تحریر:سید فیضان رضا ”مدرسہ” کا لفظ پڑھتے ہی آپ کے ذہن میں جو خاکہ بنتا ہوگا اس میں ایک پسماندہ عمارت کے خستہ حال کمرے میں مفلوک الحال طبقہ سے تعلق رکھنے والے میلے کچیلے کپڑے پہنے طالبِ علم ہی آتے ہوں گے۔مگر ایک بات آپ نے غور کی کبھی؟ یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے مگر یہاں آپ نے آج تک کسی مدرسہ کے باہر ”گورنمنٹ مدرسہ” یا ”سرکاری ادارہ برائے درسِ نظامی” نہیں پڑھا ہوگا۔آپ نے ملک کا تعلیمی بجٹ بنتے دیکھا ہوگا، اربوں کی گرانٹ سے گورنمنٹ کے سکولز ، کالجز اور یونیورسٹیز کو پھلتا پھولتا دیکھا ہوگا، تعلیم کی شرح کے متعلق ملک کے ہر ذی شعور اور دانش ور کو فکر مند دیکھا ہوگامگر آپ نے کبھی بھی کسی کی زبان سے سرکاری سطح پر مدارس کے قیام کی بات نہیں سنی ہوگی۔آپ نے کسی بھی گورنمنٹ یونیورسٹی میں درسِ نظامی کے داخلوں کے لیے اشتہار بھی نہیں دیکھا ہوگا۔
آپ نے کسی بھی نوکری کے لیے دیے گئے اشتہار میں تعلیمی قابلیت درسِ نظامی کا طلبگار بھی نہیں دیکھا ہوگا ۔حتیٰ کہ آپ نے کبھی یہ اعلان بھی نہیں سنا ہوگا کہ ملک میں موجود تمام رجسٹرڈ مدارس کا خرچہ گورنمنٹ اٹھائے گی۔اس کے برعکس کبھی مدارس کومجبور کیا جاتا ہے کہ وہ میٹرک کی تعلیم لازمی کریں کبھی کہا جاتا ہے کمپیوٹر کی تعلیم لازمی ہے، جیسے سرکار نے اس کام کے لیے کثیر بجٹ ان مدارس کی جھولی میں ڈال دیا ہو۔پورے پنجاب کے چھوٹے سے چھوٹے سکول میں کمپیوٹر لیب بنا کر دے دی گئی مگر افسوس کسی بھی مدرسہ میں یہ سہولت مہیا نہیں کی گئی۔ہم آخر مدارس اور اُن کے طلباء کو سمجھتے کیا ہیں؟ کیا صرف ان پر پسماندگی کی مہر لگا کر ہم انہیں معاشرے کا ایسا طبقہ بنا کر رکھنا چاہتے ہیں جس میں احساسِ کمتری کے علاوہ کچھ بھی نہ ہو۔علم کے لحاظ سے ایک عالم کسی بھی بڑی یونیورسٹی کے پی ایچ ڈی اسلامیات پروفیسر سے زیادہ تو ہوتا ہے کم نہیں۔مگر دونوں کے مقام ، رتبے اور تنخواہ میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔
سرکاری نوکری کے لیے ایک بی اے پاس اہل ہو سکتا ہے ایک عالم نہیں۔ آپ عالم بن کر صرف مسجد کے امام بن سکتے ہیں۔اور افسوس ناک امر یہ ہے کہ گلی کا جمعدار بھی دس ہزار سے زیادہ تنخواہ لیتا ہے مگر امام مسجد کی تنخواہ چار پانچ ہزار سے زیادہ نہیں ہوتی۔ اب آپ سچوئشن کو سمجھنے کی کوشش کریں، آپ نے ایک عالم کے لیے نوکری کے تمام دروازے بند کیے ہوئے ہیں اور برائے نام جو اس کو نوکری دی جاتی ہے اس میں بھی خاندان کا پیٹ بھرنا تو درکنارلباس بھی پورے نہیں بنتے۔ گویا ایک غلطی ہے جو وہ ”اسلامی” جمہوریہ پاکستان میں درسِ نظامی کی ڈگری کے نام پر کر چکا ہے۔اب اس ملک کا وہ سب سے کم تنخواہ والا طبقہ ہے جو نہ تو قابلِ عزت سمجھا جاتا ہے اور نہ ہی قابلِ معیار۔
Religious Education
اسلامی دنیا میں مدرسہ کو بطور ایک تعلیمی ادارہ کے گیارہویں صدی میں متعارف کروایا گیا۔ اس وقت مدرسہ کا مطلب صرف دینی تعلیم نہیں تھا، بلکہ رائج الوقت تمام علوم ان مدارس میں پڑھائے جاتے تھے۔ان اداروں کے فارغ التحصیل طلباء بیک وقت عالم، طبیب، سائنس دان اور علم دان ہوتے تھے۔قیام پاکستان کے وقت یہاں 189 مدارس تھے مگر جنرل ضیاء کے دور میں ان کی تعداد میں کثرت سے اضافہ ہوا۔2002 ء کے دوران پاکستان میں غیر رجسٹرڈ مدارس کی تعداد 10,000 سے لے کر 13,000 تک تھی جن میں 17 سے19 لاکھ طلباء تعلیم حاصل کر رہے تھے ۔2008 ء کے اعداد وشمار کے مطابق یہ مدارس 40,000 کا ہندسہ عبور کر چکے تھے۔ 2003 کے مشرف دور میں ”پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ” بنایا گیاجس کا مقصد مدارس کو رجسٹر کرنا اور ان میں اصلاحات کا نفاذ تھا۔
