تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم آخر دنیا نے پاکستان اور پاکستانیوں کو سمجھ کیا رکھاہے…؟؟ہمیں پہلے کوئی اپنی جنگ میں جھونکنے کے لئے فون پر پتھرکے دور میں بھیجنے کی دھمکی دیتاہے اور ہم اِس کی ایک کال سے ڈرکر اِس کی جنگ میں فرنٹ لائن کارول ادا کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں اور ہم تب سے ابتک اپنے پچاس ہزارافرادکو موت کے منہ میں دھکیل چکے ہیں مگرہم اپنا اتنا کچھ تباہ و برباد کرنے کے بعد بھی کچھ حاصل نہ کرسکے اوراس پر ہم سے پھر بھی ڈومورکا کہہ دیاجاتاہے اور ہم اپنا سب کچھ لٹاکر بھی ڈومورمیں خود کو جھونک رہے ہیں اور آج مشرقِ وسطیٰ میں جاری یمن تنازع پر متحدہ عرب امارات پاکستان کو اپنااتحادی نہ بننے پر بھاری قیمت چکانے کی باتیں کر رہا ہے ،
اَب ایسے میں کیا حکومت پاکستان کو یمن تنازعِ پر اپنے قول وفعل کا ازسرِ نوجائزہ لیناضروری ہوگیاہے..؟؟کیا متحدہ عرب امارات سے سخت لہجے میں بھاری قیمت چکانے والی بات پر حکومتِ پاکستان کو یہ نہیں سوچناہوگاکہ کیا اِس کا یمن تنازعِ پر واقعی مبہم موقف عرب ممالک سے تعلقات کی بہتری میں مشکلات اور پریشانیاں بڑھانے اور مستقبل میں تعلقا ت کے حوالے سے پیچیدگیاں نہیںپیداکردے گا…؟؟یہاں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اَب اِن حالات اور واقعات کے پیشِ نظر حکومت ِ پاکستان کو ایک مرتبہ پھر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس جلدبلواکریمن تنازع اورمشرقِ وسطیٰ اپنے پچھلے کئے گئے فیصلوں پر نظرثانی کرنے کی اشدضرورت ہے اور دوبارہ ا یسے فیصلے کئے جائیں جس سے متحدہ عرب امارات اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں کسی قسم کی شک اور شبہ کی کوئی گنجائش باقی نہ رہنے پائے اور تعلقات پہلے سے زیادہ مضبوط اور دیرپاہوجائیں۔
جبکہ یہاں واضح رہے کہ پہلے جس نے ہمیں اپنی جنگ کا حصہ بنانے کے لئے پتھر کے دور کی دھمکی دی تھی یہ وہی سات سمندرپارکی سُپرطاقت کہلانے والا مُلک امریکاہے ہمیں جس کے بارے میں ابھی تک یہ واضح نہیں ہوسکاہے کہ یہ ہمارادوست ہے..؟؟ یا دوست نما ایک ایسادُشمن ہے جو ہماری مصیبت کے وقت تو کبھی کام نہ آیا…جس کی ایک زندہ مثال 1971 کی وہ جنگ ہے جس میں امریکانے ہماری مدد کے خاطر اپناایک بحری بیٹرابھیجنے کا وعدہ توکیاتھا…مگراِس جنگ میں ہمارابیڑاغرق ہونے تک بھی اِس کا وہ بحری بیڑاہماری مددکو نہ آیا…آج بھی بہت سے مواقعے پریہی امریکاہے جوہماری مددکے دعوے اور وعدے تو بہت سے کرتاہے مگر اِن سے یہ ا پنی حسبِ عادت اور روایا ت بعد میں مکر جاتاہے اور ہم کفِ افسوس اور پچھتاوے کے کچھ نہیں کر پاتے ہیں یعنی کہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ امریکا ہمارا مصیبت کے وقت کام آنے والادوست نہیں بلکہ ہماراایک ایسادشمن ہے
America
