تحریر: آصف لانگو جعفرآبادی سیاسی میدان میں کچھ دنوں سے کراچی سیاسی مرکز بن گیا تھا کیونکہ پیپلز پارٹی کے سابق رہنماء سردار نبیل گبول ایم کیو ایم میں شمولیت اختیار کیا تو جنرل الیکشن میں اسے ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو کے حدود این اے 246 سے بھاری اکثریت سے کامیابی کی اور بعد ازان سردار نبیل گبول نے سیاسی ماحول کے مطابق ایک کیو ایم کو خدا حافظ کہہ دیا۔ تو این اے 246 پر نشست خالی ہوگئی الیکشن کمیشن نے اس حلقے پر ضمنی انتخابات کا شیڈول 23اپریل جاری کیا تھا۔ گزشتہ روز الیکشن ہو گئے ۔الیکشن سے قبل یہاں بہت سیاسی گہما گہمی تھی۔ تین سیاسی جماعت میدان میں تھے ایم کیو ایم کا تو مرکز اور مضبوط ترین نشست تھا۔
تحریک انصاف اور جماعت اسلامی بھی یہاں میدان میں اترے ۔ ن لیگ ، پی پی پی ، و دیگر سیاسی جماعتوں نے ایم کیو ایم کے ساتھ اصلا ح کرتے ہوئے اپنے امیدوار کھڑا نہیں کئے ۔ جبکہ ایم کیو ایم نے کنور نوید کو اس نشست پت ٹکٹ فراہم کیا تحریک انصاف نے اپنے ساتھی عمران اسماعیل جماعت اسلامی نے راشد نسیم کو ٹکٹ جاری کیا تھا۔عمران خان تو بہت خوش فہمی میں تھے کراچی کی عوام ان کو پسند کرتا ہے اور نوجوان اسے ووٹ دیں گے اور کامیابی حاصل ہوگی مزید کہتے تھے کراچی کی عوام ایم کیو ایم کی جال سے نکلنا چاہتا ہے تیسری قوت کی انتظار میں ہے تحریک انصاف ان کی دل عزیز جماعت ہے اور نیو جینریشن میں خواتین باالخصوص انھیں کامیاب کریں گی لیکن افسوس ایسا نہیں ہوا ۔ جہاں تک میرا سیاسی خیال یہی تھا کہ ایم کیو ایم بھاری اکثریت کے ساتھ کامیابی حاصل کرے گی کراچی مکمل کنٹرول میں ہے ۔ رزلٹ کچھ ایسا رہا ایم کیو ایم کے امیدوار کنور نوید نے 93ہزار 122ووٹ حاصل کیے ، عمران اسماعیل نے 22ہزار اور جما عت اسلامی کے امیدوار راشد نسیم نے 9ہزار ووٹ لئے لیکن یہاں ٹرن آ ؤٹ معمول کے مطابق 35فیصد ہی رہا ۔ الیکشن رینجرز کی زیر نگرانی ہوئے ہیں رینجرز نے حالات و واقعات کو کنٹرول کیا کسی قسم کی کوئی بڑی واقعہ پیش نہیں آ یا جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ الیکشن کسی حد تک درست ہوئے ہیں اور پر امن بھی۔
ایم کیو ایم کے رہنماء فاروق ستار نے اعتراف کیا ہے کہ ووٹنگ کے عمل میں رکاوٹیں کھڑی کر کے ہماری جیت کی مارجن کو کم کیا جارہا تھا۔انھوں نے مزید انکشاف کیا کہ انھیں میڈیا کے زریعے معلو م ہو رہا تھا کہ پولنگ اسٹیشنریز پر رینجرز اور پولیس اہلکار ووٹروں سے ان کی انتخابات کے متعلق معلومات بھی کر رہے ہیں جبکہ دوسری جانب الیکشن کمیشن کا ضابطہ اخلاق کے خلاف خواتین کے پولنگ بوتھ میں مرد سرکاری اہلکار موجود تھے ۔ ایم کیو ایم کے امیدوار کنور نسیم نے کہا ہے کہ این اے 246میں ایم کیو ایم کے ووٹ کم کرنے کے لئے ووٹرز کی حوصلہ شکنی کے اقدامات بھی کئے گئے تھے ڈبل سواری پر پابندی ایم کیو ایم پر لگائی گئی تھی تاکہ پولنگ پر اثر اندازی ہو سکے ۔ ایک ہی کمرے میں 2,3قطاروں سے بد نظمی پیدا ہوئی ، چیکنگ کے نام پر ایم کیو ایم کے ووتڑز کو پریشان بھی کیا گیا۔
