تحریر : مہر بشارت صدیقی کہا جاتا ہے ملکوں کے درمیان دوستی اور دشمنی نہیں صرف مفادات اہم ہوتے ہیں مگر سفارتکاری کی لغت میں اس بات کو نصف صدی پر محیط پاکستان چین دوستی نے غلط ثابت کر دیا۔ عظیم ماوزے تنگ کی لازوال جدوجہد کے نتیجے میں 1949 میں دنیا کے نقشے پر ابھرنے والے چین کو تسلیم کرنے والا پاکستان دنیا کا تیسرا اور اسلامی دنیا کا پہلا ملک تھا۔ دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کا آغاز 1951 میں ہوا۔ ہزار موسم، لاکھ امتحان آئے مگر پاک چین تعلقات جو ہر گزرتے دن کے ساتھ مضبوط سے مضبوط تر ہوتے گئے۔ پاک چین دوستی عالمی تعلقات کے تناظر میں ایک عظیم مثال ہے جسے سمندروں سے گہری، ہمالیہ سے بلند اور شہد سے میٹھا قرار دیا جاتا ہے۔ سفارتکاروں کا دعویٰ ہے کہ ملکوں کے درمیان دوستی اور دشمنی مفادات کے تابع ہوتی ہے ،
مگر سفارتکاری کی لغت میں اس بات کو نصف صدی پر محیط پاکستان چین دوستی نے غلط ثابت کر دیا۔ 1955 میں پاکستان اور چین کے درمیان پہلا سربراہی رابطہ ہوا جب چینی وزیر اعظم چو این لائی اور ان کے پاکستانی ہم منصب محمد علی بوگرہ کے درمیان بنڈنگ کانفرنس کے دوران انڈونیشیا میں ملاقات ہوئی۔ اکتوبر 1956 میں پاکستانی وزیر اعظم حسین شہید سہروردی نے چو این لائی کی دعوت پر چین کا دورہ کیا۔ دسمبر 1956 میں چینی وزیر اعظم چو این لائی پہلی بار پاکستان آئے۔ اس دورے کو پاک چین دوستی میں سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے۔ 1963 میں دونوں ممالک کے درمیان پہلے تجارتی معاہدے پر دستخط ہوئے۔1963 میں ہی دونوں ممالک کے درمیان سرحدی تنازعہ خوش اسلوبی کیساتھ حل کیا گیا۔ 1964 میں چو این لائی نے دوسری بار پاکستان کا دورہ کیا
صدر ایوب خان بھی چین گئے۔ 1972 میں ذوالفقار علی بھٹو نے چین کا تاریخی دورہ کیا جس نے پاک چین دوستی کو تاریخ کی نئی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ 1980 میں ضیاء الحق چین گئے جبکہ 1989 اور 1995 میں وزیر اعظم محترمہ بینظیر بھٹو نے چین کا دورہ کیا جبکہ 1992 میں وزیر اعظم نواز شریف نے بھی منصب سنبھالنے کے بعد چین کا دورہ کیا۔ 1996 میں چینی صدر جیانگ ڑی مین نے پاکستان کا دورہ کر کے دوستی کو مزید مضبوط کیا۔2001 میں چینی وزیر اعظم زو رونگی نے پاکستان کا سرکاری دورہ کیا۔ سابق صدر پرویز مشرف نے اپنے گیارہ سالہ دور اقتدار میں 8 مرتبہ، آصف علی زرداری نے سات مرتبہ، وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے چار مرتبہ چین کا دورہ کیا۔
Zardari and Hu Jintao
