تحریر : محمد صدیق مدنی افغانستان ایشیاء کے پسماندہ ترین اور جنگ زدہ ملک ہے۔ اور دنیا کے مسلمانوں کے اہم ملک ہے جسمیں دنیا کے غیرت مند مسلمان قوم پشتون رہتے ہیں افغانستان میں بھارت کی انتہا درجے کی دلچسپی خالی از مصلحت نہیںاور یہ مسئلہ صرف نشاندہی سے ہی حل نہیں ہو گا بلکہ پاکستان کو امریکہ اور باقی دنیا کو بھارت کی نیت سے آگاہ کرنا ہو گا اور سفارتی سطح پر ایک سخت جنگ لڑنا ہو گی اور انہیں یہ بتانا ہو گا کہ بھارت جس نیت سے افغانستان آیا ہے اْس کے نتائج انتہائی خطرناک ہو سکتے ہیں۔
دسمبر 1979میں روس نے افغانستان میں اپنی فوجیں داخل کر دیں اور افغان مہاجرین جو وہاں سردارداود کے قتل کے بعد، ترکئی اور حفیظ اللہ امین کی غیر مستحکم اور غیر منتخب حکومتوں کے دوران بھی پاکستان آرہے تھے لاکھوں کی تعداد میںپاکستان پہنچے اور ساتھ ہی کلاشنکوف کلچر اور بم دھماکے بھی پاکستانی عوام کا مقدر ہوئے۔معیشت نے جو بوجھ اٹھایا ،پاکستان جیسے غریب ملک کے لیے اسے برداشت کرنا نا ممکن تھا لیکن پاکستانی عوام نے اپنے ان مجبور مسلمان بھائیوں کی مدد کو دینی فریضہ سمجھ کر ادا کیا۔ 1989میں روس افغانستان چھوڑ گیااور خود بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا
لیکن2001میں امریکہ وہی شوق ملک گیری لے کر افغانستان آیا جس کا مظاہرہ روس کر چکا تھا۔ اس کا بہانہ اْسامہ تھا لیکن مقصد کچھ اور،اور اس بار پھر پاکستان کو پہلے سے بھی برے حالات کا سامنا کرنا پڑا۔پہلے تو امریکہ اپنے مفاد لیے پاکستان کو استعمال کر رہا تھا لیکن اْسے امریکہ کی اپنے مطلب کے لیے ہی سہی مدد حاصل تھی لیکن اب تو پاکستان صرف برے حالات کا سامنا ہی کر رہا ہے بے یارو مدد گار۔
Drone Attack
امریکہ اسے استعمال کر رہا ہے لیکن اپنی شرائط پر ،اس کے عوام پر ڈرون حملے کر کے ،سرحد کے اْس پار افغان علاقوں سے اس کے فوجیوں پر حملے کروا کے، اس کے لوگوں کا قتل عام کر کے اور دنیا میں ہونے والی تمام دہشت گردی کے لیے اْسے مودالزام ٹھہرا کر بلکہ سزا دے کر۔یہ مختصر سا تذکرہ اور جائزہ تھا ان اثرات اور مشکلات جن کا سامنا پاکستان صرف افغانیوں کی مدد کی پاداش میں کرتا رہا ہے لیکن اب جبکہ امریکہ نے سمجھ لیا ہے کہ پاکستانی مزید اس کا دبائو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں تو اْس نے پاکستان کے بجائے بھارت کو افغانستان میں حد سے زیادہ اہمیت دینا شروع کر دی ہے
جو کہ انتہائی غیر قدرتی ہے اس اہمیت کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ وہ پاکستان کو یہ بتائے کہ وہ اس کے بغیر بھی افغانستان میں اپنے مقاصد حاصل کر سکتا ہے اور دوسری طرف بھارت افغانستان کی طرف سے بھی پاکستان کو نقصان پہچانے کی پوزیشن میں آ جائے بلکہ وہ ایسا کرنے میں کافی حد تک کامیاب بھی ہو چکا ہے کیونکہ پاک افغان سرحدی علاقوں اور قبائلی علاقہ جات میں جو دہشت گرد تنظیمیںپل رہی ہیںاور پاکستان کے ہر شہر اور ہر علاقے کو تہہ وبالا کر رہی ہیں وہ غیر ملکی امداد کے بغیر خود کچھ کرنے کے قابل نہیں۔ ظاہر ہے بھارت کے درجن بھر قونصل خانے کسی خاص مقصد ہی کے لیے تو بنائے گئے ہیں۔
