تحریر : ملک ارشد جعفری یہ بات تو تسلیم شدہ ہے کہ دنیا میں لڑی جانے والی جنگوں میں پارلیمنٹ کی بجائے عسکری قیادت کارفرما ہوتی ہے لیکن جنگیں قوت سے نہیں بلکہ بہترین حکمت عملی سے لڑی جاتی ہیں۔ ویسے تو تخلیق آدم کے فوراً بعد سے ہی انسان انسان کو قتل کرنے کے درپے ہے اور زمین عرب پر کرکوک کے مقام پر انسانیت کو قتل کرنے کی بنیاد رکھ دی گئی تھی۔ لیکن یہ قتل حرص اور حسد کی بنیاد پر تھا ۔ وقت گزرتے گزرتے آدمیت اور انسانیت میں مقابلہ چلنے لگا دنیا میں مختلف ادوار میں قتل و غارت ہوتی رہی۔ پہلا قتل انسانیت سرزمین عرب پر ہوا تھا
لیکن ہر ادوار میں کبھی مذہب اور کبھی مسلک اور کبھی جاگیر اور کبھی غیرت کے نام پر کیونکہ یہ سرزمین تیل کی پیداوار سے دنیا کا دوسرا ملک تھا۔ عراق کا کل رقبہ 438.317مربع کلو میٹر ہے اور آبادی 3,12,34,000افراد ہے۔ یہ زمین پر انسانی تہذیب و تمدن کی پہلی آماجگاہ سمجھا جاتا ہے ۔ اسلئے زمین پر قدیم ترین انسانوں کی رہائش کا آثار ملتے ہیں اور یہ خطہ اسلام سے قبل دو سو سال تک یونانیوں کے زیر تسلط رہا اسکے بعد ساتویں صدی عیسوی تک ایرانی حکمران قابض رہے اور انہوں نے لڑائی لڑ کر اسلام کا بول بالا کیا
آخر میں حضرت علی کو جب کوفہ کی حکومت ملی تو اسکو دارالحکومت بنایا گیا تو بنو امیہ کے دل حسد کی آگ بھڑکی اور ایک بدبخت عورت کے عاشق ابن بلجم نامی سے شہید کروایا اور 61ہجری میں اولاد رسول کی حرمت کو نینوا یعنی کربلا میں اسی ظلم سے قتل عام کروایا کہ جسکو تاریخ آج تک نہ بھول سکی ہے اور نہ قیامت تک بھول سکے گی، اسی جگہ میں تمام قاتل رسول کا کلمہ پڑھنے والے تھے جو اولاد رسول کو قتل کرنے ادھر آئے تھے۔آج سمجھ سے بالا تر ہے کہ ان مسلمانوں سے نہ تو کوئی مسجد ، نہ مندر نہ کوئی گرجا نہ امام بارگاہ محفوظ ہے
Saudi Arabia Military
اب یہ جنگ صرف پاکستان میں نہیں بلکہ عالم اسلام میں پھیل چکی ہے اور یہود اسرائیل حرکت میں آگیا اور اپنی چالاکی سے ایک گروہ کی حمایت کا اعلام بھی کر چکا ہے لیکن مسلمانوں کو سمجھ نہیں آرہی کہ اپنے کلمہ گو بھائیوں کو تیس نیس کر کے اپنی ہی طاقت کو ختم کر رہے ہیں جو اسرائیل اور امریکہ چاہتا ہے۔ یمن کی جنگ ان کا اندرونی معاملہ تھا سعود عرب کو کوئی حق حاصل نہیں تھا کہ اپنی ہوائی فورس کو استعمال کر کے پوری بستیاں تباہ کرتا۔ یہ ہی اسلحہ اسرائیل پر استعمال کرتا تو قبلہ اول آزاد کرانے میں مدد ملتی۔ مسلمان قتل نہ ہوتے۔ لبنان اور شام سعودیہ کو نظر نہیں آتے اور ہمارے حکمرانوں کو بھی کیو کہ رسول کی اولاد تو ایران شام اور عراق میں بھی مدفون ہے۔
جن کے بارے میں فرمان رسول ہے کہ میرے پاس آنے کا ایک حج کا ثواب اور میری اولاد کی زیارت کرنے پر کئی حجوں کا ثواب ملے گا اسلئے تمام حکومتوں کو چاہیے کہ اپنی طاقتوں کو مسلمانوں کو قتل کرنے پر صرف نہ کریں بلکہ آپس میں بیٹھ کر ایک محاذ بنائیں جس میں عرب و عجم ہوں اورا سرائیل سے قبلہ اول آزاد کرائیں ملک پاکستان میں تمام مسالک کے علماء اکٹھے ہوں اور صرف ایک نقطہ پر قائم رہیں کہ جو اہلبیت کو مانتے ہیں وہ اپنے مسلک پر رہیں اور جو صحابہ کو مانتے ہیں
وہ اپنے پر ایک دوسرے کے عقیدہ میں دخل اندازی نہ کریں اور قبلہ اول کی آزادی اور ملک پاکستان میں امن قائم کرنے پر اتفاق کریں۔ یہ کسی کو اختیار نہیں کہ کون کافر اور کون مسلمان فیصلہ آخرت میں ہو گا۔ تمام مسائل کا حل اس سوچ کے آئینہ میں ہے ہمیں کسی قوم کی تاریخ کی فطرت دکو دیکھنے کی بجائے اپنے آپ کو دیکھنا چاہیے کہ ہم اپنی ذاتی زندگی سے لیکر قومی زندگی میں کسی نظریے اور سوچ کو اپنا رہے ہیں۔