جواب دہ کون؟

Pakistan

Pakistan

تحریر : ابنِ نیاز
کلم راعٍ و کلم مسٔول عن رعیتہِ۔۔ تم میں سے ہر اک نگہبان ہے اور تم سے تمھاری رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ حدیثِ پاک کے یہ الفاظ اپنے اندر اک جہاں سموئے ہوئے ہیں۔ ہر اک نگہبان ہے۔ یعنی صرف حکمران ہی نہیں، کسی ادارے کا سربراہ ہی نہیں، بلکہ عمومی حکم ہے کہ ہر اک نگہبان ہے۔ ہر بندہ ، ہر بشر۔ چاہے ملک کا سربراہ ہے ، کسی ادارے کا سربراہ ہے ، کسی گھر کا سربراہ ہے یا کسی بھی لحاظ سے وہ کسی جگہ کا بھی سربراہ ہے، وہ درحقیقت نگہبان ہے۔ اور جب سربراہ کے پاس اختیار ہوتا ہے تو گویا وہ پھر حاکمِ اعلٰی یعنی اللہ تعالٰی کو جواب دہ ہو گا کہ اس کو جب یہ سربراہی دی گئی تھی اور اس کو اختیار دیا گیا تھا تو اس نے اپنے ماتحتوں کے ساتھ کیا سلوک کیا۔

ان کے ساتھ کس قسم کا رویہ روا رکھا۔ آیا صرف حکم ہی جاری کرتا رہا، ان سے کام ہی کرواتا رہا یا پھر ان کے حقوق کا بھی خیال رکھا۔ کہیں انکے حقوق غضب تو نہیں کیے۔ ان کو غلط کام کرنے سے بھی روکا یا ان کو چھوڑ دیا کہ جو مرضی کریں، بشرطیکہ وہ ادارے کے لیے نقصان دہ نہ ہوں۔ لیکن اللہ تعالٰی نے سربراہ کو صرف سربراہ ہی نہیں رہنے دیا۔ بلکہ حضرت عمر فاروق کے بقول اگر فرات کے کنارے ایک کتا بھی قدرتی موت کی بجائے کسی اور طریقے سے مر گیا تو عمر سے مدینہ میں رہتے ہوئے بھی قیامت کے دن اس کی پوچھ گچھ ہو گی۔ تو نہیں یہ ڈر ہے کہ وہ اس کا جواب نہ دیں سکیں گے۔ اب کوئی کہے کہ گیارہ لاکھ مربع میل کے علاقے پر اسلامی سلطنت پھیلی ہوئی ہے، کروڑوں کی تعداد میں افراد ہیں، حضرت عمر کس کس کا خیال رکھیں گے، کس کس کی خبرگیری کریں گے۔

لیکن انہیں اس حدیث کا علم تھا۔ وہ جانتے تھے کہ رسول پاک نے یہ الفاظ ایسے نہیں ادا کیے۔ یقینا سربراہ صرف سربراہ نہیں ہوتا بلکہ نگہبان ہوتا ہے جیسا کہ چرواہا۔ راع بنیادی طور پر عربی میں چرواہے کو کہتے ہیں۔ جس طرح چرواہا بکریوں کا ہر لحاظ سے خیال رکھتا ہے کہ اس کی بکریاں اچھی طرح سے کھائیں پئیں، انہیں کوئی نقصان نہ ہو۔ وہ پرائی فصلوں، کھیتوں میں نہ گھومیں، اکٹھی رہ کر چراگاہ سے گھاس کھائیں۔ بکریاں بے شک زیادہ ہوں لیکن چرواہے کی نظر ان سب پر ہوتی ہے کہ کہیں وہ دور نہ چلی جائیں۔ غرض چرواہا ہر طرح ان کا خیال رکھتا ہے ۔ دوسرے لفظوں میں وہ ان کی نگہبانی کرتا ہے۔ تو انسان کے لیے بھی رسول اللہ ۖ نے اسی لیے راع یعنی نگہبان کا لفظ استعمال کیا۔

