تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری حالات خواہ کچھ بھی ہو جائیں اور اونٹ کسی کروٹ بیٹھ جائے امریکہ، اسرائیل، بھارت، صہیونی قادیانی اور ان کے آلٔہ کار، بدنامِ زمانہ لادینی و سیکولر جمہوریت کے پیروکار اور سامراجی گماشتے دنیا بھر میں بالعموم اور عالم اسلام میں بالخصوص کسی بھی صورت اسلام کے نام لیوائوںکی فتح برداشت نہیں کر سکتے۔
نہ ہی ان سے مسلمانوں کو کسی امداد کی توقع رکھنی چاہیے۔وہ ہر جگہ آقائے نامدار محمدۖ کے معصوم پیروکاروں کا خون ِ ناحق بہتا ہوا دیکھنے کے متمنی اور خواہش مندرہتے ہیں جس کے لیے مسلمانوں کو مسالک ، علاقائیت ،رنگ و نسل کے بتوں اور برادری ازم کے خوشنما نعروں کے ذریعے بانٹنے اور لڑانے کا عمل مسلسل جاری ہے۔ مسلمانوں میں دینی شکل و روپ دھار کر گھُس بیٹھئے کا شیطانی کردار قادیانی ادا کر رہے ہیں جو کہ یہودیوں کی ہی ظاہراً تبدیل شدہ شکل ہی ہیں۔فرقہ پرست و چندہ خور ملائوں کی وسیع پیمانے پر خریداور پھر آگے فروخت کرکے مسلم ملت کوتقسیم کیا جاتاہے ۔مزید واضح کرتا چلوں کہ یمنی اندرونی جنگ و جدل میں دوسرے اسلامی ممالک میں افرا تفریوں کی طرح امریکی حکومت کا جو بھی مو منانہ جمہوری غازوں سے لتھڑ انام نہا د بظاہر امدادی چہرہ نظر آئے کسی بھی صورت اس کا اعتبار نہ کرنا چاہیے۔
بنگلہ دیش بننے سے قبل جب مشرقی پاکستان میں بھارتی را کے ایجنٹوں کی طرف سے مسلم سپاہ پر خواہ مخواہ تھوپی گئی جنگ جاری تھی تو بھی امریکی امدادی بیڑا کے آنے کا شدو مد سے اعلان کیا جاتا رہا مگر اسے نہ آنا تھا نہ آیا اور ہمارے ” بہادر” جرنیل نیازی نے98ہزار فوجیوں کو اپنے ہتھیاربھارتی افواج کے کمانڈر اروڑا سنگھ کے قدموں میں ڈھیر کرنے کا حکم دسے ڈالاوہ پاکستانی فوجیوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ہانکتے ہوئے تشدد کرتے بھارت لے گئے اور سب سے بڑا ظلم یہ کیا کہ سامراجی فوجی 38ہزار سے زائدہماری نوجوان بیٹیوں بہنوں اور سن بلوغت کو پہنچنے والی معصوم بچیوں کو بھی گھسیٹتے ہوئے ساتھ لے گئے کسی بھی بیرونی ایڈ پر پلنے والے کٹھ ملائیت کے علمبردارشخص کی غیرت نہ جاگی اور چندہ خور نام نہاد فرقہ پرست ملائوںنے بھی اف تک نہ کی۔البد ر و الشمس اور محب وطن صحیح العقیدہ تنظیمیں پرائی گلے پڑی ہوئی لڑائی لڑتے ہوئے شہیدوں کے کفن توپہن سکیں۔ مگرہندو و سکھوں کی لوٹ ماراپنی اٹھائی گئی بیٹیوں بہنوں کی عصمتوں کو تار تار ہونے سے نہ بچاسکے۔لڑائی سے قبل بھی جنرل نیازی کا یہ اعلان کہ ہم بنگالیوں کی جنس تبدیل کرڈالیں گے بھی مسلمانوں کی تاریخ پرایک سیاہ کلنک کا ٹیکہ تھا۔
Yemen War
