کر لو جو کر نا ہے ؟

Socks

Socks

تحریر : ایم سرور صدیقی
خشونت سنگھ کی جرابوں سے بڑی سخت قسم کی بدبو آتی تھی وہ جہاں جوتا اتارتا دوسرے منہ پر رومال رکھ لیتے، کئی دوست رشتہ دارتھوکتے محفل چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوتے ایک مرتبہ اس کے سسرال میں شادی تھی بیوی نے خشونت سنگھ کو نئی جرابیں لاکر دیں اور بڑی تاکید سے کہا سردارجی! شادی میں یہی پہن کر آنا اور اس نے بھی سرہلا دیا لیکن جب خشونت سنگھ شادی میں گئے وہ جہاں بھی گئے لوگ اٹھ کر بھاگ کھڑے ہوئے بیوی دوڑی دوڑی آئی خشونت سنگھ سے ناراض ہوکر جھگڑنے کے انداز میں بولی آپ پھر پرانی جرابیں پہن کر آگئے ہو۔۔۔خشونت سنگھ نے بڑے آرام سے بوٹ اتارے اور بیوی کو کہا پہن کر تو میں نئی جرابیں ہی آیاہوں لیکن مجھے علم تھا تم یقین نہیں کروگی اس لئے میں پرانی جرابیں جیب میں ڈال کر لایاہوں۔۔۔لگتا ہے یہی کچھ حکومت عوام سے کرتی چلی آرہی ہے ہمیشہ کہا جاتاہے کہ بد سے بدترین جمہوریت بھی مارشل لاء سے بہتر ہوتی ہے اور جمہوریت میں پارلیمنٹ ہی بالا دست ہوتی ہے

لیکن کیا کریں ملکی اداروں، افسر شاہی اور سیاستدانوںکی کارکردگی کایقین دلانے کیلئے حکومت خشونت سنگھ کی طرح بدبو دار جرابیں دکھانے پر تلی رہتی ہے۔۔ ہمیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے جمہوری حکومتوں کو بھی پارلیمنٹ کی بالادستی مقدم نہیں کہنے کو تو بہت کچھ کہا جا سکتاہے لیکن اس بات کا کسی کے پاس جواب ہے کہ دن رات جمہوریت ۔۔جمہوریت کا راگ الاپنے کے باوجود پٹرولیم مصنوعات پر 27 % ٹیکس کس خوشی اور کون سی پارلیمنٹ کی اجازت سے لایا گیا۔۔۔اب کا بینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوںمیں کمی سے ہونے والے اثرات کوپورا کرنے کیلئے فرنس آئل کی در آمدپر5 % ریگولیٹری ڈیوٹی لگانے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ ڈیری مصنوعات، چاکلیٹ، مشروبات ، کا سمیٹکس، ماربلز، ڈبے میں پیک کھانے پینے کی اشیائ، مکینکل آلات، ریفریجریٹر، ایئر کنڈیشنز، پنکھے اور دیگر الیکٹرونکس اشیاء سمیت 200 چیزوںپر مزید ٹیکس لگانے کی منظوری دیدی ہے۔

اس سے پہلے بھی حکومت گذشتہ ششماہی کے دوران کئی منی بجٹ لا چکی ہے شاید حکومت یہ چاہتی ہے کہ اس ملک کا بچہ بچہ جمہوریت کے فیوض و برکات سے روشناس ہو جائے۔۔۔تیسری دنیا اورترقی پذیر بیشترممالک میں جمہوریت عوام سے یہی سلوک کرتی ہے شاید پاکستان میں عوام کا حال سب سے پتلا ہے کیونکہ یہاںتو ملک مکا کی سیاست کانام جمہوریت رکھ دیا گیاہے عوام پر ٹیکسز لگانے، بجلی،پٹرول مہنگا کرنے یا شیڈولڈبینکوںکے ٹیرف میں تبدیلی کیلئے پارلیمنٹ سے پوچھنے کا تکلف بھی نہیں کیا جاتا۔۔اس سے مہنگائی کا طوفان آنا ایک یقینی بات ہے جو مہنگائی اور بیروزگاری کی ستائی عوام کیلئے تازیانے سے کم نہیں ۔پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر منی بجٹ لانا اور20ارب کے نئے ٹیکسز عائد کرنے کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ ایک جمہوری حکومت کے وزیر ِ اعظم، وزیروں مشیروں کے بارے میں یقین سے کہا جا سکتاہے کہ انہیں عوام کی پرواہ ہے نہ آئین کی پاسداری کا خیال اور نہ ہی جمہوری روایات کااحساس۔

Parliament

Parliament

ایسے ماحول میں جمہوریت اور پارلیمنٹ کی بالادستی کا خواب پورا ہونا ممکن ہی نظر نہیں آتا۔یہ سب عوام کے بنیادی حقوق کے منافی اور آئین ِ پاکستان کی کھلی خلاف ورزی ہے اس کے باوجود کسی حکمران کے سر پر جوں تک نہیں رینگتی یہ بھی سننے میں آرہاہے پاکستان کے بڑے بڑے سیاستدانوں، بیوروکریٹس ،جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے غیرملکی بینکوںمیں کئی سو ارب ڈالر موجود ہیں ۔۔پاکستان میں اب توسینکڑوں کی تعدادمیں خاندان ایسے ہیں جو” جمہوریت ”کے بل بوتے پر پھل، پھول اور پھیل گئے ہیں جبکہ عام آدمی کی زندگی دن بہ دن اجیرن ہوتی جارہی ہے جمہوریت کے باعث فائدہ عوام کاہونا چاہیے لیکن یہاں تو الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔۔۔ سناہے ایک صاجب موت سے بہت ڈرتے تھے یہاں تک کہ گھر میں لفظ موت کہنا بھی ممنوع تھا اگر محلے میں کوئی وفات پا جاتا تو کہا جا تاوہ پیدا ہو گیاہے ایک روز ان کے گھر مہمان آیا ہوا تھا وہ اپنے میزبان کی اس بات سے بے خبر تھا ابھی دونوںکے درمیان بات چیت جاری تھی کہ ملازم زور زور سے روتا ہوا آیا۔۔مالک نے رونے کی وجہ دریافت کی تو وہ بولا میرے ابا پیدا ہوگئے ہیں