MQM
جماعت اسلامی کے امیدوار راشد نسیم نے کہا ہے کہ رینجرز کی وجہ سے پولنگ پر امن رہی ہے ورنہ حالات خراب ہو سکتے تھے ۔ پاکستان تحریک انصاف چیئر مین عمران خان نیاعتراف کیاہے کہ پہلی مرتبہ ایم کیو ایم نے فیئر الیکشن لڑا ہے ووٹنگ کے دوران پانچ اہلکاروں کو گرفتار کیا گیا جس میں خواتین اور پریزائیڈنگ اور اسسٹنٹ پریزائیڈنگ اور ایک عام شہر ی بھی شامل ہے حراست میں لیا گیا ۔ 3000ہزار سے سیکو رٹی اہلکار اس حلقے میں تعینا ت تھے۔ اصل شناختی کارڈ پر ہی ڈالے گئے تھے ۔ سیکورٹی کی بہترین انتظامات کی بدولت تقربیاََ پولنگ اسٹیشنز پر غیر معمولی واقعات پیش نہیں آ یا۔بہترین طریقے سے لیکشن کا دن ختم ہوگیا ۔ ایم کیو ایم کی پزیرائی میں زرا سی کمی آ ئی ہے مگر کامیا بی نے ایم کیو ایم کی ساخت کو قائم رکھاہے۔البتہ معمول کے مطابق چھوٹے موٹے مسائل سامنے آ تے رہے جیسا کہ متحدہ کے حق میں دستبردار ہونے والے محفوظ یار خان پولنگ اسٹیشنوں پر ووٹ مانگتے ہوئے نظر آ ئے ہیں۔ عبدالحق اسکول پولنگ پر 45منٹ الیکشن کا نظام رکی رہی۔ اعلان کے مطابق زائد لمعیاد کارڈ والے حضرات محفوظ رہے ۔ ووٹنگ کے عمل میں اس طرح کے واقعات کا کوئی خاص جگہ نہیں ہے اس کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے کیونکہ زائد لمعیاد کارڈ والے حضرات اپنی غلطی ہے کہ کم از کم زائد لمعیاد کارڈ کو رینیو کرواتے اور الیکشن میں حصہ لے سکتے۔
بحرحال : ماننے والی بات ہے الطاف حسین بھائی پر کتنے ہی الزامات عائد ہوئے ہیں اور کتنے ہی حقائق کھل کر سا منے آئی جیساکہ ٹارگیٹ کلنگ ، بھتہ خوری اور قتل و غارت جیسے مقدمات درج ہوئے ، بہت بدنامی ہوئی لیکن ایم کیو ایم کی ووٹ بینک پر اثر اندازی نہیں ہونے دیا ۔ 23اپریل ضمنی الیکشن تقریباََ صاف و شفاف ہوئے 93ہزار 122ووٹ حاصل کر کے سیاسی میدان میں اپنی مقبولیت پالیسی اور استحکام کو جاری رکھا ۔ اس سے قبل ایک لاکھ چالیس ہزار ووٹ تو پڑے تھے مگر اُن ووٹ میں تضاد یہ تھا وہ سفاف نہیں تھے ۔ اس بار تو عمران خان نے بھی شکست تسلیم کیا کہ الیکشن شفاف ہوئے ہیں۔ تو اس کا مطلب ہے کہ ایم کیو ایم کراچی میں اپنی سیاسی بصیرت قائم ہے عمران خان کی تبدیلی تو ممکن ہے لیکن جنرل الیکشن میں عمران خان کراچی سے اچھی پوزیشن لے لیکنNA-246پر عمران خان کو مزید سخت محنت کی ضرور ت ہے۔