پیپلز پارٹی کے سابق دور میں چینی صدر ہو جن تاو اور چینی وزیر اعظم وین جہا باو کے دوروں کو تاریخی اہمیت حاصل ہے۔ موجودہ چینی اور پاکستانی وزرائے اعظم نے اپنا منصب سنبھالنے کے بعد ایک دوسرے کے ممالک کا دورہ کر کے عالمی برادری کو دوستی کا بہترین پیغام پہنچایا اور اب چینی صدر شی چن پنگ کا دورہ پاکستان دونوں ممالک کی لازوال دوستی کو بام عروج تک لے جانے میں انتہائی معاون اور مددگار سمجھا جا رہا ہے۔ چین کے صدر ڑی جن پنگ سینیئر وزراء سمیت اعلیٰ سطح کے وفد کے ہمراہ 20 اپریل کو پاکستان پہنچیں گے ، معزز مہمان پاکستانی پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرینگے ، دورے کے دوران دوطرفہ تعاون پر بات چیت اور مختلف معاہدوں پر دستخط ہونگے ، چینی صدر کو نشان پاکستان سے بھی نوازا جائے گا۔ چینی صدر کے دورے کے دوران دو طرفہ تعلقات کے تمام پہلوؤں پر تبادلہ خیال ہوگا۔ پاکستان اور چین کے درمیان توانائی اور مواصلات سمیت مختلف شعبوں میں نئے منصوبے شروع کرنے کے سمجھوتوں اور معاہدوں پر دستخط کیے جائیں گے۔
چینی صدر منگل کے روز پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرینگے۔ صدر ممنون حسین چینی ہم منصب کے اعزاز میں ظہرانہ دیں گے۔ تقریب کے دوران صدر شی جن پنگ کو پاکستان کا سب سے اعلیٰ سول ایوارڈ نشان پاکستان بھی دیا جائے گا۔چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی اور تینوں مسلح افواج کے سربراہان بھی چین کے صدر سے ملاقاتیں کریں گے۔اتوار سے ریڈ زون کو بند کردیا جائے گا اور تین دن تک ٹرپل ون بریگیڈ کے حصار میں رہے گا۔مہمان صدر کا طیارہ جونہی پاکستانی فضائی حدود میں داخل ہوگا تو پاک فضائیہ کے 6جیٹ طیارے اسے حصارمیں لے لیں گے۔تین طیارے دائیں اورتین بائیں جانب ہوں گے۔ مہمان صدر کے طیارے کومکمل پروٹوکول کے ساتھ اسلام آباد لایا جائے گا۔ ایئر پورٹ پر اترتے ہی یہ جیٹ طیارے مہمان صدر کو فضائی سلامی پیش کرینگے۔
ایئر بیس پرہی صدر شی چن پنگ کو گارڈآف آنرپیش کیاجائیگا۔ بے نظیر انٹرنیشنل ایئرپورٹ اور ملحقہ آبادیوں میں سیکیورٹی کیلئے پاک فوج کے جوانوں کو تعینات کیاجائے گا،ایئرپورٹ پر عام شہریوں کا داخلہ بنداورفضائی نگرانی ہوگی۔ایئر پورٹ سے اسلام آباد جانے والے راستوں پر تعلیمی اداروں کے طلباء و طالبات پاکستان اور چین کے پرچم اٹھائے چینی صدر کاخیرمقدم کریں گے۔وزیراعظم نوازشریف 20 اپریل کو چینی صدر شی چن پنگ کے اعزاز میں عشائیہ د یں گے ،مہمان صدر 21اپریل کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کریں گے خطاب کے بعد صدر ممنون اپنے ہم منصب سے ملاقات کریں گے اور ایوان صدر میں ان کے اعزاز میں ظہرانہ دیں گے۔عشائیے اور ظہرانے میں مسلح افواج کے سربراہان، وزراء ،ارکان پارلیمنٹ،مختلف ممالک کے سفیر بھی شریک ہونگے۔ سیکیورٹی وجوہات کی بنیاد پر وزیراعظم کے عشائیہ، صدر کے ظہرانہ میں انتہائی محدود مہمانوں کو مدعو کیا گیا ہے۔
Xi Jinping