Mother with Child

Mother with Child

جب بچے بچے ہوتے ہیں تو والدین انکا بہت خیال کرتے ہیں۔ ان پر نظر رکھتے ہیں کہ کہیں وہ گر نہ جائیں، ان کو چوٹ نہ لگ جائے، وہ کوئی غلط چیز اٹھا کر منہ میں نہ ڈال لیں۔ ان کی تربیت کرتے ہیں کہ ایسے بیٹھیں، اس طرح کھائیں، اس طرح بات کریں، چلنا کیسے ہے، پھرنا کیسے ہے، کوئی مہمان آجائے تو کیا کرنا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اور پھر جب وہ بچہ بڑا ہوتا ہے تو ان کو سکول کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔تو بچہ گھر والوں کی رعیت کے ساتھ ساتھ سکول کی رعیت میں بھی شامل ہو جاتا ہے۔اب اسکی تعلیمی تربیت شروع ہو جاتی ہے۔ اس کو سکھایا جاتا ہے کہ دنیا میں جینا کیسے ہے۔ اب اگر اسکو غلط رستہ دکھایا جائے اور بچہ اس رستے پر چل کر اپنی زندگی گزارے ذمہ دار کون ہو گا۔ یا بچے کو رستے دونوں دکھا دیے جائیں ان پر چلنے کے فائدے نقصانات بتا دیے جائیں، اور پھر بچے کو چھوڑ دیا جائے کہ اب وہ چلنا سیکھ چکا ہے۔لیکن یہ چھوڑنا کافی نہیں ہوتا۔

بلکہ بچے کو چھوڑ کر پھر اس کو دیکھا بھی جاتا ہے کہ آیا وہ سیدھے رستے پر چل رہا ہے یا غلط۔ اگر غلط رستے پر ہے تو اسکی رہنمائی کی جاتی ہے۔ اس کو بتایا جاتا ہے کہ وہ غلط سمت میں جا رہا ہے۔اس کو کبھی پیار سے ، کبھی غصے سے، کبھی مار سے ، ڈانٹ ڈپٹ سے سیدھے رستے کی طرف گامزن کیا جاتا ہے۔ کبھی سختی کی جاتی ہے۔ ہر ممکن طریقے سے اسے سیدھے رستے کی طرف ہی رکھا جاتا ہے۔ یہ الگ بات کہ اگر کارخانۂ قدرت سے اس کے نصیب میں گمراہی کا سانچہ ڈھل کر نکلا ہوا ہو تو پھر یہ سارے طور طریقے علیحدہ علیحدہ یا مل کر بھی اسے صراطِ مستقیم پر نہیں چلا سکتے۔ پہلی صورت میں جب بچے کی رہنمائی نہ کی جائے تو قصور وار راعی ہوتا ہے۔ دوسری صورت میں وہ اپنے کیے پر خود ہی جواب دہ ہوتا ہے۔

کچھ ایسی ہی صورت حال ایک گھر میں بھی پیش آتی ہے۔ جب خاندان کا سربراہ اپنے زیردستوں کی خیر خواہی نہ کرے۔ ان کی صرف معاشی ضروریات پوری کرے۔ ان کو ابتدائی تعلیم یا دنیاوی تعلیم تو دلا دی، دین میں بھی قرآن پڑھنا سکھا دیا، نماز پڑھنا سکھا دی۔ اٹھنا بیٹھنا سکھا دیا۔ لیکن زمانے کے ساتھ کس طرح چلنا ہے، کیسے چال چلن رکھنے ہیں کہ زمانہ مثال دے، یہ سب کچھ نہ ہوا اور زیردست سب اپنی اپنی مرضی سے زندگی گزارنے لگے تو پھر سربراہ مذکورہ بالا حدیث کے مطابق کس طرح جواب دے گا۔ بیٹا گھر سے باہر نکلتا ہے اور آوارہ گردی کرتا ہے۔ اسکے پاس کمپیوٹر ہے، لیپ ٹاپ ہے، موبائل ہے ، ان کا غلط استعمال کرتا ہے اور باپ کو فکر ہی نہیں۔ اخلاق باختہ رسالے ہیں، حیا سوز میگزین ہیں۔ باپ نے کبھی خیال نہیں کیا کہ جب وہ کمرے میں جاتا ہے تو بیٹے کا رنگ کیوں فق ہو جاتا ہے۔ بیٹا رات کر دیر سے گھر آتا ہے اور بہانہ بناتا ہے کہ کالج ، یونیورسٹی کے کلاس فیلو کے ساتھ سٹڈی کر رہا تھا۔ کبھی باپ نے چیک نہیں کیا کہ وہ سچ کہہ رہا ہے یا جھوٹ۔