ملک میں مدارس کے دو بڑے بورڈز ہیں جن کے زیرِ انتظام پورے پاکستان میں درس نظامی اور دیگر دینی کورسز کے امتحانات لیے جاتے ہیں، ایک ”تنظیم المدارس پاکستان” جو کہ اہلسنت والجماعت بریلوی مسلک سے متعلق ہے دوسرا ”وفاق المدارس العربیہ” ہے جس کا تعلق دیوبندی مکتبہ فکر سے ہے۔ملک میں سب سے زیادہ مدارس دیوبندی مسلک کے ہیں جن کی تعداد 65 فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ اس لحاظ سے ”وفاق المدارس العربیہ” پاکستان کے مدارس کا سب سے بڑا بورڈ ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کے تقریباً 75 فیصد سے زیادہ مدرسے بیرونی امداد سے چل رہے ہیں اور ان امداد کاروں میں سعودی عرب سرِ فہرست ہے جو ایک اندازے کے مطابق 70بلین ڈالر سالانہ ان مدارس اور ان کی سرگرمیوں کے لیے خرچ کر رہا ہے۔اس کے علاوہ دوسرے عرب ممالک اور ایران بھی امداد دینے والوں میں شامل ہے۔ان سب کی امداد کا مقصد پاکستان میں مخصوص طبقہ کی تعداد میں اضافہ ہے جس میں واقعتا تیزی سے اضافہ جاری ہے اور ایک ایک کثیر تعداد بریلوی مسلک جو کہ اس وقت بھی 60 فیصد سے زیادہ ہے، کو چھوڑ کر دیوبندی، اہلِ حدیث اور شیعہ بن چکی ہے۔
Oil
وہابی مسلک جو کہ دنیا کی آبادی کا 2 فیصد ہے اپنی تیل کی دولت کے باعث عربی زبان کے 95 فیصد میڈیا پر کنٹرول رکھے ہوئے ہے اور امریکہ کی 80 فیصد سے زیادہ مساجد وہابی مسلک کے زیرِ اثر ہیں۔اس سب کے باوجود بدنصیبی یہ ہے کہ امداد کا بہت کم حصہ مدارس اور طلباء پر خرچ کیا جاتا ہے اور مدارس کا نظام چندے سے ہی چلایا جاتا ہے۔جس کے لیے عموماً ان ہی طلباء کو سہارا بنایا ہوتا ہے۔چنانچہ مدرسہ کا فارغ التحصیل طالبِ علم ہمیشہ اس احساسِ کمتری کا شکار رہتا ہے کہ وہ امداد اور چندے کی رقم پر پڑھ اور پل رہا ہے۔ آپ نے کبھی کسی مدرسے کے باہر کار رکتے نہیں دیکھی ہوگی جس میں کوئی امیر کبیر شخص اپنے بچے کو چھوڑنے آیا ہو۔مدرسہ کی زینت ایسا بچہ ہی بنتا ہے جو یا تو دماغی طور پر کمزور یا معذور ہو یا پھر ایسے غریب اور محروم طبقہ سے تعلق رکھتا ہو جو اپنے بچے کو صرف اس لیے مدرسہ میں داخل کرواتے ہیں تاکہ بچہ کی روٹی کا مسلہ نہ رہے۔کیونکہ مدرسہ بچہ کی تعلیم، رہائش اور کھانا مفت فراہم کرتا ہے۔
آپ مدرسہ کو ایسامواد دے رہے ہیں جس کو اس معاشرے میں سب سے زیادہ توجہ کی ضرورت ہے اور پھر اس کو وہ بنایا جا رہا ہے جو خود معاشرے کی ضرورت ہے۔ہم جتنے بھی الحاد پسند ہو جائیں مگر کمزور سے کمزور ایمان والا مسلمان بھی کچے دھاگے کی طرح جمعہ کے دن مسجد کی طرف کھینچا چلا آتا ہے۔اور آگے تقریر کرنے والا شخص وہ ہے جسے معاشرہ اُس کی ابتدائی زندگی سے ہی دھتکارتا ہوا آرہا ہے۔جس کو دیکھ کر ایک عام سی نوکری والا شخص بھی ترس ہی کھاتا ہے۔کیا وہ اس قابل ہے کہ معاشرے کی تربیت کرسکے؟ کیا ہماری معاشرے کی اخلاقی گراوٹ کی یہی وجہ تو نہیں؟ اللہ ارباب اختیار کو اس معاملے میں سنجیدہ ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین!