنچائے جائیں اور اگر وہ وصول کرنے سے انکارکر دیں تو بنی گالا کی سیڑھیوں پر رکھ کر لوٹ آئیں۔ کراچی سے توخاں صاحب تحائف وصول کیے بنا ہی واپس آگئے لیکن آخری خبریں آنے تک اُنہوںنے اِس سے ہرگزانکار نہیں کیاکہ وہ بطور مہاجر الطاف حسین کے بھائی نہیں۔
Imran Khan
اب جب کہ دونوں بھائی بھائی بن ہی چکے تو بہتر ہے کہ خاں صاحب کو بھی ”عمران بھائی”کہہ کر مخاطب کیاجائے البتہ ریحام خاںکو احتیاط برتنی ہوگی کیونکہ اگر اُنہوں نے بھی ”رواروی”میں خاںصاحب کو”عمران بھائی”کہہ دیاتو مولانا فضل الرحمٰن ٹھک سے فتویٰ جاری کردیںگے کہ ”حلالہ”واجب ہوگیا۔ پارلیمنٹ میںواپسی پرایک ”حلالہ”تو تحریکِ انصاف پرپہلے ہی واجب ہواپڑا ہے اورسبھی مولوی وغیرمولوی ،مفتی وغیرمفتی شورمچا رہے ہیںکہ تحریکِ انصاف کے مستعفی اراکینِ پارلیمنٹ حلالہ دیتے ہوئے اسمبلیوں کے الیکشن دوبارہ لڑیں۔شرعی حلالے کا تو ہمیں کچھ کچھ ادراک ہے لیکن سیاسی حلالے کے بارے میںہمارا علم ناقص اگر مولانا فضل الرحمٰن سے رجوع کریںتو ہمیںڈر ہے کہ وہ تویہی کہیںگے کہ تحریکِ انصاف کے اراکین پہلے کسی دوسرے ملک کی اسمبلی کاالیکشن لڑیں ،پھر وہاں سے مستعفی ہو کر پاکستان آئیں اور الیکشن لَڑیں تو تبھی حلالے کی شرائط پوری ہوتی ہیںالبتہ اگر محترم سراج الحق صاحب سے فتویٰ لیاجائے تووہ کہیں گے کہ کسی”حلالے ولالے”کی ضرورت نہیں۔ ہمیںتو تحریکِ انصاف کا شکر گزار ہوناچاہیے کہ اُس نے اسمبلیوں میں” قدم رنجہ ”فرما کر جمہوریت بچالی۔
ہمارے محترم سراج الحق بھی ”بھولے بادشاہ”ہیں۔”پیوستہ رہ شجرسے ،امیدِ بہار رکھ” کے قائل محترم سراج الحق اب بھی خیبر پختونخوا میں تحریکِ انصاف سے جڑے بیٹھے ہیںاور پروگرام یہی کہ بلدیاتی الیکشن بھی ایک ہی پلیٹ فارم سے لڑیںگے لیکن ہم سمجھتے ہیں اُن کے ہاتھ ” کَکھ ” نہیںآنے والاکیونکہ تحریکِ انصاف ”سیاسی ریوڑیاں”آپس میںہی بانٹ کھائے گی ۔ہمارے” ارسطوانہ تجزیے ”کی بنیادیہ ہے کہ اگرتحریک انصاف مخلص ہوتی تو پھرکراچی میں جماعتِ اسلامی کامطالبہ تسلیم کرتے ہوئے اپنااُمیدوار اُس کے حق میںدست بردار کروادیتی۔ سبھی جانتے ہیں کہ کراچی میںجماعت اسلامی کی کوششوں ،کاوشوںاور قربانیوں کی ایک تاریخ ہے اوربدترین حالات میںبھی اس منظم جماعت کااچھّا خاصہ حلقۂ اثرموجود رہاہے ۔آج بھی متحدہ قومی موومنٹ کواصل خطرہ تحریکِ انصاف سے نہیں ،جماعت اسلامی سے ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ایم کیوایم نے جماعت اسلامی کی انتخابی ریلیوں پر حملے شروع کردیئے ہیں۔ اِن حالات میںایم کیوایم کی ”غُنڈہ گردی” کا مِل کرمقابلہ کرنے سے ہی بہترنتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔یہ عین حقیقت ہے کہ ایم کیوایم کے گھر (حلقہ 246) سے اُسے شکست دینافی الحال ممکن نہیں لیکن اگر مقابلہ کرناہی ٹھہر گیا توپھر تحقیق کہ ہر لحاظ سے جماعت اسلامی کاحق ہی فائق ہے۔