جو ہمیں پریشانی میں اکیلا چھوڑ کر دور کھڑاہ ماری تباہی کا تماشہ دکھتاہے اور جب مصیبت اور پریشانی کے سائے چھٹ جاتے ہیں تو اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے دوبارہ ہم سے اپنے مفادات کے خاطر دوستی کا بڑھا دیتاہے اور ہم الو کی طرح آنکھ بند کر کے اِس کی باتوں پر یقین کرکے اپنی دوستی نبھانے کے عہد وفا کر بیٹھتے ہیں اور یہ ہمیں ہمیشہ استعمال کرکے خطے سے وابستہ اپنے مفادات حاصل کر لیتا ہے۔ آج بھی ہمارے خطے اور ہم سے امریکاکے عزائم اور مفادات وہی پہلے والے ( جیسے 1971 میں تھے) ہیں۔ مگرپھر بھی ہمارے امریکی ڈالرز پر پلنے والے امریکی پٹھوغلام درغلام حکمرانوں ، سیاستدانوں ، قومی اداروں کے سربراہان اور(اِسی طرح خیرات میںملنے والی امریکی گندم کھا کر اوجھل کود کرنے والے) عوام ہی کیوں نہ ہوںاِن سب کو یہ بات سمجھنی چاہئے کہ امریکاہ میں اپنے مفادات کے خاطر استعمال کرتاہے اور ہمیںاستعمال کرنے کے بعد ٹیشوپیپرکی طرح پھینک دیتاہے ایساہی امریکانے نائن الیون کے بعد بھی کیا
تب بھی ہمارے حکمرانوں ، سیاستدانوں ، عسکری قیادت اور عوام سب ہی نے یک زبان اور یک روح ویک جان بن کر ایک آوازبلند کی اور سانحہ نائن الیون کے بعد امریکی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنابھرپورکرداراداکرنے کی حامی بھرلی …یوں تب سے اب تک چندامریکی ڈالرزکے عوض ہم ہی امریکی جنگ میںبھسم ہورہے ہیںاورہم خداجانے کب تک امریکی جنگ کا حصہ بنے رہیں گے اور اپنی خودمختاری اور سا لمیت کو امریکی مفادات کے ہاتھوں گروہی رکھاکر اپناسب کچھ تباہ و بربادکرتے رہیںگے…؟؟ اور امریکی دوربیٹھے ہماری اِس بے وقوفی پر ہماری بے کسی اورلاچارگی کے مزے لوٹ رہے ہیں اورہم امریکی ڈالرز کے عاشق بن کر امریکی مفادات کے لئے اپنی ایسی جانیں نچھاور کرتے رہیںگے جیسے شمع پر پروانے اپنی جانیں قربان کرتے ہیںاَب یہ باتیں ہمارے حکمرانوں، سیاستدانوں ،عسکری قیادت اور امریکی گندم کھاکر عیاشیاںکرنے والے عوام کو بھی سوچناچاہئے کہ اَب آئندہ اِنہیںامریکی مفادات کے خاطر کام کرناچاہئے یا اپنی خودمختاری اور سا لمیت کے خاطر ابھی امریکی جنگ سے علیحدہ ہوجاناچاہئے…؟؟ ۔
اگرچہ …!!حکومت پاکستان نے یمن تناز ع پر سعودی عرب کی مدد طلب کرنے کی درخواست پر اپنایہ کام تو کر دیا مگر شائد ایسا کرتے وقت ہمارے ایوان والے اور حکومت اور بہت سے اداروں کے سربراہان یہ بھول گئے ہیں کہ اِس وقت ہم نے اپنے ایک ایسے دیرینہ دوست اور بڑے مسلم بردارمُلک سعودی عرب کی اُمیدوں اور خواہشات پر پانی پھیردیاہے جس نے ہماری ہر مصیبت اور پریشانی کی گھڑی میں اُس وقت ہر قدم پراپنے تن من اور دھن سے ہمارا ساتھ دیاجب امریکا بھی ہمارادامن چھوڑگیاتھامگرہمارے پیارے دوست امریکانے بغیر کسی دباو ¿اور ڈرکے اور ہمیں کسی بھی موقعے پر اتنہانہیںہونے دیا ۔
مگر افسوس ہے کہ آ ج ہم کیسے سعودی عرب کے دوست اور برادراسلامی ملک ہیں کہ جب ہمارے بڑے برادرمُلک سعودی عرب پر (کسی بھی حوالے خواہ ذاتی و سیاسی یا علاقے حوالوں سے اِس پر مصیبت اور پریشانی کی کوئی گھڑی آن پہنچی ہے تو ہم نے اِس کی مددکرنے کے بجائے اپنے مختلف حیلے بہانوںسے اپنادامن بچانے میں سرگرمِ عمل ہیں)کیا سعودی عرب کی مصیبت اور پریشانی کی اِس گھڑی میںہمیں ایساکچھ کرناچاہئے تھا…؟جیساگزشتہ دِنوں ہماری حکومت ہمارے اراکین پارلیمنٹ نے کردکھایاہے …؟؟ صاف ظاہر ہے کہ ایسااِنہوں نے یوں کیاہے کہ اِن کے نزدیک سعودی عرب سے زیادہ امریکی مفادات عزیز ہیںاور امریکاکو سعودی عرب سے زیادہ ایران سے وابستہ مفادات پیارے ہیںاصل میںایران کو ناراض نہ کرنے کی آڑ میں ہماری حکومت اور پارلیمنٹ کے اراکین نے امریکی ناراضگی کو مقدم جان کر سعودی عرب کی مددکی درخواست پر یہ ساری ڈرامہ بازی کی ہے۔
