معاشرے کی زیادتی اور عورت

Women

Women

تحریر : عائشہ منہاج
تنہائی، وحشت ،سناٹا اور ایک اکیلی عورت
مجبوری ،زنجیریں ،دنیا اور ایک اکیلی عورت
عورت خدا کی بڑی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے۔ عورت دنیا کے خو بصورت چہرہ کی ایک آنکھ ہے۔ اس لئے عورت دنیا میں پیار محبت کا تاج محل ہے۔حیا ء کا مجسمہ ہے۔ عورت ماں کے روپ میں رحمت ،بہن کے روپ میںشرا فت،اور بیٹی کے روپ میں باوفا دوست ہو تی ہے۔ عورت ایک ایسا پھول ہے جو نہ صرف سا ئے بلکہ دھوپ میں بھی خو شبو پھیلا تا ہے۔ عورتوں پر تشد دعا لمی مسئلہ ہے۔ پا کستان میں جب بھی خو اتین پر تشدد کا کوئی وا قعہ ہوتا ہے تو پوری دنیا میں ہماری بد نامی ہوتی ہیں۔ ہم خو ش نسیب ہے کہ اسلام نے عو رتوں کو انکے بنیا دی حقو ق سی نوازا۔ اسلام عورت کو اہم اور خاص ترجیح دیتا ہے۔ جب اسلام آیا تو عورت کو اپنا مقام اورا صلی درجہ مل گیا۔

معاشرے میں عورت کی حیثت دیکھتے ہیں تواس کے الٹ دکھا ئی دیتی ہے اور جب حقوق دینے کی بات آتی ہے تو غیرت کے نام پر قتل کر دیا جاتا ہے۔ اس کے علا وہ ہما رے معا شرے میں ہر سطح پرعورت کو ہرا سا ں کیاجا تا ہے۔اپنی ماں بہنوں کو شر عی پر دوں میں چھپا کر رکھا جا تا ہے اور دو سروں کی بیٹوں کو کو گند ی نظر وں سے دیکھا جاتاہے! لڑکیوں کو راہ چلتے انتہا ئی شر منا ک اشا روں سے ہرا ساں کر نے کی کو ششںکی جا تی ہے۔ ایک لڑ کی جب گھر سے با ہر قد م رکھتی ہے تو اسکو یہ سمجھا یا جاتا ہے کہ بیٹی بر قع پہن کر جا نا،ڈو پتہ صحیح سے لو وغیرہ وغیرہ ۔۔اسطر ح کی نصیحت لڑ کیوں کو عمو ماملتی ہے جو کی غلط بھی نہیں۔لیکن کیا وہ اسطر ح سے گند ی نظر وں محفو ظ رہ سکے گی ؟

Women In Bus

Women In Bus

بسوں میں تو عورت کو چھیرنا عام ہو گیا ہے ،نوجوان کے سا تھ سا تھ دھیڑ عمر کے بز رگ حضر ات بھی اسطر ح کے ناذیبا حرکات میں شامل نظر آتے ہیں۔ قانون کی چاردیواری میں عورت کی بے حر متی اور قتل ہونا ہی ایک قا بل مذمت بات ہے۔ ایسے واقعہ معاشرتی بے حسی کی عکاسی کر تا ہے۔ خدا جانے انسانیت دنیا کے کسی کو نے میں چھپ گئی ہے۔ اس وقت ہر شعبے میں خو اتین مردوں کے مقا بلے میں زیا دہ بہتر کام کر ر ہی ہیں۔لیکن مردو ں کے مقا بلے میں ان کو وہ عزت اور تنخواہ نہیں ملتی جس کی وہ حق دار ہو تی ہے۔ اور اگر تنخو اہ بڑھا ئی جا تی ہے تو اس کی صو رت شرت پر منحصر ہوتی ہیں یعنی انھیں غلط مقا صد پر آ ما دہ کر کے تر قی دی جا تی ہے ور نہ انکی تر قی روک لی جا تی ہے۔اور انتہا ئی افسو ک کی با ت یہ ہے کہ جب عو رت تھا نوں میں جا کر اپنی ابرو چھین جا نے یا ہراساںکر نے کے خلا ف آواز اٹھا تی ہیںتو ان کی تذ لیل کی جا تی ہے۔

٢٧فروری کہ نجی اخبار کی ایک خبر تھی کہ ڈھر کی کی محنت کش خاتون جو اپنے خا ندان کی واحد کفیل تھی اور اس کی بیٹی کو زیادتی کا نشا نہ بنا کر آگ لگا دی گئی جبکہ پو لیس نے اس کو خو د کشی کارنگ دے دیا۔ وہ خاتون رالیاں بناتی تھی اور ایک روز رالیوں کی فر و خت کیلئے دو سرے گا ئو ں گئی تھی اپنی بیٹی کی ہمراہ ۔بد قسمتی سے مو سم کے خرا بی کی وجہ سے قریب جھو پڑی میں پنا ہ لے لی ۔پنا ہ دینے والوں ما ں بیٹی کو نشہ آور چیز پلا کر ان کو تشدد اور زیا تی کا نشا نہ بنا یا اور فرار ہونے سے پہلے جھو پڑی کو آگ لگا دی۔ آگ کے بڑھکتے ہو ئے شعلوں نے بیٹی کی جا ن لے لی خاتون کو مے میں چلی گئی۔

Justice

Justice

اور جب کچھ وقت بعد ہوش آیا تو انصاف کے دروازے کہٹکائے مگر کو فا ئدہ نہ ہوا۔ جس کی و جہ سے اکثر خو اتین انصا ف ما نگنے نہیں جاتی۔ کیونکہ ہمارے یہاں انصاف کے ادریں ان کی بے عزتی کرتے ہیں۔ لہذ آج کے دور میڈیا ہر مسائل پر روشنی ڈا لنے کا بہتر ین ذر یعہ اس لئے میڈیا کو ایسے مسائل پر اپنا موثر اور مثبت کر دار ادا کرنا چاہئے تاکہ عو رتوں کو زیادہ سے زیا دہ آگا ہی فر اہم کی جا سکے۔ اس میں ایک یہ بھی فا ئدہ ہے کہ ہما را ملک تر قی کی راہ میں گا مزن ہو جا ئے گا۔قا نون بنا نے سے زیادہ اسے مضبوطی سے قائم کرانے پر تو جہ دینے کی ضرورت ہے۔

تحریر : عائشہ منہاج