تحریر : پروفیسر رفعت مظہر ہر مشکل گھڑی میںکند ھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہونے والے سعودی عرب کو ہماری پارلیمنٹ نے ”غیرجانبداری” کاایسا تحفہ دیا کہ سعودی بھائی تلملا اُٹھے ہمارے دفترِخارجہ نے جومسودہ تیارکیا تھااُس میںتوواضح طورپر حوثی قبائل کی مذمت کرتے ہوئے اُنہیںباغی قراردیا گیاتھالیکن تحریکِ انصاف نے ضداور دھونس سے اُس مسودے میںکچھ ایسی تبدیلیاںکروائیںکہ پوری قرارداد ہی مبہم اورغیرواضح ہوگئی ۔طُرفہ تماشہ یہ کہ پوری قرارداد میںحوثی قبائل اوراُن کے غیرقانونی اقدامات کاذکر کرنے کی بجائے ”غیرجانبداری”اورثالثی پرزور دیاگیا تھا۔گویا قرارداد کے مطابق پاکستانی پارلیمنٹ نے اپنے مشرقِ وسطیٰ کے دوستوںکو یہ پیغام دیاکہ پاکستان یمن کے باغیوںاور قانونی حکمرانوںکے مابین تنازعے میںغیرجانبدار رہے گا۔
یہ ”نادراورمنفرد” قرارداد ”صاف چھپتے بھی نہیں ،سامنے آتے بھی نہیں”کی عملی تصویرتھی کہ ایک طرف غیرجانبداری اورثالثی کااعلان اوردوسری طرف سعودی عرب کے کندھے سے کندھاملا کرکھڑے ہونے کی یقین دہانی ۔اِس مبہم قرارداد پر سعودی حکومت کے ردِعمل سے پہلے متحدہ عرب امارات کے وزیرِخارجہ ڈاکٹرانور قرقاش نے ”ایویںخوامخواہ” کھڑاک کرتے ہوئے الطاف بھائی کی طرح یہ ”بڑھک” لگادی کہ پاکستان کواِس قراردادکی بھرپورقیمت اداکرنی پڑے گی۔
ہم سمجھتے ہیںکہ ڈاکٹرانورقرقاش نے یہ ”کھڑاک”کرکے ہم پراحسان ہی کیاکیونکہ اِس کھڑاک سے نہ صرف سعودی حکومت کا غصہ کچھ ٹھنڈاہوا بلکہ اُسے یہ وضاحت بھی کرنی پڑی کہ متحدہ عرب امارات کے وزیرکا بیان محض وقتی اشتعال تھا۔اسی لیے توکہتے ہیںکہ ”نادان دوست سے دانادشمن بہتر”۔ایسے ہی ایک نادان دوست ہماری حکومت کے پاس بھی ہیں،نام اُن کا چودھری نثاراحمد،جو وزارتِ داخلہ کاقلمدان سنبھالے ہوئے ہیں ۔چودھری صاحب نے بھرپورانداز میںاماراتی وزیرکو نہ صرف للکارابلکہ یہ پیغام بھی دے دیاکہ غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ ودَو میں پہناتی ہے درویش کو تاجِ سرِ دارا
Chaudhary Nisar
قوم توخوش کہ چودھری صاحب نے عوامی جذبات کی ترجمانی کی (ویسے اِس بیان پرتھوڑاتھوڑا غصّہ ہمیںبھی آرہا تھا)لیکن وزیرِاعظم پریشان کہ چودھری صاحب نے بناسوچے سمجھے اورمشورہ کیے بیان داغ دیا۔چودھری نثارصاحب کو یہ توپتہ ہی ہوگا کہ جن قوموںکا انحصار کاسۂ گدائی پرہوتا ہے اُنہیں”مخدوم”کہلانے کاکوئی حق نہیںہوتا ۔اسی لیے تومیرے آقاۖ نے کہاتھا کہ دینے والاہاتھ ،لینے والے ہاتھ سے بہترہوتا ہے۔ متحدہ عرب امارات کے نائب وزیرکی دھمکیوںاور شیخ صالح بِن عبد العزیز کے اِس بیان کے بعدکہ” یمن پرثالثی مذاق ہے” ضروری ہوگیاکہ مشرقِ وسطیٰ کے برادراسلامی ممالک کی غلط فہمی دورکی جائے ۔معاملات چونکہ کچھ زیادہ ہی بگاڑکی طرف گامزن تھے