آ ج جس پر متحدہ عرب امارات کے وزیرخارجہ ڈاکٹر انور محمد قرقاش نے یمن کے تنازعِ میں غیر جانبدار رہنے کے فیصلے پر پاکستان کو خبردار کرتے ہوئے یہ تک کہہ دیاہے کہ” اُسے اِس اہم مسئلے پر متضاد اور مبہم رائے کی بھاری قیمت چکانا پڑے گی “ جہاں انہوں نے یہ کہا ہے تو وہیں ڈاکٹرانورمحمدقرقاش کو یہ بھی کہناپڑگیاہے کہ” پاکستان کو خلیج تعاون کونسل کی ریاستوں کے ساتھ اپنے اسٹرٹیجک تعلقات کے حق میں واضح موقف اختیارکرناہوگا اور اسلام آباد کا طرزِ عمل” کاہلی پر مبنی غیرجانبدارانہ موقف کے سواکچھ نہیں“انہوں نے کہاکہ ” اِسی طرح یمن تنازع پر ترکی اور ایران کا موقف بھی یکساں ہے جس کی مذمت کرتے ہیں“اوراِس ہی اُنہوں نے یہ خدشہ بھی ظاہر کردیاہے کہ ”اسلام اور انقرہ کے لئے خلیجی ممالک کی بجائے تہران زیادہ اہم ہے“ ۔
Dr Anwar Mohammad Qarqas
جبکہ حیرت انگیز طور پر متحدہ عرب امارات کے وزیرخارجہ ڈاکٹر انور محمد قرقاش کے اِس بیان پر پاکستانی دفترخارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم کا یہ کہناہے کہ پاکستان مصدقہ اطلاع تک امارتی وزیرکے بیان پراپناکوئی ایسادرِ عمل ظاہر نہیںکرے گاجس سے پاکستان کو اپناموقف واضح کرنے میں دشواری کا سامناکرناپڑے ۔ اَب یمن تنازعِ خواہ کسی مُلک کی ذاتی و مفاداتی لڑائی ہویا خواہ اپنی اپنی بادشاہت بچانے کے لئے مشرقِ وسطیٰ میں جنگ ہورہی ہوآج اگر موجودہ حالات اور واقعات کی وجوہات کی بناپر ہمارابڑااور قابلِ احترام اور لائق صدمحبت و خلوص والادوست اور برادر مُلک سعودی عرب درخواست کے ساتھ پاکستان سے افواج پاک اور سامانِ حرب کی مددکا شدت سے خواہشمند ہے تو ایسے میں حکومتِ پاکستان اور پارلیمنٹ کی تمام اپوزیشن کی سیاسی و مذہبی جماعتوں اور قومی عسکری قیادت کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی یہ چاہئے کہ سب سر جوڑ کر بیٹھ جائیں اور یمن تنازعِ پر اپنے قول وفعل کا جائزہ لیں کہ آج عرب سے ہمارے لئے سخت زبان میں بھاری قیمت چکانے کی باتیںکیوں کی جارہی ہیں…؟؟
اور پھر یہ ہمارے حکمرانوں سمیت ساری پاکستانی قوم سعودی عرب کی درخواست پر فوراََ لبیک کہتے ہوئے” سعودی عرب کی حکومت اور عوام کے ساتھ شانے سے شانہ ملاکر کھڑی ہونے کااعلان کردے۔ یقینا اِس طرح پاکستان، متحدہ عرب امارات کے وزیرخارجہ ڈاکٹر انور محمد قرقاش کو اپنے اس بیان کو جس میں اُنہوں نے کہاتھاکہ ” پاکستان کو یمن تنازع جیسے اہم مسئلے پر اپنے متضاداور مبہم رائے کی بھاری قیمت چکاناپڑے گی “ واپس لینے پر مجبورکردے گااور یوں پچھلے چنددِنوں سے یمن تنازع کے باعث پاک عرب اور متحدہ عرب امارات کے درمیان کسی وجہ سے حائل ہوجانے والی غلط فہمیاں بھی دورہوجائیں گیں اور پاک عرب تعلقات میں پہلے سے بھی زیادہ بہتری اور مضبوطی کے امکانات روشن ہوجائیں گے۔