تحریر : شاہد شکیل وقت صدا ایک سا نہیں رہتا انسان کی زندگی طویل بھی ہے اور بہت مختصر بھی ،انسان کی زندگی میں کئی بار ایسے واقعات بھی پیش آتے ہیں جہاں وہ ہمت ،حوصلے، تحمل مزاجی اور خود اعتمادی سے کام لینے کی بجائے وقتی طور پر رونما ہونے والے واقعات سے اکتا کر اکثر جرائم کو ترجیح دیتا اور دلبرداشتہ ہو کر غصے میں وہ گناہ کر بیٹھتا ہے جس کی سزا اسے اسی دنیا میں ہی مل جاتی ہے سزا کا دکھائی دینا ضروری نہیں سزا محسوس ہوتی ہے کیونکہ وہ انسان کو جسمانی نہیں ذہنی اور روحانی طور پر اند ر سے کچلتی ،ڈستی اور کچوکے لگاتی ہے جس سے موت ہی چھٹکارا دلا سکتی ہے۔
پاکستان کے حکمران چاہتے ہی نہیں کہ ملک میں عوام کو سکون ،آزادی ، تحفظ،قانون ، تعلیم ،توانائی اور انسانی حقوق حاصل ہوں وگرنہ ملک کے کونے کونے میں آعلیٰ تعلیم یافتہ افراد موجود ہیںجو ملک کی ترقی و خوشحالی میں مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں لیکن انہیں موقع نہیں دیا جاتا جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں ہر فرد کو اہمیت دی جاتی ہے رنگ و روپ ،نسل، کالا گورا نہیں دیکھا جاتابلکہ اسکی سوچ اور ملک و قوم کی ترقی کو مد نظر رکھتے ہوئے اسکا موقف سنا جاتا اور اگر اس پر عمل درامد ممکن ہو تو کیا جاتا ہے مثلاً تجاوازت کے موضوع پر کسی کو شکایت ہے تو وہ شہر کے میئر یا کونسلر سے رو برو بات کر سکتا ہے اور اسکی شکایت دور کرنے یا تجاوزات میں رد وبدل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے یہاں یہ کہنا ضروری سمجھتا ہوں
پاکستانی حکمران مغربی ممالک ،چین ، ترکی اور مشرقِ وسطیٰ کے ان گنت دورے کر چکے ہیں اور ان ممالک کی ترقی کا راز بھی بخوبی جانتے ہیں لیکن نہیں چاہتے کہ ریاست میں وہ سب کچھ قائم ہو جو دیگر ممالک میں رائج اور قائم ہے تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیوں کب اور کیسے ملک و قوم ترقی کریں گے جب حکمران ہی نہیں چاہتے۔ مغربی ممالک میں آزادی کے ساتھ ساتھ تحفظ اور قوانین بھی رائج ہیں اور کوئی شخص آزادی کا ناجائز فائدہ نہیں اٹھاتا کیونکہ وہ جانتا ہے قانون کے ہاتھ لمبے ہی نہیں بے رحم بھی ہیں جکڑے جانے پر بہت بھیانک نتائج کا سامنا کرنا ہو گا، یہی وجہ ہے کہ قانون کا احترام کرنے سے ہر فرد آزادی سے پُر سکون زندگی بسر کرتا ہے۔
Children
برطانیہ میں آکسفورڈ شائر سیو گارڈنگ چلڈرن بورڈ نے ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں بتایا گیا کہ برطانیہ میں سینکڑوں بچوں اور خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کی جاتی ہے تفتیش کے مطابق جنسی زیادتی کرنے والے افراد کا تعلق پاکستان اور مشرقی افریقا سے ہے ، برطانوی پولیس زیادتی کرنے والے منظم گروہ کی تلاش میں چھاپے مار رہی ہے کئی افراد کو گرفتار کیا گیا اور ان پر الزامات بھی عائد کئے گئے کہ ان لوگوں نے کمسن لڑکیوں کو اغوا کرنے یا بہلا پھسلا کر تشدد کیا اور عصمت دری کے بعد جسم فروشی کرنے پر مجبور کیایہ کمسن لڑکیاں برٹش ہیں اور ان کا تعلق چلڈرن ہوم سے ہے،چلڈرن بورڈ نے رپورٹ میں بتایا کہ جنسی زیادتی کرنے والے مجرم مسلمان ہیں اور پاکستان یا افریقا سے تعلق رکھتے ہیںاور یہ کوئی پہلا موقع نہیں کہ ان ممالک سے تعلق رکھنے والے ایسی گھناؤنی وارداتوں میں ملوث ہیں ،