اِس لیے وزیرِاعظم صاحب کوذاتی حیثیت میں یقین دہانی کرانا پڑی کہ حکومت حوثی قبائل کی پُرزور مذمت کرتی ہے اوریمن میںصدرہادی کی حکومت کی بحالی چاہتی ہے ۔وزیرِاعظم صاحب نے فرمایا”سعودی عرب سٹرٹیجک پارٹنرہے ،ہم اِس کے ساتھ کھڑے ہیں۔سعودی عرب کی علاقائی خودمختاری کی کسی بھی خلاف ورزی یاحرمین شریفین کوخطرے کی صورت میںسخت ردِعمل دیاجائے گا۔ہم یمن میںحوثیوںاوردیگر غیرریاستی عناصرکی جانب سے قانونی حکومت کوگرانے کی شدیدمذمت کرتے ہیں۔ہم اپنے دوستوںاور سٹرٹیجک پارٹنرزکو تنہانہیں چھوڑیںگے”۔
وزیرِاعظم صاحب کے اِس واضح اورغیرمبہم بیان کے بعدپارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میںمنظورکی جانے والی متفقہ قرارداد کے غبارے سے ہوانکل گئی یہ الگ بات ہے کہ وزیرِاعظم صاحب نے کچھ لوگوںکی اشک شوئی کی خاطریہ بھی کہہ دیا”یمن بحران پرپارلیمنٹ کی قرارداد حکومتی پالیسی کے مطابق ہے البتہ خلیجی اتحادی اسے صحیح طورپر سمجھ نہیںسکے ”۔ خلیجی اتحادی صحیح طورپر سمجھے ہوںیانہ ، ہم ضرورسمجھ گئے کہ وزیرِاعظم میاںنوازشریف صاحب کی ”حسِ مزاح”تاحال قائم ودائم ہے حالانکہ ہم توسمجھتے تھے کہ طویل جلاوطنی کے دُکھ نے میاںصاحب سے یہ ”حِس” چھین لی ہے۔
Nawaz Sharif
اسی لیے میاں صاحب کے چہرے پرچھائی گھمبیر سنجیدگی کبھی کبھی ہمیںپریشان بھی کردیتی تھی ۔میاںصاحب نے اپنے دوستوںکو واضح ،دوٹوک اورغیرمبہم پیغام پہنچاکر خوش بھی کردیا اورپارلیمانی قراردادکی ”لاج” بھی رکھ لی ۔اُنہوںنے تحریکِ انصاف کا ”غیرجانبداری”کا بھرم بھی رکھ لیااور ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیاکہ ”ہم توہرگز غیرجانبدار نہیں”۔اُنہوںنے تحریکِ انصاف کی ضد پرقراردادمیں حوثی قبائل کابراہِ راست ذکرکرنے سے گریزکیا اورپالیسی بیان میںباغی حوثیوںکی بھرپورمذمت بھی کردی ۔اسی لیے توہم کہتے ہیںکہ میاںصاحب بڑے ”مخولیے”ہیں۔
افہام وتفہیم کی اِس فضاء میںپاکستان کے دورے پرآئے ہوئے سعودی وزیربرائے مذہبی امورشیخ صالح بِن عبد العزیزنے پارلیمنٹ کی متفقہ قرارداد کوپاکستان کااندرونی معاملہ قراردیتے ہوئے برملا کہہ دیاکہ پاکستان اورسعودی عرب مذہب اوردوستی کے مضبوط دیرینہ رشتوںمیں جُڑے ہوئے ہیںاور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ رشتے مستحکم ہورہے ہیں۔اُنہوںنے سعودی حکومت کے خدشات کاذکر کرتے ہوئے کہا”اسلحے اورطاقت کے زورپر ناجائزطریقے سے یمن میںحکومت کی تبدیلی کوہرگز برداشت نہیںکیا جائے گا ۔سعودی حکومت کے پاس ایسی مصدقہ اطلاعات موجودہیں کہ حوثی باغیوںنے 500 کلومیٹردور تک مارکرنے والے میزائل حاصل کرلیے ہیں
جس سے اُن کے عزائم واضح ہیںکیونکہ ظاہرہے کہ یہ میزائل لبنان پرداغنے کے لیے تونہیں منگوائے گئے ”۔وزیرِاعظم صاحب کے پالیسی بیان کے بعدشیخ صالح بن عبد العزیزکو بہرحال یہ تویقین ہوگیا ہوگاکہ حالات خواہ کوئی بھی نہج اختیارکریں ،پاکستان بہرحال سعودی عرب کے کندھے سے کندھاملاکر کھڑاہوگا کیونکہ ہم مذہب اوردوستی کے ایسے مضبوط بندھن میںبندھے ہوئے ہیںجسے ابلیسیت کے علم بردار انشاء اللہ کبھی نہیںتوڑ سکیںگے۔