تحریر : پروفیسر رفعت مظہر بعداز خرا بیٔ بسیار”دھاندلی پکوان” کی ہنڈیا عدالتی چولہے پرچڑھ ہی گئی جوڈیشل کمیشن کی تشکیل پرہشاش بشاش عمران خاں صاحب نے کہا ”جوبھی فیصلہ آئے گاجمہوریت کے لیے بہترہی ہوگا”۔لیکن ساتھ ہی یہ کہہ کرہمارا جی خوش کردیاکہ ” 2015ء الیکشن کاسال ہے ”۔ہمارے ”کالمی درویشوں”والے لکھاری،جوکسی زمانے میںخاںصاحب کو قائدِاعظم ثانی قراردیا کرتے تھے لیکن پھروہ کپتان صاحب سے روٹھ گئے کیونکہ خاںصاحب کی غلط پالیسیوںکی وجہ سے اُن کے ”گورنرہاؤس”پنجاب پر قبضے کے سارے خواب چکناچور ہوگئے ۔تب سے اب تک وہ خاںصاحب کو سیاسی نابالغ ہی قرار دیتے رہے لیکن جوڈیشل کمیشن کی تشکیل پروہ بھی بہت خوش ہیں کیونکہ اُن کی اُمنگیںپھر سے جواںہو گئی ہیں۔وہ کہتے ہیںکہ اسحاق خاکوانی نے ایسازبردست کیس تیارکیا ہے کہ ”بَلے بَلے”۔ہم چونکہ لکھاری موصوف کے ”کالمی درویشوں”سے بہت متاثرہیں اِس لیے ہم بھی خوش کہ ہماراکپتان ”آوے ای آوے”۔
تحقیقاتی کمیشن کی تشکیل پر”اپنے، بیگانے”سبھی خوش ہیںلیکن خوشی کی نوعیت ”وَکھرووکھری”۔ نوازلیگ خوش کہ ”کاٹھ کی ہنڈیاباربار نہیںچڑھتی”۔اُسے علم کہ جوڈیشل کمیشن سے رجوع کرنے والی سیاسی جماعتوںنے کوئی نئی بات کہی نہ منظم دھاندلی کاکوئی ثبوت پیش کیا۔قومی اسمبلی کی صرف 5 فیصدنشستوںپر اعتراضات سامنے آئے ،جوڈیشل کمیشن نے جن 41 حلقوںکے انگوٹھوںکے نشانات کی رپورٹ نادراسے طلب کی اُن میںسے 24 حلقوںپر تونادرا پہلے ہی رائے دے چکی کہ 60 فیصد انگوٹھوںکے نشانات کی تصدیق نہیںہو سکتی کیونکہ انگوٹھوںکے یہ نشانات ”مقناطیسی سیاہی”سے نہیںلگائے گئے ۔یہ غلطی یا بَدانتظامی الیکشن کمیشن کی توہوسکتی ہے
لیکن اس سے منظم دھاندلی ثابت نہیںکی جاسکتی ۔نوازلیگ کاخیال ہے کہ اگر ایک دفعہ جوڈیشل کمیشن کافیصلہ اُس کے حق میںآگیا تو نہ صرف کپتان صاحب کے چوکوں ،چھکوںسے نجات مل جائے گی بلکہ پیپلزپارٹی بھی اپنی ”اوقات”میںآ جائے گی ۔پیپلزپارٹی خوش کہ اگلے 45 دنوںتک سیاسی جماعتیں جوڈیشل کمیشن میںالجھی رہیںگی ،نوازلیگ دباؤ کی وجہ سے ”نُکرے”لگی رہے گی اورلوگوںکی توجہ آصف ،بلاول جھگڑے سے ہٹی رہے گی۔جماعت اسلامی خوش کہ شایداُس کی اُمید بَرآئے اورایم کیوایم کو ”رَگڑا”لگ ہی جائے۔
Mulana Fazal Rehman
مولانافضل الرحمٰن خوش کہ تحریکِ انصاف کااونٹ عدلیہ کے پہاڑتلے آگیا۔شیخ رشیدخوش کہ ایک دفعہ پھرالیکٹرانک میڈیاکو اُن کی یادستانے لگی لیکن اُن کی ساری خوشی کافورہو گئی جب متروکہ وقف املاک کے چیئرمین صدیق الفاروق صاحب نے یہ دھماکہ کردیا کہ”لال حویلی”تو متروکہ وقف املاک کی ملکیت ہے اورشیخ صاحب کے ذمہ کرائے کے لاکھوںروپے واجب الاداہیں ۔اب دیکھیںکہ صدیق الفاروق صاحب کرایہ وصول کرتے ہیںیا لال حویلی خالی کرواتے ہیں۔ صدیق الفاروق صاحب متروکہ وقف املاک کے قابضین سے قبضہ چھڑوانے کے لیے ”لَٹھ” لے کراُن کے پیچھے دَوڑرہے ہیں۔اگروہ تھک اور”ہَپھ”نہ گئے توقبضہ چھڑواکر ہی دَم لیںگے۔ایسے میںاگر شیخ صاحب سے اُن کی اکلوتی لال حویلی بھی گئی توپھراُن کاکیا بنے گا ؟۔
