تحریر : حافظ محمد فیصل خالد یمن اور سعودی عرب کے مابین شروع ہونے والی حالیہ کشیدگی اقوامی اور بین الاقوامی سطح پر خاصے پر زور انداز میں زیرِ بحث ہے۔ ایک طرف تو چند ممالک سعودی عرب اور حرمین شریفین کے تحفظ کیلئے پر عزم ہیںجبکہ دوسری جانب بعض قوتیں یمنی باغیوں کی پشت پناہی بھی کر رہی ہیں۔جس کے نتیجے میں عاملی سطح پر دو بڑے گروہ بنتے نظر آتے ہیں۔پہلا گروہ وہ جو سعودی عرب کے محافظ کے طور پر سامنے آ رہا ہے جبکہ دوسرا گرہو وہ جو یمنی باغیوں کی معاونت کر رہا ہے اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان دونوں فریقین کو امریکہ پیچھے بیٹھا سپورٹ کئے جا رہا ہے جبکہ دوسری جانب اس یہ بھی دعوی ہے کہ وہ دنیا میں قیامِ امن کیلئے کوشاں ہے۔اب اس ساری صورتِ حال میں اگر تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو عراق میں امریکی افواج نے فرقہ واریت کو ہوا دیکر اپنے مقاصد کے حصول کے لئے جو حکمتِ عملیاں وضع کیں وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں
ان کے نتائج آج بھی سارا خطہ بھگت رہا ہے۔اسی طرح اسرائیل جو حماس کی جدو جہد کی وجہ سے آج انتہائی نازک دور سے گزر رہا ہے کی بھی اولین تر جیح ہے کہ چند سالوں کیلئے ایسی جنگیں جاری رہیں تاکہ اسرائیلی مظالم اقوامِ عالم کی نظروں سے پوشیدہ رہیں۔ اس لئے امتِ مسلمہ میں فرقہ ورانہ کشیدگی اور خونی جنگ انتہائی مفید ثابت ہو سکتی ہے اور تا حال یہی ایک بنیادی وجہ ہے کہ مسلم مما لک کو آپس میں لڑا کر اپنے مشترکہ مفاداد کے حصول کو ممکن بنانے کی کششیں کی جا رہی ہیں اس کے علاوہ اسلحہ کے بیوپاری ممالک جن میں امریکہ سرِ فہرست ہے انکے لئے بھی ایک انتہائی طویل جنگ منافع بخش اور مفید ثابت ہو سکتی ہے۔ جسکی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ سعودی عرب اور یمن کے درمیان چھڑی جنگ میں ایک طرف تو امریکہ سعودی عرب کو بلا ترسیل اسلحہ فرہم کئے جا رہا ہے جبکہ دوسری جانب ایران جو کہ یمنی باغیوں کا حامی اور سپورٹر ہے کے ساتھ بھی معاہدات کئے جا رہا ہے۔
اس ساری صورتِ حال میں ایک پہلو یہ بھی ہے کہ حوثی قبائل جیسے پسماندہ اقلیت یمن کے دار الحکومت اور کئے اہم شہروں پر قابض ہو چکے ہیں جبکہ دوسری جانب یہی لوگ حرمین شریفین پر حملے کی دھمکیوں کے بھی مرتکب ہیں جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اب اگر یہ بات اس بنیاد پر آگے بڑہی تو پھر ہونے والے نقصان کی تلافی ممکن نہ رہے گی۔کیونکہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ فروعی مسائل کی بنیاد پر ہونے والا اختلاف کسی نہ کسی مرحلے پر جاکے حل ہو جاتا ہے لیکن بنیادی عقائد کے اختلافات کی بنیاد پر چھڑنے والی جنگ کی انتہاء کا اندازہ لگا نا ممکن نہیں۔
Tank
لہذا اب اس اری صورتِ حل کے پیشِ نظر وقت کااہم تقاضہ بھی یہی ہے کہ ہم آپس میں لڑنے کی بجائے اپنی تما م تر توانائیاں ان طاقتوں کے خلاف استعمال کی جائیں جو ہمیں آپس میں لڑانے اور تباہ کرنے کے عزائم لئے سرگرمِ عمل ہیں ورنہ خدانخواستہ ایسا نہ ہو کہ عوام کے پیسے سے بنائی جانے والے ٹیکنالوجی دشمن کے خلاف استعمال ہونے کی بجائے آپس کی جنگ میں صرف ہو جائے۔اس لئے تمام تر عرب اور ایشیائی مسلم ممالک کو چاہئے کہ وقت کی نذاقت کو سمجھتے ہوئے ہمیں مسلک کی بنیاد پر کسی بھی قسم کے جار حانہ کاروائیوں سے گریز کریں۔ کیونکہ اس نازک دور میں ہم آپس میں کسی بھی قسم کی جنگ کے متحمل نہیں ہو سکتے۔
دوسری جانب ان سارے ممکنہ خدشات کے باوجود خوش آئین بات یہ ہے کہ عرب ممالک امریکی افواج کی امداد پر انحصار کر نے کی بجائے اپنی اجتماعی افواج کے قیام کی طرف بڑھ رہے ہیںجو کہ ایک قابلِ تحسین عمل ہے۔ اور امید کی جا رہی ہے کہ مشترکہ افواج کے اس قدم کو بھی نے ٹو افواج کی طرح اہمیت دی جائے گی۔اور او۔آئی۔ سی۔ ممالک کو بھی عسکری قوت کے پیشِ نظر سیاسی اہمیت حاصل ہو جائے گی جس کے نتیجے میں اسرائیل جیسا درندہ فلسطینیوں جیسے مظلوموں پر مظالم ڈھانے سے پہلے کئی بار سوچے گا۔
اور جہاں تک پاکستان اور سعودی عرب کی امداد کا تعلق ہے اور حرمین شریفین کے تحفظ کو یقینی بنانے کی بات ہے تواس میں کسی قسم کے شک کی گنجائش نہیں کہ امتِ مسلمہ کا ہر ہر فرد سرزمینِ مقدس پر مر مٹنے کو تیار ہے۔ لہذا موجودہ صورتِ حال میں قوت کا تقاضہ یہی ہے کہ ہم مذہب اور مسلک کی بنیادوں پر ہر قسم کی گروہ بندی سے گریزاں رہیں اور بحثیتِ قوم ابھر کر سامنے آئیں تاکہ ضرورت پیش آنے پر اپنے مقاماتِ مقدسہ اور امتِ مسلہ کی بھر پور انداز میں حفاظت کر سکیں۔