تحریر : ایم اے تبسم اسلام دین رحمت ہے ، اس کی رحمت انسان کی حد تک محدود نہیں ہے ،بلکہ ہر ذی روح پر محیط ہے۔ اس کے ابر کرم نے جہاں عالم انسانیت کو سیراب کیا ہے، وہیں بے زبان جانوروں کو بھی اپنی رحمت بے کراں سے مالا مال فرمایا۔ اتنا ہی نہیں بلکہ جانوروں کے ساتھ حسن سلوک پر اجر وثواب کی خوشخبری بھی سنائی گئی۔ ایک صحابی رسول اکرم سے دریافت کرتے ہیں کہ میں نے بطور خاص اپنے اونٹوں کے لیے ایک حوض بنا رکھا ہے، اس پر بسا اوقات بھولے بھٹکے جانور بھی آجاتے ہیں، اگر میں انہیں بھی سیراب کردوں تو کیا اس پر بھی مجھے ثواب ملے گا ؟آپ ۖنے فرمایا : ”(ہاں ) ہر پیاسے یا ذی روح کے ساتھ حسن سلوک کرنے سے ثواب ملتا ہے”۔(سنن ابن ماجہ، حدیث:3686)اسلام نے جانوروں کو بھی چین سے جینے کا حق دیاہے۔
اس کی اصولی تعلیم یہ ہے کہ نہ خود تکلیف اٹھائو اور نہ ہی دوسروں کو تکلیف پہنچائو: ”لا ضرر ولا ضرار” (ابن ماجہ :340) دوسروں کو تکلیف دینا چاہے وہ جانور ہی کیوں نہ ہواسلام کے نزدیک درست نہیں ہے۔ حضرت ربیع بن مسعود فرماتے ہیں کہ ایک سفرمیں ہم رسول اللہ کے ساتھ تھے۔ آپ اپنی حاجت کے لیے باہر تشریف لے گئے۔ ہم نے ایک سرخ پرندہ دیکھا جس کے ساتھ اس کے دوبچے بھی تھے۔ ہم نے ان بچوں کوپکڑ لیا، تو وہ فرط غم سے ان کے گرد منڈلانے لگا۔ اتنے میں نبی کریمۖ تشریف لائے توآپ نے فرمایا :اس پرندے سے اس کے بچوں کو چھین کر کس نے اسے رنج پہنچایا ؟ اس کے بچوں کو لوٹادو،اس کے بچوں کو لوٹادو”(ابودائود:2675)۔
بعض روایتوں سے یہ بھی معلوم ہو تا ہے کہ جو جانور انسانوں کے لیے فائدہ پہنچاتا ہے اس کی قدر کی جانی چاہیے۔جانوروں کے ساتھ حسن سلوک اور انصاف پسندی کا تقاضا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس جانور کو جس مقصد کے لیے پیدا کیا ہے اس سے وہی کا م لیا جائے ، اس سے ہٹ کر اگر کو ئی شخص اس سے دوسرا کام لیتا ہے تو یہ اس کے ساتھ زیادتی ہے۔ مثلاً: اللہ نے بیل کو کھیتی باڑی کے لیے پیدا کیا ہے۔ اگر کوئی اس سے گدھے کی طرح بوجھ ڈھونے کا کام لیتا ہے تو اسلام کے نزدیک یہ ظلم ہے۔ ایک مر تبہ رسول اکر مۖ نے فرمایا :”اپنے جانوروں کی پیٹھ کومنبر نہ بنائو(یعنی جانورسے اسٹیج کا کام نہ لو) ، اللہ نے انہیں تمہارا فرماں بردار صرف اس لیے بنا یا ہے کہ وہ تم کو ایسے مقامات پر آسانی سے پہنچادیں جہاں تم بڑی مشقت سے پہنچ سکتے تھے۔ تمہارے لیے اللہ نے زمین کو پیداکیا ہے ، اپنی ضرورتیں اس سے پوری کرو”۔ (ابودائود:2567)۔ جن جانوروں سے خدمت لی جاتی ہے،یا جن سے فائدہ اٹھا یا جاتا ہے ،
Islam
ان کے تعلق سے اسلام کی یہ تعلیم ہے کہ ان کے آرام وراحت کا پوراپورا خیال رکھا جائے ، انہیں بر وقت کھلا یا پلا یاجائے۔اگر وہ بیمار ہوں تو ان کا علاج معالجہ کر ایا جائے ، ان سے تکلیف کی حالت میں کام نہ لیا جائے ، ان کے رہنے سہنے کا مناسب بندوبست کیا جائے اور ان سے اتنا ہی کام لیا جائے جس کے وہ متحمل ہو ں، ان سے اس وقت تک کام لینا جب تک کہ وہ بری طرح تھک کرآگے کام کرنے کے لائق نہ رہ جائیں ، یا ان کی حالت قابل رحم ہونے کے باوجود مارمار کر ان سے کا م لینا ، یا انہیں بھو کا پیاسا رکھ کر کام لینا یہ سراسر ظلم ہے۔ایک اور موقع پرآپ ۖ نے ایک اونٹ کو دیکھا جس کی پیٹھ اس کے پیٹ سے لگی ہوئی تھی۔