اس کے علاوہ بھارت کے چار ہزار اہلکار افغانستان میں مختلف تعمیراتی ،تعلیمی ،ترقیاتی اور طبی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ یہ سب کچھ وہ یقینا افغانستان کی ہمدردی میں نہیںکر رہابلکہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ہی سرگرمِ عمل ہے اور مفادات کے حصول کے بعد وہ اپنی پالیسی تبدیل کرنے میں دیر نہیں لگائے گا۔اس نے ایران کے ساتھ مل کر بھی افغانستان میں کچھ ترقیاتی کام کیے جن میں سے ایک اہم منصوبہ دو سو ستر کلو میٹر طویل سورینج دل آرام سڑک ہے جو ایران سے افغانستان تک پہنچائی گئی اور جس کا مقصدبھارت افغان تجارت کے لیے آسان راستہ مہیا کرنا تھا لیکن جب امریکہ کا دبائو پڑا تو آج اس کے ایران کے ساتھ تعلقات میں وہ گرم جوشی نہیں رہی۔
Hillary Clinton
ہیلری کلنٹن کے مطابق بھارت اور امریکہ کے مفادات ایک ہیں لیکن ہیلری کلنٹن یاد رکھے جس وقت ان مفادات میں ٹکرائو پیدا ہوگا توبھارت اپنا اتحادی تبدیل کر دے گا۔ ہاں وہ اپنے واحد مستقل مقصد کے حصول سے کسی طرح دستبردار ہونے کو تیار نہیں اور وہ ہے پاکستان کو نقصان پہچانا۔اسی افغانستان کے راستے وہ بڑی آسانی سے بلوچستان میں دراندازی کر رہا ہے اور وہاں موجود پاکستان مخالف قوتوں کو اسلحہ اورمالی امداد فراہم کر رہا ہے جس کے مستند شواہد موجود ہیں پاکستان کو اس بات پر اعترض نہیں کہ وہ افغانستان میں کیوں ترقیاتی کام کر رہا ہے لیکن اس بات پر تشویش ضرور ہے کہ آخر امریکہ نواز افغان حکومت بھارت کو اتنی اہمیت کیوں دے رہا ہے
پھر بھارت اسی افغانستان کے غم میں کیوں مبتلاء ہو گیا ہے جس پر روسی قبضے کی وہ حمایت کرتا رہا ہے۔وہ یقینا صورت حال کا فائدہ اٹھا رہا ہے اور بھارت نواز کرزئی دور حکومت میں افغانستان میں اپنے پنجے اس مضبوطی سے گاڑہ رہا ہے کہ پاکستان کے خلاف اس کو اس کی مغربی سرحد پر ایک مضبوط بیس اسٹیشن میسر آجائے۔موجودہ صورت حال میں بھارت کے اس کردار کے پیچھے جو با اثرہاتھ محسوس ہوتا ہے وہ امریکہ ہے جو پاکستان کو کمزور کرنے کے ساتھ بھارت کو مضبوط دیکھنا چاہتا ہے لیکن وہ ایک بہت بڑی غلطی کر رہا ہے اور اوبامہ حکومت کی اس پالیسی پر سینیٹرجان مکین نے بھی تنقید کرتے ہوئے اسے خبردار کیا کہ پاکستان کو نظر انداز کرنے اور کمزور کرنے کی پالیسی کا امریکہ کو کوئی فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہی ہو گا
اوریہ کہ اوبامہ کی پاکستان پر تنقید بھی معاملے کو بگاڑدے گی۔افغانستان میں بھارت کی انتہا درجے کی دلچسپی خالی از مصلحت نہیںاور یہ مسئلہ صرف نشاندہی سے ہی حل نہیں ہو گا بلکہ پاکستان کو امریکہ اور باقی دنیا کو بھارت کی نیت سے آگاہ کرنا ہو گا اور سفارتی سطح پر ایک سخت جنگ لڑنا ہو گی اور انہیں یہ بتانا ہو گا کہ بھارت جس نیت سے افغانستان آیا ہے اْس کے نتائج انتہائی خطرناک ہو سکتے ہیں جس سے بچنے کے لیے یہاں اس کے غیر فطری کردار کو محدود کرنا ہو گا۔