Islam

Islam

دینِ اسلام کے مطابق ایک عورت گھر سے اکیلی باہر نہیں جا سکتی۔ تو باپ، بھائی بیٹی یا بہن کو کالج چھوڑنے آتے ہیں ، اچھی بات ہے بلکہ قابلِ تحسین قدم ہے۔ لیکن کیا پھر باپ نے کبھی ہفتے میں ایک آدھ بار بھی چیک کیا کہ ان کی بیٹی کالج میں واقعی پڑھتی ہی ہے یا کلاس کے اوقات میں دوسری کلاس فیلوز کے ساتھ کینٹین، کیفے میں وقت گزارتی ہے۔ یا آوارہ لڑکوں سے رکھی ہوئی ہے۔ کالج کی ایک روٹین ہوتی ہے ۔ چار سے چھ گھنٹے کی کل کلاسز ہوتی ہیں۔اگر اس کے علاوہ بیٹی وقت سے پہلے یا وقت کے بعد دیر سے گھر آتی ہے اور باپ نہیں پوچھتا تو بیٹی کو بھی فکر نہیں ہوتی ہے کہ وہ ماں باپ سے ذکر کرے۔ اگر کسی دن بہن ، بیٹی کہتی ہے کہ آج وہ ایک کلاس فیلو لڑکی کے ساتھ کالج جائے گی اور اسی کے ساتھ واپس آئے گی اور باپ بھائی چیک نہیں کرتے کہ آیا لڑکی کلاس فیلو لڑکی کے ساتھ ہی گئی ہے اور سیدھی کالج ہی گئی ہے، کلاسز لی ہیں اور واپسی بھی اسی لڑکی کے ساتھ ہوئی ہے تو پھر بھی مسٔلہ ہے۔ پہلے تو بیٹی کی روٹین ہی خراب نہیں کرنی چاہیے ۔ جس طرح باپ بھائی اس کو کالج ، یونیورسٹی چھوڑ کر آتے ہیں اسی طرح چھوڑ کر آیا کریں،