آپ نے فرمایا”ان بے زبان جانور وں کے معاملے میں اللہ سے خوف کھائوان پر ایسی حالت میں سواری کر و جب کہ یہ اس کے قابل اور صحت مندہوں اور انہیں اچھی حالت ہی میں (تھک کر چور ہونے سے پہلے ) چھوڑو”۔ جس طرح اپنے ماتحت انسانوںکو بھوکا پیاسا رکھنا گنا ہ ہے ، اسی طریقے سے جانوروں کو بھوکا پیاسا رکھنا گنا ہ ہے اور یہ سنگ دلی اسے جہنم تک پہنچا سکتی ہے، جیساکہ حضرت عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ۖنے فرمایا ”ایک عورت ایک بلی کی وجہ سے جہنم میں ڈالی گئی ، اس نے اسے باندھ رکھا تھا۔ نہ تو اس نے اسے کچھ کھانے کو دیا اور نہ اسے آزاد کیا کہ وہ (چل پھر کر) حشرات الارض میںسے کچھ کھالیتی”۔چہر ہ جسم کا نہایت لطیف اور حساس مقام ہے۔ اس عضو کو پہنچنے والی معمولی اذیت بھی بے حد تکلیف دہ ہوتی ہے۔
اہل عرب چوپایوںکے چہروںپر داغ لگاتے تھے اور بسا اوقات چہروں پر مار بھی دیا کرتے تھے۔ اللہ کے رسول ۖنے اس سنگ دلی کو دیکھا تو سختی سے روکا۔ (ابودائود:2564)حضرت جابر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ۖنے چہرے پر مارنے اور اسے داغ دینے سے سختی کے ساتھ منع فرمایا۔(مسلم:5551)۔ حضرت عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے کہ نبی کریم ۖ کا گزر ایک دفعہ ایک گدھی کے پاس سے ہوا ، جس کے چہرے کو داغا گیا تھا۔آپ نے دیکھا تو فرمایا :اس شخص پر اللہ کی لعنت ہو جس نے اسے داغا ہے”۔ (مسلم:5552)۔ ایک دفعہ آپ ۖصحابہ کے ساتھ کسی سفر کے پڑائو میں تھے۔آپ ضرورت سے کہیں تشریف لے گئے تھے،
ALLAH
جب واپس آئے تو دیکھا کہ ایک صاحب نے اپنا چولہا ایسی جگہ جلایا ہے جہاں زمین میں چیونٹیوں کا بل تھا۔ یہ دیکھ کر آپ نے پوچھا ‘ یہ چو لہا یہاںکس نے جلایا ہے’۔ ان صاحب نے کہا : یا رسول اللہ ! میںنے !آ پ نے فرمایا ‘اسے بجھائو، اسے بجھائو'(ابودائود:2675)(غرض یہ تھی کہ ان چیونٹیوں کو تکلیف نہ ہو اور کہیںوہ جل نہ جائیں۔ عربوں کا ایک دلچسپ مشغلہ تھا کہ وہ جانوروں کوآپس میں لڑاتے اور اس تماشے سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ا س میں جانور گھائل اور زخمی ہوکر بے حد تکلیف اٹھاتے تھے۔ رسول اللہ ۖنے اس درندگی کو دیکھا تو سختی کے ساتھ اس سے روکا ہے۔ (ابودائود:2562 )اسلام میں جانوروں کے حقوق کے سلسلے میں یہ واضح تعلیمات تھیں ،
جن سے یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ اسلام نے جانوروں کو کس قدر ہمدردی کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ بقول مولانا سید سلیمان ندوی : ”ان تعلیمات سے اندازہ لگا یا جاسکتا ہے کہ اسلام کے سینہ میں جو دل ہے وہ کتنا نرم اور کس قدر رحم وکرم سے بھر اہواہے”۔دنیا کو سب سے پہلے ”حقوق حیوان ” سے آشنا کرنے والا ”اسلام” ہی تھا، ورنہ اس سے پہلے ”حقوق حیواں” کا تصور دنیا میں نہیں تھا۔ ہو بھی کیسے سکتاتھا؟ جس دنیا میں”حقوق انسان” ہی کے لالے پڑے ہوں وہاں ”حقوق حیوان ”کا تصور ناممکن ہی تو تھا۔
ان حالات میں ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلام کے نام لیوا اسلام کی پاکیزہ تعلیمات کو دنیا کے روبرو پیش کر یں اور اس کا بے داغ اور صاف وشفاف آئینہ دنیا کے سامنے رکھ دیں ، کہ دنیا اس کی امن پسند تعلیمات کا مشاہدہ کر سکے۔
M A Tabassum
تحریر : ایم اے تبسم matabassum81@gmail.com 0300-4709102