تحریر: مجیداحمد جائی، ملتان شریف میں اپنی بہن کو اسکول سے واپس لے کر آرہا تھا۔ مین چوک پر گنے کا جوس پینے کے لئے ابھی رکے ہی تھے کہ دو بوڑھی عورت سامنے آن کھڑی ہوئیں۔ اللہ! کے نام پہ دے جا پتر، مولا جوڑی سلامت رکھے۔ایک لمحے کے لئے تو مجھے غصہ آیا مگر درگز کر گیا۔معاف کرو، اللہ بھلا کرے، میں نے جواب دیا تو دوسرے ہی لمحے میرے پائوں کو ہاتھ لگانے جھک گئی۔ایسا کرنے سے منع کیا اور دس کا نوٹ اسے تھما دیا۔ دیکھا دیکھی میں دوسری نے بھی دس کا نوٹ لے کرہی جان چھوڑی۔ آپ شہر کے جس بازار میں جائیں، پارکوں میں ،درباروں ،مزاروں پر ایسے نام نہاد گداکر ملیں گے۔رٹے راٹائے جملوں میںبڑی مہارت سے شکار کرتے ہیں، کوئی کتنا ہی سخت دل ہو کچھ نہ کچھ دے کر ہی جان کی امان پاتا ہے۔
مین شارع یا کوئی چوراہے جیسے ہی آپ کی گاڑی رکی۔ گداگروں کی ایک فوج امڈ آتی ہے۔ معذرو افراد ہاتھ پھیلائیں تو عقل بھی کام کرتی ہے،مگر صحت مند ،ہٹے کٹے نوجوان عورتیں بھیک مانگتی پھرتی ہیں۔عام شہری کی زندگی اجبرن کر کے رکھ دی ہے۔بعض گروہوں تو گداگری کے روپ میں جاسوسی کرتے پھرتے ہیں۔ان کی ٹیمیں ہوتیں ہیں ،ڈاکہ زنی،چوری جیسی واردات باآسانی کر لیتے ہیں۔انہوں نے اپنے اپنے علاقے سنبھال رکھے ہوتے ہیںاور یہ عمل دوسری مہینے تبدیل ہوتا رہتا ہے،جیسے ہمارے ملک میں سیاسی جوڑ توڑ ہوتا ہے۔یہ گروہوں اسمگر بھی ہوتے ہیں۔افیم،چرس،اور اس جیسی نشہ آورچیزیں آسانی سے ادھر سے ادھر کرتے ہیں۔
Beggars
شراب کی سپلائی ان کرائی جاتی ہے۔ نوجوان پان چباتی لڑکیاں، ہر بازار، ہوٹل کے گرد چکر لگاتی آپ کو ضرور نظر آئیں گی۔ بغلوں میں منی بنک لٹکائے، بازاروں، پارکوں، ہوٹلوں، لاری اڈوں، ٹرک اڈوں آزادانہ گھومتی پھرتی ہیں، بظاہر تو بھیک مانگتی نظر آتی لیکن ساتھ ہی ساتھ دعوت گناہ دیتی نظر آتی ہیں۔اور یوں بآسانی اپنی شیطانی شکنجوں میں جکڑ کر واردارت کروانے میں کامیاب ہو جاتیں ہیں۔ ہسپتالوں میں ماحول کے مطابق کردار نبھاتی نظر آتی ہیں۔ہاتھوں میں میڈیکلز رپوڑت ہوں گی،اپنے یا بچوں کی ٹانگوں پر سفید پیٹیاں باندھی ہوں گی اور ہاتھ پھیلا رہی ہوں گی۔ان کے سرغنہ سارا دن گھروں میں یا ہوٹلوں میں عیاشی کرتے رہتے ہیں اور شام ہوتے ہی حساب کتاب کے کھاتے کھول لیتے ہیں۔اگر آپ کو ان کے جھونپڑی نما محلوں میں جانے کا اتفاق ہوتو وہاں ضروریات زندگی کی ہر چیز ملے گی،موٹر سائیکل تو عام سی بات ہے۔ان کے بنکوں میں اکاوئنٹ بنے ہوتے ہیں اور روزانہ کی بنیاد کر رقم جمع کرائی جاتی ہے۔
