تحریر : ایس ایم عرفان طاہر محمد نواز خان جس عظیم انسان نے دہشتگردی میں اپنا ایک پھول سا بیٹا حارس نواز شہید کھو دیا اور ایک معصوم بیٹا غازی احمد نواز زندگی و موت کی کشمکش میں مبتلاء ہے جسے اپنا گھر مال اسباب اور عزیز و اقرباء سب کچھ قربان کر کے دیار غیر میں دن گزارنے پر رہے ہیں جس کی آنکھوں میں اداسی اور دل میں مجبوری کی کیی داستانیں رقم ہیں مشکلات مصایب اور نشیب و فراز نے جس کے جیون کو چاروں اطراف سے گھیر رکھا ہے باوجود اسکے کے وہ دہشت و وحشت کی آغوش میں اپنا سب کچھ گنوا دیتا۔
ایمان اور انا کی قربانی بھی دے جاتا لیکن محض دوسروں کو فایدہ پہنچانے اور انکی زندگیوں کو روشنی اور امید کی کرن دینے کی خا طر جس نے جرات مندی اور بہا دری کے ساتھ انتہا پسندی، فرقہ واریت، نفرت، عداوت، دہشتگردی، قتل و غا رت، بد امنی اور افرا تفری کے خلاف علم جہا د بلند کرنے والے امر با لمعروف و نہی عن المنکر کے عملی نمونہ اس با ہمت، بہادر اور عظیم انسان کی ڈھارس باندھنے کی بجایے اس پر انگلیاں اٹھا نا اور اسے تنقید کا نشانہ بنانا کم ظرفی اور بے ضمیری کی انتہا ہے۔
آگ ہے اولاد ابراہیم ہے نمرود ہے کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے
اگر ہم محمد نواز خان کے بازو ، ہاتھ اور زبان نہیں بن سکتے تو کم از کم اسے آزادانہ ماحول میں سانحہ پشاور اے پی ایس کے شہداء اور غازیوں کی ایک آواز بن کر سفیر کی حیثیت سے عملی مظاہرہ کرنے کی اجازت تو دے ہی سکتے ہیں دہشتگردی کے خلاف اٹھنے والی اس آواز کو اختلاف راءے اور تنقید کا نشانہ بنا نے وا لے اپنے سیاسی اور ذاتی مفادات کی خاطر ایک دہشتگردی کا عملی نشانہ بننے والے انسان کے خلاف ہرزہ سرایی کرنے وا لے ذرا اس حقیقت سے آشنا ہونے کی کوشش تو کریں کہ وہ اصل میں محمد نواز کی مخالفت کرکے یا اسے برا بھلا کہہ کر یا اسے تنقید کا نشانہ بنا کر کس کی حوصلہ شکنی کر رہے ہیں۔
Terrorism
کسے تعاون فراہم کرنے کی کوشش میں مصروف عمل ہیں جس کربناک صورتحال سے محمد نواز خان اور اس کا کنبہ نبر دآزما ہیں اس سے دوچار ہونا تو بہت دور کی بات اس کا تصور بھی کیا جا ءے تو روح کانپ اٹھتی ہے ۔ خدارا کسی بھی بات کو پھیلا نے یا ادا کرنے سے پہلے اسکی حساسیت اور گہرایی کو بھانپ لینا چا ہیے کہ اس کے منفی اور مثبت کیا نتا یج مرتب ہوسکتے ہیں اللہ رب العزت ہر ایک کو اپنی پناہ میں رکھے دہشت و وحشت کا دنیا سے خاتمہ فرماءے امن محبت پیار تسلیم برداشت اور رواداری کو کاینات میں عام فرما دے اور ہر شخص صیح راستے پر چلنے والوں اور امن کا پیغام عام کرنے والوں کی حوصلہ افزایی کرنے والا بن جاءے آمین ۔
یہ کویی نیی بات یا رسم نہیں ہے کہ نیکی کا راستہ اپنا نے والوں حق کا ساتھ دینے والوں اور بدی کو للکارنے والوں کو مشکلا ت مصایب اور مسایل سے دوچار نہ ہونا پڑا ہو ایسے واقعات سے تو تاریخ بھری پڑی ہے رسول اکرم کے دور نبوت سے لیکر تا حال جو کویی بھی امن کی بات کرتا آیا ہے جس نے بھی لوگوں کو اچھا یی کی تلقین کی اور اپنے آپ کو پس پشت ڈال کر اپنی ذات اپنی خو شیوں اور اپنی خواہشات قربان کر کے دوسروں کا بھلا چا ہا تو اس شخص کو تنقید اور تکلیف کا سامنا ہر قدم پر کرنا پڑا اور