تحریر : شکیل احمد شیدا خوبصورت نظامت ایک ایسا فن ہے جس سے کوئی بھی پروگرام کامیابی کی ضمانت تصور کیا جاتاہے۔کئی بارمشاعروں یا دوسرے بڑے پروگراموں میں عالمی شہرت یافتہ شرکاء ڈائس پر ہوتے ہیں لیکن غیر مؤثر نظامت کی وجہ سے پروگرام کا معیار پست ہوجاتاہے۔ یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ ہندوستان میں برسوں تک ایسی آواز پیش کش ، ذہانت اور تخلیقیت سے ملک زادہ منظور احمد نے کئی نسلوں کو اپنا گرویدہ بنایا ۔ قومی یا بین الاقوامی مشاعرے میں ملک زادہ منظور احمد کی شمولیت سے ہی یہ اندازہ لگایا جاتا تھا کہ پروگرام قومی یا بین الاقوامی معیار کا ہے ان کے بعد بھی کئی نقیب جگمگاتے رہے ا ن میں بشیر بدر، وسیم بریلوی، ثقلین حیدر، منوررانا، انور جلالپوری، شگفتہ یاسمین ذی سلام وغیرہ کی خدمات کو ہم کبھی فراموش نہیں کرسکتے ۔ ہر نقیب اپنی اپنی خوبیوں کے پیش نظر عوام میں مقبول رہا اور ان میں بعض آج بھی معتبر اور محترم ہیں۔
اب یہ بھی حقیقت روشن ہوگئی ہے کہ گزشتہ برسوں میں بہا رکی سرزمین سے ہی ابھر نیو الے بین الاقوامی شہرت یافتہ ادیب ڈاکٹر قاسم خورشید نے لگاتار اپنے انتہائی مؤثر لہجے خوبصور ت آواز، اور جادو بیانی سے کئی کئی قومی اور بین الاقوامی پروگراموں کی کامیاب ترین نظامت سے ذی علم اور ذی شعور اور باذوق سامعین کو اپنا گرویدہ بنالیا ہے۔ڈاکٹر قاسم خورشید جب کبھی مائک پر آتے اور انہوں نے جیسے ہی اپنے سامعین کو خطاب کیا ماحول سحر زدہ ہوجاتاہے پر کشش آواز ، لفظوں کے خوبصورت انتخاب اور تخلیقی پیرائے اظہار سے ہر فر د یکساں طور پر متاثر ہوئے بنا نہیںرہ پاتا۔ ملک زادہ منظور احمد کو ہم سب سنتے رہے ہیں اور انہیں مزید سننا بھی کسی عمدہ تخلیق کی پیش کش سے کسی بھی معنوں میںکم نہیں رہا ہے اسی طرح ڈاکٹر قاسم خورشید کو سنتے ہوئے اکثر یہ بھی احساس ہوتاہے کہ ایک بہت ہی خوبصورت آواز سے لبریز ہم کوئی عمدہ تخلیق سماعت کر رہے ہیں۔آواز میں سحرآفرینی یا کشش کا ہونا بلاشبہ قدرتی امر ہے اور اگر اس میں اپنی محنت ، مناظرے اور مطالعے کا امتزاج شامل ہوجائے تو پھر یہی عمل زندہ شناخت عطا کر نے میں معاون ہوجاتاہے۔ گزشتہ صدی میں ملک زادہ منظور احمد اور اس صدی میںایسے اوصاف ڈاکٹر قاسم خورشید کی نظامت میں نظر آتے ہیں۔
دراصل قاسم خورشید نے میڈیاسے اپنا کیریر شروع کیا جب پہلی بار آل انڈیاریڈیو کے اردو پروگرام کے لئے اناؤنسر کا آڈیشن ہوا تو اس میں اپنی آواز سے سب سے زیادہ انہوں نے ہی متاثر کیا اور وہ اول آئے بعد میں ان کی پیش کش کو دیکھ کر آل انڈیا ریڈیو کے جنرل پروگرام میں انہیں موقع دیا گیا اور وہ لگاتار اپنی بہترین خدمات سے متاثر کر تے رہے ۔ پھر مختلف نشستوں ، مشاعروں کوی سمیلنوںمیں بحیثیت نقیب بھی تیزی سے اپنی پہچان بناتے رہے ۔ اس کے بعدبہار میں ایجوکیشنل ٹیلی ویژن کی شروعات ہوئی تو اس میں بھی وہ مقابلے کے بعد منتخب ہوئے ۔ اے آئی بی ڈی (ملیشیا) ISRO وغیرہ سے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن براڈ کا سٹنگ میں اعلیٰ ٹرینگ لی او رپٹنہ میں دور درشن آنے سے پہلے دلی دور درشن کے لئے براہ راست پروڈکشن میں شمولیت اور ریڈیو دور درشن کے لئے بحیثیت پیش رو اور ڈائریکٹر سینکڑوں پروگرام کئے جس سے اعتماد اور بھی بحال ہوتارہا۔
Poetry Competition