عام شہری جو دن بھی خون پسینہ ایک کر کے کماتا ہے یہ ان سے دوگنا،چوگنا کما لیتے ہیں ۔اس میں بڑھتی ہوئی غربت ،مہنگائی نے عام انسان کا جینا محال کر رکھا ہے۔اوپر سے ان گداگروں نے ناک میں دم کر رکھا ہے۔آپ کسی دفتر جائیں،بازار،پارک،ہوٹل حتی کہ گھر تک نہیں چھوڑتے۔آپ کے سائے کی طرح پیچھے رہتے ہیں اور جنگی جہاز کی طرح منڈلاتے رہتے رہیں۔ پاک وطن میں قانون بنانے والوں کی بہتا ت ہے۔ہر روز قانون بنا یا جاتا اور عمل صرف اور صرف کاغذی کاروائی ہوتا ہے۔آپ کو حیرت ہوگی ،ہمارے ملک میں فقیروں،گداگروں اور وزیروں،مشیروں کی بہتات ہے۔عوام سے لئے جانے والا ٹیکس ان کی گاڑیوں کے پٹرول میں اڑ جاتا ہے۔بدقسمتی سے اس ملک کو ہاتھوں اور پائوں سے لوٹا جا رہا ہے۔یہ تو رب رحمان کا کرم ہے اسے قائم رکھا ہوا ہے۔ورنہ ہمارے سیاستدانوں،وزیروں نے دیوالیہ بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔کمیٹیاں بنائی جاتی ہیں،پالیساں مرتب ہوتیںہیں۔عملے کی بھاری بھر تنخواہیںادا کی جاتی ہیں اور نتیجہ وہی صفر۔
Corruption
غربت، مہنگائی ،بیروزگاری سے تنگ آکر ڈگریاں ہولڈر بھی گداگری کا روپ دھار رہے ہیں۔ جعلی ڈگریاں والے ایوانوں میں بیٹھے ہیں۔جاگیردار معیشت پر قبضہ کیے ہوئے ہیں۔ تاجر مرضی کے ریٹ وصول کرتے ہیں۔ کرپشن ہر سو برسر اقتدار ہے۔سرکاری، نجی اداروں کے چپڑاسی سے لے کر اعلیٰ آفسر تک سبھی کرپشن میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ قانون کا نام تو ہے مگر مجرم دنڈناتے پھرتے ہیں۔شریف مہذب شہری بنا جرم کیے سزا پہ سزا کاٹ رہے ہیں۔انصاف اپنا بوریا بستر گول کیے روپوش ہو چکا ہے۔اب جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا قانون لاگوہے۔جنگل کا قانون ہے۔ کاش اس ملک میں سودکانظام ختم ہو جائے۔
انصاف کی فراہمی یقینی ہو جائے۔اس ملک سے وزیر اور فقیر ناپید ہو جائیں تو میرے پاک وطن کرپشن لوٹ مار،ڈاکہ زنی،بھتہ خوری،اور گداگری کی لعنت سے نجات پا جائے۔اس کے لئے ہر فرد ہر شہر ی کو تبدیلی لانی ہوگی۔دھرتی ماں سے عہد کرنا ہوگا۔جس کی لاٹھی ،اسکی بھینس والا نظام ختم کرنا ہوگا۔میانہ روی،مساوات کا قانون جب لاگو ہو گا یہ ملک ترقی کی تمام منزلیں طے کر جائے گا۔ہمیں گداگروں کے خلاف سخت سے سخت کاروائی عمل میں لانی ہوگی۔تبھی معاشرے کا ہر شہری امن و سکون کی زندگی بسر کر سکتا ہے۔ہمیں خود کو بدلنا ہو گا۔نئے سرے سے قائداعظم کا پاکستا ن وجود میں لانا ہوگا۔کرپشن کے ناسوروں کو کیفرکردار تک پہنچانا ہوگا۔گداگروہوں کے گروہوں کا خاتمہ کرنا ہوگا۔معاشرے کے ہر شہری اور حکومت کو مل کر قانون پر عمل درآمد کرنا ہوگا۔