مخالفت برداشت کرنا پڑی لیکن باشعور اور مہذب معاشرے میں رہنے والا انسان اس بات سے بخوبی واقفیت حاصل کر سکتا ہے کہ حق کا ساتھ دینے والوں اور باطل سوچ کو پروان چڑحانے والوں اور اپنی جھوٹی شان و شوکت قایم کرنے والوں کا انجام کیا ہوا اچھایی کا پلڑا ہمیشہ وزنی رہا ہمیشہ اچھایی غالب رہی اور حیات جاوداں کا مصداق ٹھری لیکن تنقید برایے تنقید کا راستہ اپنانے والی منفی سوچ اور منفی محرکات ہمیشہ ہی شرمندہ و رسوایی کا عملی نمونہ بنے اور انکی زندگی میں بھی لوگ انکا ساتھ دینے سے گریزاں ہی رہے اور بعد از موت بھی ایک قصہ پارینہ کی طرح ماضی کے اندھیروں میں دفن ہوگیے نیکی کی عمر لاکھ مصایب ، مشکلا ت ، اعتراضات اور مخالفت برداشت کرنے کہ باوجود بھی طویل اور بدی کی عمر وقتی نفع اٹھا نے کے باوجود بھی مختصر اور چحوٹی ہی رہتی ہے جو لوگ کسی مشکل یا صدمے سے دوچار ہوتے ہیں جن پر اپنے پیاروں سے بچھڑنے اور انکے فراق یا وصال کا غم گزرتا ہے کویی لاکھ بھی انکے غم میں شریک ہونے کا دعویدار کیوں نہ بنے اس درد اور شدت کو کبھی اس گہرایی اور انہماک سے ہر گز محسوس نہیں کرسکتا ہے دہشتگردی نے ہمیں دنیا میں بدامنی ، افرا تفری اور بے سکونی کے علاوہ کچھ نہیں دیا ہے کویی بھی پڑھا لکھا۔
Tragedy Peshawar
مہذب اور اہل علم و دانش بدی اور بدامنی کا قایل نہیں ہو سکتا ہے یہ انہی لوگوں کا کام ہے جو حقیقی علم و رعرفان ، شعور و آگہی اور فہم و ادراک سے مبرا ہوتے ہیں جس طرح سے بدی کا راستہ اپنا نے والے اپنی قوت کو یکجا کرنے میں مصروف ہیں اور اپنے آپ کو متحد و منظم کرنے میں مبتلاء ہیں اسی طرح حقیقی امن پسندوں اور حقیقی علم و ادب کو اپنا نے والوں کو اپنے آپ کو ایک پیج پر لانا ہوگا تمام مذہبی ، سیاسی اور ذاتی مفادات سے بالا تر تحفظ انسانیت اور پر امن معاشرے کے لیے ایک جھنڈے تلے اکھٹا ہونا پڑے گا ہر ایک کے مذہبی جذبات اور عقاید کا احترام کرنا ہوگا اگر ہم ایک آزادانہ اور پر امن زندگی کے خواہاں ہیں تو ہمیں دوسروں کی آذادی کا بھی ہر درجہ خیال رکھنا ہو گا دہشتگردی کسی بھی صورت ہو القاعدہ کی شکل میں آیی ایس آیی ایس کی صورت یا طالبان ظالمان کے روپ میں ناقابل قبول ہے اور اسکا کسی پڑھے لکھے معاشرے اور با شعور انسان سے تعلق ناطہ نہیں اور نہ ہی انکی اس پر امن دنیا میں کویی جگہ ہے دوسروں پر اپنی صلاحیتوں کو منفی پروپیگنڈہ اور عزایم سے ضایع کرنے کی بجایے اپنی اپنی بساط اور حدود و قیود کے مطابق ان منفی قوتوں کے خلاف مکمل طور پر یکجا ہوجاییں اور ایسا ماحول پیدا کر دیں کہ جس میں ایسے منفی عناصر اور انتہا پسند قوتوں کا چلنا اور پلنا دشوار ہوجایے اور انہیں مجبورا راہ راست پر آنا پڑے۔
اس طرح اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کی اصلاح اور تحفظ کا سامان پیدا کیا جا سکتا ہے اپنے لیے تو سب ہی جیتے ہیں زندگی وہی خاص ہے جو دوسروں کے لیے کچھ کر جایے اور اس کے جا نے کے بعد بھی لوگ اس کی کمی محسوس کریں اور اس کی خدمات کو دنیا بھر میں سراہا جا یے ہر کویی اس کی پیروی کا راستہ اپنا نے پر مجبور ہو اور اس پر رشک و فخر کرے۔
انداز بیاں اگرچہ شوخ نہیں ہے میرا شاید کہ تیرے دل میں اترجا یے میری بات