چودھری برادران خوش کہ اُن کے بیانات کوبھی صفحہ اوّل پرجگہ ملنے لگی۔چودھری پرویزالٰہی صاحب نے یہ بیان داغنے میںذرادیر نہیںلگائی کہ ”ہم نے دھاندلی کے ثبوت جمع کروادیئے ،پتہ چل جائے گاکہ ہمارامینڈیٹ کیسے چوری ہوا”۔جواباََ غصّے سے کھولتے زعیم قادری نے کہا ”عام انتخابات میں2 نشستیںجیتنے اور 38 نشستوںپر ضمانت ضبط کروانے والے چودھری کِس مُنہ سے دھاندلی کی بات کرتے ہیں”۔ زعیم قادری صاحب شاید کہناتو یہ چاہتے ہوںکہ”لو جی !مینڈکی کوبھی زکام ہونے لگا” لیکن کہہ نہ سکے کیونکہ میاں صاحب کاسختی سے حکم ہے کہ نون لیگ کے ہررہنما کی زبان میں”لکھنویت کا تڑکا ”ہونا ضروری ہے ۔چودھری برادران نے 2002ء کے الیکشن میںپرویزمشرف کی آشیرباد سے دھاندلی کے سارے گُرآزما ڈالے لیکن اب ”لو وہ بھی کہہ رہے ہیں ، یہ بے ننگ و نام ہے”۔
کپتان صاحب خوش کہ جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کے بعد ”کچھ تولگے گی دیرسوال وجواب میں”۔تحریکِ انصاف کی خواہش تویہی ہوگی کہ کمیشن کی تحقیقات کامعاملہ 45 دنوںکی بجائے طول پکڑتاجائے کیونکہ تحریکِ انصاف کی ”پٹاری”میںردی کاغذوںکے سوا”کَکھ” نہیںہے ۔یہ وہی کاغذہیں جنہیںکپتان صاحب جب کنٹینرپر کھڑے ہوکر لہراتے توسونامیے جھوم جھوم جاتے ۔تحقیقاتی کمیشن نے 15 اپریل تک ثبوت جمع کروانے کی مہلت دی لیکن 16 اپریل کوخاںصاحب اپنے ”حواریوں”کے ہمراہ (بناکسی ثبوت کے) اُسی شان سے جوڈیشل کمیشن کے سامنے پیش ہوگئے جیسے وہ حلقہ 122 کے الیکشن ٹربیونل میں پیش ہواکرتے تھے۔
Abdul Hafeez Pirzada
کمیشن نے جب اُن سے ثبوتوںکی بابت پوچھاتواُن کے وکیل عبدالحفیظ پیرزادہ نے کہاکہ ثبوت تو ہزاروںہیں لیکن اِدھراُدھربکھرے ہوئے، اُنہیںاکٹھا کرنے کے لیے کم ازکم 10 دِن کی مہلت درکارہے ۔پیرزادہ صاحب تویہ بھی کہناچاہتے تھے کہ اِن ثبوتوںکو جوڈیشل کمیشن تک لانے کے لیے ایک کنٹینرکی بھی ضرورت ہے جس کاابھی تک بندوبست نہیںہوسکا لیکن جوڈیشل کمیشن نے اُن کی بات درمیان سے ہی اُچک کرکہاکہ کمیشن کے پاس تحقیقات کے لیے صرف 45 دِن ہیں اِس لیے وقت نہیںدیا جاسکتا ۔کسی ستم ظریف نے آوازلگائی کہ تحریکِ انصاف 600 دِنوںسے دھاندلی کاشور مچارہی ہے، کیاوہ اتنے دنوںمیں وہ ثبوت بھی اکٹھے نہیںکرسکی ؟۔اُس بَدباطن کواتنا بھی نہیںپتہ کہ تحریکِ انصاف تودھاندلی کے ثبوت اکٹھے کرنے میںکوئی دقیقہ فروگذاشت نہیںکر رہی۔
اُس نے تو خیبرپختونخوا حکومت کے خزانے سے اشتہارات بھی شائع کروائے کہ اگرکسی شہری کے پاس الیکشن میںہونے والی دھاندلی کا کوئی ثبوت ہے تووہ قومی وملّی مفادمیں یہ ثبوت تحریکِ انصاف کے پاس جمع کروادے ۔دروغ بَرگردنِ راوی ثبوت پیش کرنے والوںکو ”اندرکھاتے”انعام کالالچ بھی دیاگیا لیکن ”ٹُٹ پینی”دھاندلی کاکوئی ”اتا پتا”نہیں۔ اسی لیے چاروناچار جوڈیشل کمیشن سے 10 روزہ مہلت کی استدعا کی گئی لیکن کمیشن نے ایک ہفتے کی مہلت دی اوروہ بھی طوہاََوکرہاََ۔ تحریکِ انصاف کے علاوہ جوڈیشل کمیشن سے 21 سیاسی جماعتوںنے رجوع کیا ،سبھی نے ”ٹوٹے پھوٹے”ثبوت پیش کیے۔
شایداِن سیاسی جماعتوںنے سوچاہوگا کہ تحقیقاتی کمیشن کے احاطے میںالیکٹرانک میڈیاکے کیمروںکی بھرمارہے اِس لیے نیوزچینلز پر آنے کایہ سنہری موقع کھونانہیں چاہیے۔وہ سبھی اسی پر خوش اورمطمئن کہ اُن کے ”رُخِ روشن” ٹی وی سکرین پرآتے جاتے رہیںگے۔اورمیڈیاتو خوش ہے ہی کہ جوڈیشل کمیشن اُس کے لیے ”بارہ مصالحے کی چاٹ”تیار کررہا ہے۔