صدر شی چن پنگ کی سیکیورٹی کیلئے چین کے حکام پاکستان پہنچ چکے ہیں، انہوں نے وفاقی دارالحکومت کے فائیو اسٹار ہوٹل کا دورہ اور سیکیورٹی انتظامات کا جائزہ لیا۔ دورے کے دوران 32معاہدوں پر دستخط کیے جائیں گے جن میں سب سے اہم اقتصادی راہداری کا منصوبہ ہے۔اہم وزارتوں کے افسران کی چھٹیاں منسوخ کردی گئیں ، ان وزارتوں کے افسران نے ہفتہ کو اپنے دفاتر میں حاضری دی اور چینی صدر کے دورے سے متعلقہ امور کو حتمی شکل دی جبکہ قومی اسمبلی سیکرٹریٹ اور سینیٹ کے افسران اور متعلقہ اہلکاروں کی بھی چھٹیاں منسوخ کر دی گئیں وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف کہتے ہیں کہ چین کے صدر کادورہ تاریخ ساز ہوگا، جس سے پاک چین معاشی و اقتصادی تعاون مضبوط ہوگا ،دورے کے دوران اربوں ڈالرکی سرمایہ کاری کے معاہدے ہونگے جنکی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی، پاک چین دوستی کے حوالے سے معاہدے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔2017 کے آخر تک توانائی کے متعدد منصوبے مکمل ہو جائینگے ، چین کے غیر معمولی اقتصادی پیکیج کو کبھی فراموش نہیں کر سکتےـ
امریکی نشریاتی ادارہ”بلوم برگ” لکھتا ہے کہ چینی صدر کے دورہ پاکستان کے دوران آٹھ روائتی آبدوزوں کی فروخت کا امکان ہے جس سے پاکستان بیڑے میں دگنا اضافہ ہو جائے گا۔ آبدوزوں کی خریداری کا مقصد بحر ہند میں بھارتی بحریہ کے غلبے کا توڑ کرنا ہے۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سمندر سے جوہری ہتھیاروں کے فائر کرنے کی صلاحیت میں پاکستان کایہ پہلا قدم ہو سکتا ہے۔ تاہم آبدوزوں کی فروخت سے علاقائی پانیوں میں کشیدگی میں اضافہ ہونے کا امکان ہے2006کے بعد کسی بھی چینی سربراہ کا یہ پہلا دورہ پاکستان ہے جس میں گیس پائپ لائن، ہائی ویز اورریلوے سمیت 45 ارب ڈالر کے منصوبوں پر دستخط کیے جائیں گے۔ واشنگٹن کے ایک تھنک ٹینک کی رپورٹ کے مطابق سمندر میں جوہری ہتھیاروں سے نشانہ بنانے کی صلاحیت زمینی طریقے سے زیادہ خطرناک ہے،
سمندر میں جوہری ہتھیاروں کی نشان دہی مشکل ہوتی ہے۔ مغربی میڈیا پاکستانی جوہری پروگرام کے خلاف پروپیگنڈا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا ،رپورٹ میں نیویارک کے ایک تھنک ٹینک کے حوالے سے کہا گیا کہ پاکستان کا جوہری پروگرام دنیا میں سب سے تیز ہے ، پاکستان نے چینی ٹیکنالوجی کی مدد سے جوہری ہتھیاروں کو تیار کیا جن کی تعداد سو سے ایک سوبیس تک ہے ، چین کے جوہری ہتھیار 250 اور بھارت کے 90 سے 100 کے درمیان ہیں۔ بھارت نے دفاعی بجٹ 40 ارب ڈالر کردیا اور چھ ایٹمی آبدوزوں کی منظوری دی ہے۔ پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت نے آٹھ چینی آبدوزوں خریدنے کی تجویز کی منظوری دی جس پر چینی صدر کے دورہ پاکستان کے دوران دستخط کیے جا سکتے ہیں،یہ چین کی طرف سے کسی بھی ملک کوآبدوزوں کی پہلی برآمد ہو گی۔ گزشتہ ماہ واشنگٹن ڈی سی میں ایک سیمینار میں لیفٹیننٹ جنرل خالد قدوائی نے کہا تھا کہ پاکستان آئندہ برسوں میں جہازوں اور آبدوزوں پر جوہری ہتھیاروں کو وسعت دینے کا ارادہ رکھتا ہے۔