مہمان نے حیرانگی سے پوچھا ۔۔اور تمہاری اماں؟ وہ تو۔۔۔ملازم نے روتے روتے جواب دیا تین سال پہلے پیدا ہوگئیں ہی تھیں مہمان نے آنکھیں پھاڑ کر پھر پوچھا۔۔۔تم کب پیدا ہوئے؟۔۔۔ نوکر نے آبدیدہ ہوکر کہا صاحب اگر یہی حال رہا تو ایک دن میں بھی پیدا ہو جائوں گا۔۔۔ لگتاہے یہی انداز ہمارے حکمرانوں کاہے جنوں کا نام خرد رکھ دیا خرد کا جنوں جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ سازکرے پاکستان جیسے ملک میں عوام نے بہت دھوکے کھائے ہیں کبھی اسلام، کبھی سوشلزم، کبھی آمریت اور کبھی جمہوریت کے نام پر۔۔۔بیچاری عوام تو ہر آنے والے حکمران کو اپنا نجات دہندہ سمجھ بیٹھی لیکن کوئی ان کی امیدوں پر پورا نہیں اترا ۔۔۔ حکمران کبھی خسارے کا سودانہیں کرتے ایک ہاتھ سے لے کر دوسرے ہاتھ سے واپس لینے کے انہیں 101 طریقے ازبرہیں ہمارا جمہوریت پر اعتقاد ہے ۔۔ جمہوری اداروں پر یقین اور سیاستدانوںکے ارشادات سر آنکھوں پر۔۔۔

Democracy

Democracy

لیکن جمہوریت کی بالا دستی خشونت سنگھ کی جرابوںکی طرح دکھا تی دیتی ہے۔۔ کیا ممکن ہے حکمران کوشش دل سے کریں تو شاید عوام تک جمہوریت کے ثمرات پہنچ پائیں توعام آدمی کو کچھ ریلیف مل سکتاہے پاکستان کی 65سالہ تاریخ میں آتی جاتی اور دم توڑتی جمہوریتوں کے دوران کسی بھی حکمران نے عوام کے لئے صدق ِ دل سے کوئی کوشش نہیں کی ہرکسی نے اپنا اقتدار مضبوط بنانے کیلئے بھرپور وسائل استعمال کرنے سے گریز نہیں کیا اسی لئے مسائل حل نہیں ہو سکے۔۔۔سوال یہ ہے کہ اگر جمہوری ادوارمیں بھی عوام کا کوئی پرسان نہیں تو ایسی جمہوریت پر کون یقین کرنے کی جسارت کرے گا۔ کیا سیاست عوام پر حکمرانی کرنے کا نام ہے؟ کل شیدا میدے کو ناک سکوڑکر کہے جارہاتھا اب تو کو بہ کو ہر خاص و عام کے علم میں ہے کہ پاکستان میں سینکڑوں کی تعدادمیں خاندان ایسے ہیں جو” جمہوریت ”کے بل بوتے پر پھل، پھول اور پھیل گئے ہیں جبکہ عام آدمی کی زندگی دن بہ دن اجیرن ہوتی جارہی ہے

آخر کب تلک جمہوریت کے نام پر عام آدمی سے یہ سلوک ہوتا رہے گا۔۔۔ آخر کب تک؟ الٹی گنگا بہتی رہے گی۔۔۔آخر کب تک اس ملک میں پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر منی بجٹ آتے رہیں گے اور حکمران عوام کو سبز باغ دکھا دکھا کر طفل تسلیاں دیتے رہیں گے۔۔بے چارے میدے کے پاس کسی سوال کا جواب نہیں تھا شاید ہمارے قابل ترین وزیر ِ خزانہ اس معاملہ پر بہتر روشنی ڈال سکتے ہیں لیکن پھر خیال آتاہے اگر ان کے پاس ٹارچ ہی نہ ہوئی تو پھر وہ کیا کریں گے؟ ہمارا مشورہ ہے کہ خشونت سنگھ سے ادھار لے لیں ہم اس سال پھر اربوں روپے IMFسے سودپر لے کر اتراتے پھرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ حکومت نے کمال کر دیا دراصل ۔۔۔اصل کمال تو 200 چیزوںپر مزید ٹیکس لگانے کا فیصلہ ہے وہ بھی پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر۔۔۔ دوسرے لفظوں میں یہ بھی کہا جا سکتاہے بھاڑ میں جائے پارلیمنٹ کی منظوری ۔۔۔ہم من مانی کرنے سے باز نہیں آسکتے ۔۔کرلو جو کرناہے۔۔۔

M Sarwar Siddique

M Sarwar Siddique

تحریر : ایم سرور صدیقی