یوں وقت کے ہاتھوں سے سرک جاتی تھی زندگی ہر بار دکھلا کے جھلک جاتی تھی پیچھے چلتے رہے ترسے ہوئے بالک کی طرح جیسے ہی بھرتا پیمانہ چھلک جاتی تھی انکی آنکھوں سے تبسم کو چرایا کرتے لب کھلتے ہی نگاہ بھٹک جاتی تھی سبز پتوں پہ اٹکی ہوئی شبنم کی طرح سوچ بھی چشم تصور میں اٹک جاتی تھی کون سوچے گا اس عمر کی رعنائیوں کو حسن کی تاب جب دور تلک جاتی تھی