خدارا! اپنے محسنوں کو پہچانئے

Beggars

Beggars

تحریر: رقیہ غزل
آج سیشن کورٹ کے گیٹ پر ایک شخص کو فی سبیل مانگتے دیکھا مانگنے والا دونوں ہاتھوں سے محروم تھا۔اور بن ہاتھ بازوئوں کو اٹھا اٹھا کر منتیں کرتا ہوا فی سبیل اللہ مانگ رہا تھا اور آوازیں دے رہا تھا کہ اللہ کے واسطے مدد کرتے جائیں ۔میں نے دیکھا کہ عوام الناس کے علاوہ ہرعمر کے وکلاء حضرات بھی حسبِ توفیق اس کی مدد کرتے جا رہے تھے۔ اس والہانہ انداز میں اللہ کے نام پر خیرات کرنا بڑا اچھا لگ رہا تھا۔ میں نے بھی حسبِ موقع اس معذور بھکاری کی مدد کی اور میں گیٹ کے اندر داخل ہو گئی۔ جب سیشن کورٹ کی مصروفیات سے فارغ ہو کر واپس آئی تو اسی گیٹ کے سامنے ایک چھوٹے سے ہوٹل پرمیں نے ا سی معذور بھکاری کو دوبارہ دیکھا مگر اس بار منظر ہی کچھ اور تھا اور وہ یہ کہ وہ شخص کھانا کھا رہا تھا مگر یہ منظر معمولی نہ تھا بلکہ اس منظر نے مری عقل و شعور کو جھنجھوڑ ڈالا اور میرے ذہن و دل میں ایک بھونچال سا آگیا کہ اس شخص کے سامنے گوشت ،سلاداور رائتہ کی ڈش تھی مگر وہ اپنے منہ میں ازخود نوالہ ڈالنے سے قاصر تھا ،اسی وجہ سے ایک دوسرا شخص اس کے منہ میں نوالے ڈال رہا تھا۔

وہ اس کے منہ میں کبھی سلاد ڈالتا اور کبھی رائتہ کے چمچ بھر بھر کر اسے کھلا رہا تھا اور کبھی پیپسی کا گلاس بھر کر اس معذور بھکاری کو پلا رہا تھا۔ مجھے اس معذور شخص کی اس خوش خوراکی پر بہت خوشی ہوئی مگر اس کے ہاتھوں کا نہ ہونا مجھ سے دیکھا نہ گیا کیونکہ آج میں نے ان ہاتھوں کی اہمیت اور قدر جانی اور دیکھی تھی کہ کبھی ان ہاتھوں کو عطا کرنے والے کی اس عطا کو اتنی زیادہ اہمیت ہی نہ دی تھی ،بلکہ مجھے خیال آیا کہ ہم تو اس نعمت کو بھی رنگ اور تراش خراش کے ترازو میں جانچتے رہتے ہیں ۔میں جو عین اس موقع پر بھوک اور پیاس کی شدت سے بے حال تھی مگر اپنے بازوئوں سے لگے ہوئے زندہ اور سلامت ہاتھوں کو دیکھ کر میری بھوک اور پیاس مجھے یاد ہی نہ رہی اور میرا دل چاہ رہا تھا کہ اگر اس جگہ پر ممکن ہو سکے تو میں اللہ تعالیٰ کی بے شمار ایسی نعمتوں کے عطا کرنے پر اس کے حضور شکرانے میں سجدئہ شکر بجا لاکر اس کا شکریہ ادا کروں۔ لہذا میں جلدی سے اپنے گھر پہنچی اور جا کر سب سے پہلے اپنے خدائے بزرگ و برتر کے سامنے سجدہ ریز ہو گئی پھر میرا دل بے ساختہ اپنی ناشکریوں اور نادانیوں پر اتنا کھل کر رویا کہ آنسوئوں سے آنکھیں تر ہو گئیں اور پھر روتے ہوئے مجھے اونگھ آگئی۔

ALLAH

ALLAH

اونگھ میں ایک لمحہ کے لیے ایک منظر سامنے آیا اور کہیں سے آواز آئی کہ ہاتھوں کی افادیت پر رو رہی ہے ۔۔ اپنی بے بسی اور عدم توجہی پر غور کر کہ تونے اپنی پیدائش سے لیکر آج تک اپنی ذات کے ساتھ احسان کرنے والوں کے احسانات کا کیا بدلہ دیا ہے بلکہ حق تو یہ ہے کہ ہم نے اپنے محسنوں کو پہچاننے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی ہے ۔کہ اس اللہ عزوجل خالق کل کائنات ،خیر الرازقین ،مالک یوم الدین جو بغیر کسی شک و شبے ، شریک اور تنازعہ کے ہر ایک چیز کا اکیلا مالک اور قادر ہے اور از خود رحم کرنے والا اور بن مانگے عطا کرنے والا ،عاصیوں و خطا کاروں کو معاف کرنے والا ، سیاہ کاروں کو بخشنے والا اورتمام جہانوں کو پالنے والا ہر طرح کی عبادت کے لائق، صرف وہ ہی صراط مستقیم پر قائم رکھنے پر قادر اور گمراہیوں سے بچا کر سیدھے راستہ پر گامزن رکھنے پر قادرہے اس قادر مطلق نے تو یہ مخلوق سے شفقت کی بنا پر یہ اصول بنا لیاکہ وہ رحم والا معاملہ ہی فرمائے گا چاہے کوئی تابع فرمان ہو یا نافرمان ہو تو اس خدائے پاک کے بے شمار احسانات اور عطائوں کا کیا شکریہ ادا کرے گی ۔

اس خواب نے میرے ضمیر ،عقل و شعوراور روح کو جھنجھوڑ ڈالا اور میں نے اللہ تعالیٰ سے دوبارہ اپنے کردہ و ناکردہ گناہوں کی معافی طلب کی اور اس ذات باری تعالیٰ کا ذکر شروع کر دیا اورپھر آخری نبی الزماں حضرت محمد پر درودپاک پڑھنا شروع کر دیا کہ جن کی دنیا میں آمد سے بحمدللہ آج ہم دین اسلام پر گامزن اور عمل پیرا ہیں ،پھر اپنے والدین ،بہن بھائی دیگر افراد کنبہ ،اساتذہ ،ہمسائیوں اور زندگی کی راہ میں نیکی اور بھلائی کے راستوں پر رواں دواں رکھنے میں معاونت کرنے والے مہربانوں کے لئے بے شمار دعائے خیر کی اور اس کو اپنا معمول بنانے کا عہد کیا اور اس مثبت تبدیلی کے آنے پر اللہ تعالیٰ کا شکر کیا کہ شکر کرنا ایک ہمت اور سعادت ہے ۔خدارا اپنے محسنوں کو پہچانئے۔

Roqiya Ghazal

Roqiya Ghazal

تحریر: رقیہ غزل