تحریر : پروفیسر مظہر تین عشروں سے کراچی کے درو بام سے ٹکراتی خوف اور دہشت کی فضاء میں عائشہ منزل سے ایک ایسا نعرہ مستانہ بلند ہوا جس میں مایوسیوں کی شب تار میں دراڑیں ڈال دیں۔ روشنیوں کا وہ شہر جس کی آغوش محبت میں اپنے پرائے سبھی پناہ پاتے تھے، وہ ایسی نظربد کا شکار ہوا کہ امید صبح کا روز ن تک مفقود، دروبام پہ مایوسیوں کے ڈیرے، ہر گھر میںصف ماتم اور ہر درپہ نوحہ خوانی تب اہل بصیرت کو یوں محسوس ہونے لگا جیسے
دور لگے وہ وقت ابھی جب ٹھہری رات کے آنگن میں پھیکا پڑ کے چاند ہمیں آثار سحر دکھلائے گا
مایوس یوںکے اِس گھٹاٹوپ اندھیرے سے ابھرنے والی تواناللکار امیرِجماعتِ اسلامی محترم سراج الحق کی تھی جس کالبِ لباب یہ کہ ”مجھے ہے حکمِ اذاںلاالٰہ الااللہ”۔زبان میںسختی مگراخلاقی حدوںکے حصارمیں ،اندازعوامی کہ وہ ”عوام” میںسے ہی ہیں ،اُن بصارت وبصیرت سے محروم تَن اجلے مَن میلے لوگوںمیں سے نہیںکہ جن کی خواہشوںکے عفریت ”ھِل مَن مذید”کاراگ الاپتے رہتے ہیں۔ یوںتو ہرامیرِجماعت محترم لیکن سیاسی فہم وادراک میںمحترم سراج الحق فزوںتر ۔ہرغیرجانبدار تجزیہ نگار کایہی تجزیہ اور ہر صائب الرائے کی یہی رائے کہ محترم سراج الحق کے آنے سے جماعت اسلامی کاسیاسی گراف رفعتوںکی جانب گامزن ۔فُٹ پاتھ سے اُٹھ کرپاکستان کی منظم ترین جماعت کی ”امارت”کے منصب تک پہنچنے والے سراج الحق صاحب نے چونکہ زیست کے ہرکٹھن پَل کواپنے وجودپہ جھیلاہے اِس لیے اُن سے بہترکون جانتاہے کہ ”ہے جرمِ ضعیفی کی سزامرگِ مفاجات”۔ حرفِ حق کاتقاضہ یہی کہ نہاںخانۂ دِل میںچھپی بات کوکھلے گلاب کی مانندبَرملا کہاجائے اور
ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دِل کی رفیق یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق
محترم سراج الحق صاحب نے بھی دِل میںچھپی ہربات کوبرملا کہتے ہوئے ”اُن” لوگوںکو للکارا جنہوںنے روشنیوںکے شہرکو اندھیروںکی نذر کردیا ۔ایم کیوایم نامی یہ جماعت ضیاء الحق مرحوم کا ”تحفہ”ہے ۔اُنہوںنے اپنی حکومت کودوام بخشنے اورجماعت اسلامی کوسبق سکھانے کے لیے کراچی میںایم کیوایم کی بنیادرکھی اورپھر اُس کی بھرپور سرپرستی بھی کی ۔تب ایم کیوایم نے کراچی میںاپنی جڑیںمضبوط کرنے کے لیے تشددکے ایسے حربے استعمال کیے کہ انسانیت شرم سے مُنہ چھپانے لگی ۔نوگوایریاز اور عقوبت خانے اُسی دَورکی پیداوارہیں۔
MQM
یہ وہ دَورتھا جب حقارتوںکے حصارمیں سسکتے کراچی کے عوام پرہر ظلم روارکھاگیا لیکن تمام تر ہولناکیوںکے باوجود جماعتِ اسلامی ڈٹ کرمیدان میںکھڑی رہی ۔بہت پہلے ، الیکشن کے ہنگام ،کسی صحافی نے پروفیسر غفوراحمد مرحوم سے سوال کیاکہ کیاوہ کراچی میںالیکشن جیت جائیںگے ؟۔اُن کاجواب تھاکہ ہرگزنہیں لیکن وہ میدان خالی نہیںچھوڑنا چاہتے کیونکہ آج نہیںتوکل یہ ”لسانی جماعت”اپنی موت آپ مرجائے گی۔تب اُس کی جگہ لینے کے لیے جماعتِ اسلامی کوہی آگے آناہے ۔وہ وقت توقریب آلگاکہ ایم کیو ایم پہلے سے کمزور ،کہیںکمزور اور پروفیسرغفوراحمد کی پیشین گوئی درست ثابت ہونے کولیکن جب طبلِ جنگ بج چکاتو اپنے ہی بیگانے بن کرسامنے آگئے۔