اگر کسی دن خدا نخواستہ دونوں مصروف ہیں تو کوئی ایسا حل نکالیں کہ دوسری بار یہ عمل دہرایا نہ جا سکے۔میں باپ، بھائی کے ساتھ جانے میں اسلیے زور دے رہا ہوں کہ اس طرح لڑکی کی عزت بنی بھی رہتی ہے اور قائم بھی رہتی ہے ۔ اور دوسری بات کہ کوئی بھی آوارہ ، لوفر لڑکا اس بہن کی طرف شاید ہی ٹیڑی آنکھ سے دیکھنے کی جرأت کر سکے۔ چہ جائیکہ اس کے ذہن میں اس کو چھیڑنے کا خیال آئے۔ کچھ شہروں میں لیٹ کلاسز ہوتی ہیں اور چھٹی عشاء کے لگ بھگ ہوتی ہے۔ ایسے میں ان گناہ گر آنکھوں نے دیکھا ہے کہ نامحرم لڑکے لڑکیا ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے چل رہی ہوتی ہیں۔ آپس میں گھل مل کر باتیں کر رہی ہوتی ہیں۔ مزے کی بات تو یہ اکثر لڑکیاں پورے حجاب میں ہوتی ہیں لیکن شاید وہ گھر والوں کی طرف سے ان کے لیے سختی ہوتی ہے ۔ مگر کیا حجاب میں رہتے ہوئے اس طرح چھٹی کے بعد نامحرم لڑکوں سے ہنس ہنس کر باتیں کرنا، ان کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر چلنا کہاں کا چلتر ہے۔ باپ نے یونیورسٹی میں داخل کرا کر انہیں پھر پلٹ کر نہیں دیکھا کہ وہ کس وقت گھر آتی ہیں کس وقت گھر سے جاتی ہیں۔ بھائی نے کبھی خیال نہیں کیا کہ اس کی بہن یونیورسٹی سے نکل کر سیدھی گھر تو آتی ہے لیکن راستے میں کیا کیا گل کھلا کر آتی ہے۔ کیا باپ نے بحیثیت سربراہ بیٹی کو اسلام کی راہ نہیں سکھائی کہ بے حیائی کی راہ اخیتار کرنے کے لیے یہی کافی ہے کہ آپ کسی نامحرم لڑکے سے ہنس کر بات کر لو۔ نہ اس لڑکے کے باپ نے کبھی اس کو بتایا کہ کسی نامحرم کی طرف دیکھو گے تو مکافاتِ عمل کے تحت اسکی بہن کی طرف بھی ٹیڑھی آنکھ سے دیکھا بھی جا سکتا ہے اور ہاتھ بھی پکڑا جا سکتا ہے۔ اور جب بات دیکھنے سے بڑھتی ہے ، ہاتھ پکڑنے تک پہنچتی ہے تو شیطان اس لمس کے احساس کو بہت خوبصورت کرکے پیش کرتا ہے۔ اور اس احساس کی رسی جب دراز ہوتی جاتی ہے تو ہوش اس وقت آتا ہے جب ہوش کھویا جا چکا ہوتا ہے۔

باپ کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنی بیٹیوں کو اعلٰی سے اعلٰی تعلیم دے، لیکن ان پر نظر بھی ضرور رکھے۔ باپ کا یہ فرض ہوتا ہے کہ وہ اپنے بیٹوں کو اپنا وارث ضرور بنائے لیکن ان پر شیر کی نگاہ ہر دم رکھے کہ وہ پرائے بیٹیوں، بہو کی طرف ٹیڑھی نگاہ سے تو نہیں دیکھ رہا۔ وہ کسی غلط کاموں میں ملوث تو نہیں ہے۔ وہ کہیں ملک کی سا لمیت کے خلاف کسی سرگرمی میں شامل تو نہیں ہے۔ اسکا اٹھنا بیٹھنا کس قسم کے لوگوں کے درمیان ہے۔ کالج میں اسکی سنگت کس قسم کے لوگوں سے ہے۔ یہ سب گھر سے شروع ہوتا ہے اور گھر پر ہی ختم ہوتا ہے۔ کیونکہ اگر گھر سے اس کو بہترین تعلیم دی جائے گی، تربیت کی جائے گی ، دنیا کی اونچ نیچ سے بیٹی، بیٹے کو سمجھایا جائے گا اور پھر ان پر نظر بھی رکھی جائے گی تو کوئی وجہ نہیں کہ اولاد ماں باپ کے لیے فخر کا باعث نہ بن سکے۔ ہم اسلام کے نام لیوا ہیں۔ اور ہمیں ہمارے دین نے یہ حق دیا ہے کہ ہم اپنے اہل و عیال کی خبر گیری کریں۔ ان کے اچھے برے کا خیال رکھیں۔تو ہی ایک اچھے راعی کی صورت میں ہم اللہ پاک کی عدالت میں شاید اچھی طرح سے کھڑے ہو کر جواب دے سکیں۔ یہ انگریزوں کا معاشرہ نہیں ہے جہاں اولاد اٹھارہ سال کی ہوئی اور پھر وہ ماں باپ کو اور ماں باپ اس کو جواب دہ نہیں۔

Ibn e Niaz

Ibn e Niaz

تحریر : ابنِ نیاز