گزشتہ سولہ سالوں میں آکسفورڈ شائر کے علاوہ دیگر مقامات پر تین سو ستر کمسن لڑکیوں کے ساتھ تشدد کرنے کے بعد ریپ کیا گیا،کئی لڑکیوں نے پولیس میں رپورٹ درج کروائی اور کئی کیسسز میں مقامی پولیس ،بلدیہ اور فلاح و بہبود کے اداروں نے توجہ نہیں دی اور تفتیش کئے بغیر فائلیں بند کر دیں۔مجرمانہ حرکات میں اضافہ ہونے پر پہلی تفتیش دوہزار گیارہ سے شروع ہوئی اور آکسفورڈ کے دیہی علاقے رادھرم کو حساس قرار دیا گیا،رپورٹ میں بتایا گیا کہ گزشتہ دو سالوں کے دوران صرف پاکستانیوں نے چودہ سو لڑکیوں کی عصمت دری کی اور ہوس کا نشانہ بنانے کے بعد جسم فروشی کرنے پر مجبور کیااور دھمکی دی کہ بدیگر صورت موبائل پر بنی ویڈیو فیس بک پر دکھا دی جائے گی،
برطانوی پولیس اور سماجی کارکنوں کو موجودہ جرائم کی تفتیش کرنے میں کافی دشواری پیش آرہی ہے تاہم انہوں نے کئی لڑکیوں کے بیانات قلمبند کئے لیکن لڑکیاں خوف زدہ اور بے چینی محسوس کر رہی ہیں کہ اگر کسی کا نام لیا تو ویڈیو دکھا دی جائے گی یا قتل کر دی جائے گی،تفتیشی اداروں کا کہنا ہے بغیر ثبوت کے ہم کسی مسلم یا دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کو نہ تو شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھتے ہیں نہ الزام لگایا جاتا ہے اور نہ حراست میں لے سکتے ہیںایسے جرائم منظم گروہوں کے علاوہ نفسیاتی مرض میں مبتلا افراد ہی کرتے ہیں چلڈرن پورن گرافی رِنگ نہ صرف برطانیہ بلکہ جرمنی ،پولینڈ ،روس ، فرانس ، تھائی لینڈ ،اسرائیل اور امریکا میں بھی قانون کو مطلوب ہے۔
India
بھارت میں آئے دن عصمت دری کے واقعات رونما ہوتے ہیں اور پاکستان میں بھی ہر روز دل ہلا دینے والی خبر ملتی ہے کہ آج فلاں شہر ، گاؤں،سکول،حتیٰ کہ بھرے بازار میں بھی خواتین کے ساتھ زیادتی کی واردات ہوئی ،بچوں پر تشدد کیا جاتا ہے سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر کب تک خواتین اور بچے ان درندوں کی بھینٹ چڑھتے رہیں گے ،ہمیں دنیا میں رونما ہونے والے واقعات کی بجائے اپنے ملک اور قوم کے بارے میں سوچنا ہے لیکن اس سے پہلے یہ سوچنا ہو گا کہ حکمران کب ان حساس معاملات میں دلچسپی لیں گے اور قوم کو سکون سے زندہ رہنے دیا جائیگا۔
علاوہ ازیں ان درندوں کو کب یہ بات سمجھ میں آئے گی کہ ایسی حرکات کرنے سے ہمارے ملک کی کتنی بدنامی ہوتی ہے لوگ ہم سے دور بھاگتے اور نفرت کرتے ہیں جہاں کہیں اس قسم کا واقعہ پیش آئے تو سب سے پہلے ہمارا نام لیا جاتا ہے شکوک و شبہات میں پولیس ہر اس فرد پر ہاتھ ڈالتی ہے جس کا اس واقعے سے دور تک واسطہ نہیں ہوتا، کیوں نہیں ہم بلوغت کے معنی سمجھ سکتے،کیوں طلسماتی دنیا میں کھوئے رہتے ہیں، کیوں نہیں ۔۔۔۔
پاکستانی حکمران کیوں نہیں چاہتے کہ ملک وقوم ترقی کریں کیوں تحفظ فراہم نہیں کیا جاتاکیوں قوانین پر عمل درامد نہیں ہوتا کیوں آئے دن قتل و غارت گری ،عصمت دری اور بچوں پر تشدد کیا جاتا ہے،کیوں توانائی بحران پر قابو پایا نہیں جاتا،کیوں کچہریوں اور عدالتوں میں نسل در نسل عوام کو خوار کیا جاتا ہے،کیوں ہسپتالوں اور تعلیمی ا داروں کو ترقی نہیں دی جاتی،کیوں بد عنوانی کو پاگل کتے کی طرح چھوڑ رکھا ہے،کیوں مذاہب کے نام پر دنگا کروایا جاتا ہے، کیوں ایسا نظام بنانے کی کوشش نہیں کی جاتی جس سے عوام خوشحال اور پر سکون زندگی جی سکے۔عوام ایک پرسکون اور خوشحال پاکستان کا خواب دیکھتے دیکھتے ایک ایک کر کے ختم ہو جائے گی لیکن ان حکمرانوں کے سر سے جوں تک نہیں رینگے گی۔