اب یمنی جنگ میں بھی امریکی رول وہی ہے جو مسلمانوں کے ازلی دشمنوں کا ہمیشہ سے رہا ہے کہ انھیں صلیبی جنگوں کے زخم ابھی تک نہیں بھولے۔صلاح الدین ایوبی کے حملے ان کے سینوں میں پیوست اور مدفون ہیں ۔دنیا بھر کے مسلمانوں اور بالخصوص پاکستانیوں کے دلوں کی آواز سعودیہ کی پاک سرزمین اور اس میںموجود ہمارے حرمین شریفین خدا کا گھر و مکہ مدینہ سے ہماری دلی لگائو ہے ۔جس کے لیے ہم اپنا دھن من سبھی قربان کرسکتے ہیں۔ہمیں شاید سعودیوں کی بادشاہت سے کوئی پیار نہ ہو کہ یہ بھی آمرانہ اقتدار کی ہی پلوٹھی بہن ہوتی ہے مگر چونکہ وہ بھی خادم اور محافظ ہیں اس لیے ہمارا جذباتی لگائو اور دلی محبت موجود ہے۔ بہر حال سعودی حکمرانوں نے فضائی حملے بند کرکے اچھے عمل کا آغاز کیا ہے جس کا مثبت جواب یمنی متحارب گروپوں کو بھی دینا چاہیے۔امریکی فوجیں پہلے بھی شام ، مصر و افغانستان میں شکست سے دو چار ہیں۔ مگر ہمیں عالم اسلام کے مشترکہ دفاع ، مشترکہ کرنسی ،مشترکہ کاروبار اور مشترکہ اسلامی بینکنگ کے لیے کوششیں تیز کرڈالنی چاہئیں۔انشاء اللہ مشرق وسطیٰ میں فرقہ واریت کا شیطان بھی جو ننگا ناچ ناچ رہا ہے شکست فاش سے دو چار ہوگا۔ اور مسلم ملت فاتح و کامران رہے گی غرضیکہ قادیانیوں یہودیوں صہونیوں کے ایجنٹ اور پوری دنیا بھر میں مقتدر سودی سرمایہ داری نظام کے علمبرداروں کی شکست مقدر ہو چکی ہے ۔اور اس میں پاکستانی حکمران کلیدی رول ادا کرسکتے ہیں۔ امید قوی ہے کہ اگر ہمارے حکمران اور اپوزیشنی سیاست دان سابقہ روایات کے مطابق کاروباری چمک کا شکار نہ ہوئے تو یہ معرکہ آسانی سے سر ہو جائے گا۔جس کے لیے بہر حال جرأت رندانہ اور عصائے موسوی کی ضرورت ہے۔
یہ جنگ چونکہ طویل محسوس ہوتی ہے اس لیے عین ممکن ہے کہ آئندہ انتخابات میں اللہ اکبر تحریک کامیاب ہو کراس فتح کے جھنڈے کو گاڑنے کی تو فیق حاصل کرے۔ خدا کے فضل و کرم سے کچھ بھی نہ کرسکیں گے ۔مگر باغی حوثی قبائل نے بڑھک تو لگادی کہ ہم مکہ کا گھیرائو کریں گے جدہ پہنچ جائیں گے۔ اگر ہمارے عقل کے اندھے حکمرانوں کو ذرا بھی شعور ہوتا تو یہ وہاں افواج بھیج کر فوراً گھیرا ڈال کرآ ہنی احصارقائم کرلیتے اور خدا کے گھر کی حفاظت تو خود خدا نے اپنے ذمے لی ہوئی ہے۔
وہاں تک پہنچنا تو درکنار سوچنا بھی کفار کے شیاطین کے لیے ممکن نہ تھا۔ہم افواج بھیج کرخدا کے گھر کے محافظ قرار پاجاتے اور ہمارے لیے یہ عمل قابل فخر ہوتا۔جو کہ ہمارے مفادپرست حکمرانوں کرپٹ ممبران اسمبلی اور بڑھک باز اپوزیشنی بے حوصلہ لیڈروں کی قسمت میں نہ تھا۔کہ”ایں سعادت در قسمت ِشہباز و شاہیںکردہ اند “اور ہم کیا ہیں ہمارے موجودہ لیڈروں میںگیدڑانہ خصوصیات بدرجٔہ اُتم پائی جاتی ہیں ۔ آپ صرف ان کی آنیاں جانیاں دیکھ سکتے ہیںیہ کوئی دلیرانہ اقدام اٹھائیں گے”ا یں خیال است و محال است و جنوں “کی طرح ہے۔