جہاں تک مشاعروں کا معاملہ ہے تو کئی آل انڈیا اور بین الاقوامی مشاعرے میں انہوں نے تخلیق کار کے ساتھ ایک ناظم کی حیثیت سے بھی انتہائی اہم ترین کار نامے کئے مجھے یاد ہے کہ ایک مشاعرے میں احمد فراز ، شہریار، بیکل اتساہی، مخمور سعیدی اور دنیا کے دوسرے اور کئی بڑے شعرائے کرام تھے ، اس مشاعرے کی نظامت ملک زادہ منظور احمد نے کی تھی۔مسئلہ تھا کہ کس شاعر کے ذریعہ مشاعرے کی شروعات کی جائے اس میں قاسم خورشید بحیثیت شاعر مدعو تھے۔ انہوںنے جب مشاعرے کی شروعات کی تو ماحول سحر زدہ ہوگیا۔ قاسم خورشید نے غزل سنائی تھی۔ درو دیوار سے اُگتی ہوئی تنہائیاں چپ ہیں کوئی تو بات ہے جس بات سے رسوائیاں چپ ہیں کہیں ہے جشن کا عالم کہیں آنکھوں میں دریا ہے مہک ہے سرخ جوڑے کی مگر شہنائیاں چپ ہیں
کوئی بھی ان کے انداز تخاطب کو دیکھ کر خاموش نہیں رہا۔ مشاعرہ ختم ہونے کے بعد بھی وہ لمحے سبھوں نے ذہن و دل میں محفوظ رہے میڈیانے بھی ان کی بے حد پذیرائی کی تھی۔ یوں تو قاسم خورشید نے اپنے اشعار کے ساتھ ہمیشہ اپنی نظامت کا بھی لوہا منوایا لیکن ان کا ماننا ہے کہ ہم نے اپنے مشاہیر سے بہت کچھ سیکھا ہے خصوصی طور پر ملک زادہ منظور احمد میرے آئیڈیل ہیں وہ ایک سنگ میل کی حیثیت رکتھے ہیں بلکہ جو لوگ چاہتے ہیں کہ اس فن کو باریکی سے سمجھیں تو انہیں ملک زادہ منظور احمد کی ریکارڈنگ سن کر بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملے گا۔ڈاکٹر قاسم خورشید نے یوں تو سینکڑوں مشاعرے، کوی سمیلنوں ، سیمناروں کی نظامت کی ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ موثر طریقے سے کیسے معیار سازی کی جاتی ہے انہیں دوسرے لوگوں سے اس لئے بھی سبقت حاصل ہے کہ وہ بیک وقت اردو کے ساتھ ہندی کے اسٹیج پر یکساں طور پر اپنا اثر قائم رکھتے ہیں ۔ بڑے مشاعرے یا بڑے اسٹیج سے ان کا ہمیشہ تعلق اس طور پربھی رہا ہے کہ IPTA کی بڑی کانفرنسوں میں جہاں ہزاروں کی تعداد میں مجمع ہوا کرتاتھا قاسم خورشید نے ہمیشہ انہیں بھی خطاب کیا اور مجمع کی توقع کا احترام بھی کیا۔جب سامعین کی خاصی تعداد ہواکرتی ہے اور خصوصی طورپر بھیڑ میں کئی مکتبۂ فکر کے لوگ ہوا کر تے ہیں تو اس وقت مجمع کو بہتر ڈھنگ سے سنبھال پانے کی ذمہ داری بھی نقیب پر ہی ہوتی ہے۔
Shri Krishna Memorial Hall
ابھی حال میں شری کرشن میموریل ہال کے جشن اردو کے مشاعرے میںا گلی صف میں کچھ دوستوں میں ہی نااتفاقی ہوگئی ۔ ہال میںتھوڑی دیر کے لئے افراتفری کا منظر نظر آیا لوگ ہنگامہ کرنے لگے تو صدر مشاعرہ منور رانا اور سنئیر شاعر وسیم بریلوی نے بحیثیت شاعر مدعو ڈاکٹر قاسم خورشید سے گزارش کی کہ وہ مجمع کو خطاب کر تے ہوئے مشاعرے کا ماحول بنائیں حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ڈاکٹر قاسم خورشید نے جیسے ہی اپنے پروقار اور پر اثر لہجے میں خطاب کیا پھر سے ایک ماحول بن گیا اور پہلے کی طرح نہایت کا میابی کے ساتھ مشاعرہ جاری ہوا اور بہترین اختتام تک پہنچا۔ڈاکٹر قاسم خوریشد کی نظامت کا یوں تو زمانہ معترف ہے مشاہیر نے بھی انہیں اپنی پسندیدگی سے نوازا ہے جن میں احمد فراز، ڈاکٹر کلیم عاجز، منوررانا، ندا فاضلی، افتخار صدیقی، آلوک دھنوا،ارون کمل، شمیم فاروقی، وسیم بریلوی، سلطان اختر، شبینہ ادیب، انا دہلوی، نکہت امروہوی ، زاہد حنا، مخمور سعیدی، کلیم قیصر، پالولر میرٹھی وغیرہ اہم ہیں۔آج ہمارے لئے یہ باعث صدا فتخار ہے کہ بہار کی زمین سے ابھرنے والے اہم ترین تخلیق کار ڈاکٹر قاسم خورشید کو نقیب کی حیثیت سے بھی انتہائی معتبر اور محترم تسلیم کیا جاچکا ہے ہم دعا گو ہیںکہ سار ی دنیا ان کے اس اہم ترین وصف سے ہمیشہ استفادہ کرتی رہے اور سب بیک زبان یہ کہیں کہ شعلہ سا لپک جائے ہے آواز تو دیکھو!