حقیقت یہی ہے کہ اگرتحریکِ انصاف جماعت اسلامی کے لیے میدان خالی کردیتی تو مقابلے کی فضاء قائم ہوجاتی ۔جماعت اسلامی برسوںسے اِس نشست پرایم کیوایم کامقابلہ کرکے دوسری پوزیشن حاصل کرتی چلی آرہی ہے ۔2002ء کے الیکشن میںاسی حلقے سے جماعت نے تیس ہزارسے زائدووٹ حاصل کیے اور 2004ء کے ضمنی انتخاب میںاسی حلقے سے اُس کے 17 کارکُن شہیدہوئے۔ 2013ء میںجماعت نے صرف 2 گھنٹے بعدکراچی میںالیکشن کابائیکاٹ کردیا پھربھی 10 ہزارسے زائدووٹ حاصل کیے ۔اِس لیے حق تویہی تھاکہ یہ حلقہ جماعت اسلامی کے لیے چھوڑدیا جاتا۔ بھلے ایم کیوایم انتخاب جیت جاتی کہ یہ حلقہ اُس کاگھراور قلعہ ہے لیکن مقابلے کی فضاء میںیہ اندازہ ضرورہوجاتا کہ ایم کیوایم پرکتنے ”ڈینٹ”پڑ چکے ہیں۔اب نتیجہ آنے پرایم کیوایم سینہ تان کریہ کہہ سکتی ہے کہ کراچی میںوہ اپنی مقبولیت کی اوج پرہے۔
محترم فریداحمدپراچہ نے اتوارکی شب علماء اکیڈمی منصورہ میںایک خوبصورت محفل سجائی ۔مہمانِ خصوصی محترم سراج الحق صاحب تھے اوراہلِ صحافت کے تقریباََتمام چیدہ وچنیدہ اصحاب بھی موجود۔ امیرِمحترم کاخطاب مختصرمگر جامع ۔سوال ہواکہ جب جماعتِ اسلامی اورتحریکِ انصاف کامقصد ایک ہی ہے اور دونوں جماعتیں خیبرپختونخوا حکومت میںاتحادی بھی توپھر ایم کیوایم کے مقابلے میںایک ہی امیدوار کیوںنہیں؟۔محترم سراج الحق نے جواب دیاکہ اُنہوںنے توکچھ تجاویز دی تھیں جن کا چارروز بعدجہانگیرترین صاحب نے جواب دیاکہ تحریکِ انصاف کووہ تجاویزقبول نہیں۔ اتوارہی کی شب (محترم سراج الحق کے اعزازمیں دیئے گئے عشائیے سے کچھ پہلے) محترم ہارون الرشید ٹی وی ٹاک شومیں یہ کہہ رہے تھے کہ وہ اِس بات کے گواہ ہیںکہ جماعتِ اسلامی کچھ شرائط کے ساتھ(جن کاتعلق آمدہ بلدیاتی انتخابات سے تھا) اپناامیدوار تحریکِ انصاف کے حق میں دستبردارکرنے کوتیار تھی لیکن جہانگیرترین صاحب نے بیل منڈھے نہیںچڑھنے دی ۔جب میںنے امیرِ محترم کی زبان سے بھی یہی باتیں سُنیں تو مجھے یقین ہوگیا کہ ہارون الرشیدصاحب کاکہا سچ تھا(حالانکہ میںہارون الرشیدصاحب کے کہے پہ کم کم ہی یقین کرتاہوں) ۔سچ تویہی ہے کہ الیکشن 2013ء کی طرح تحریکِ انصاف اب بھی غلط فہمیوںکے جلومیں ہے ۔اگر جلسے ، جلوسوں ،ریلیوں اور ناچ گانوںسے انتخابی نتائج کواپنی مرضی کے مطابق ڈھالاجا سکتاتو آج تحریکِ انصاف دوتہائی اکثریت کے ساتھ حکمرانی کے مزے لوٹ رہی ہوتی لیکن تحریکِ انصاف کی تو”وہی ہے چال بے ڈھنگی ،جوپہلے تھی ،سواب بھی ہے۔
محترم عمران خاں جب پہلی دفعہ کراچی گئے تب”حسبِ سابق” اِدھراُدھر سے لوگ اکٹھے کرکے خوب ہلاگُلا کیا۔اُس وقت تک جماعت اسلامی نے اپنی الیکشن مہم شروع بھی نہیںکی تھی ۔تب سروے میںایم کیوایم پہلے اورتحریکِ انصاف دوسرے نمبرپر اورجماعتِ اسلامی کہیںنہیں۔پھر محترم سراج الحق نے کراچی کادورہ کیا اور عائشہ منزل پراُن کے ایک ہی خطاب نے وہ رنگ دکھایاکہ دوسرے ہی سروے میںجماعت اسلامی دوسرے نمبرپر آگئی۔ یہ صورتِ حال تاحال برقرارہے لیکن پھربھی خوش فہمیوںکی جنت میںبسنے والی تحریکِ انصاف اپنی ضد پر قائم ہے ۔ہم توباربار لکھ چکے کہ قول کے کچے لوگوں سے نسبت کیسی لیکن امیر محترم اب بھی تحریک انصاف سے مایوس نہیں۔