دہشت گردی کے الزام میں اٹلی میں دس پاکستانی گرفتار

Italy Terrorist Arrest

Italy Terrorist Arrest

تحریر : وسیم رضا
ا ٹالین پولیس نے گزشتہ ہفتے کے دوران ایک بڑا اپریشن کر کے اٹلی کے مختلف شہروں سے 10 دس پاکستانیوں کو گرفتار کیا ہے اور امکان ظاہر کیا ہے کہ ان کا تعلق پشاور آرمی سکول پر ہونے والے حملے سے ہو سکتا ہے ، اگر ان گرفتار افراد کا پشاور حملے میں میں ملوث ہونا ثابت ہو گیا تو ا ٹلی میں رہنے والے پر امن تارکین وطن پاکستانیوں کے لئے کئی پچید گیا ں اور مشکلات کھڑی ہو سکتی ہیں۔ ، نوجوان پاکستانی عثمان ریان خان کو دہشت گردی ایکٹ کے تحت وزارت داخلہ کے خصوصی آرڈر کے تحت ا ٹلی سے پاکستان ڈی پورٹ کرنے کے واقعہ کو بھی ابھی زیادہ دن نہیں گزرے کہ دس پاکستانیوں کو دہشت گردی کے لئے فندز اکٹھے کرنے اور و یٹی کن سٹی روم میں دھماکوں کی پلاننگ کے الزام میں حراست لیا گیا ہے۔ گرفتار افراد میں افغانی بھی شامل ہیں پاکستانی ایمبیسی روم ان افراد کی شناخت کے حوالے سے ا ٹالین حکومت کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہے۔ جس کی اپ ڈیٹس تا حال موصول نہیں ہو سکیں۔

اتالین اخبارات نے ان افراد کے خلاف ہونے والے آپریشن کو تشویش اور سراسیمگی کے تا ثر کے ساتھ شائع کیا ہے اور ویڈیوز جاری کیں ہیں۔ اطالوی اخبارات کے مطابق ا ٹلی کے جنوبی علاقے کے جزیرے ساردینیا SARDEGNA سے انتالیس سالہ پاکستانی سلطان ولی خان کو حراست میں لیا گیا جو اولبیا OLBIA شہر میں ایک مسجد کا نظام چلا رہا تتھا ، کام کاج کے اعتبار سے وہ جنرل آ ئٹمز پر مشتمل بازار ٹائپ کی ایک دکان کا مالک تھا۔ ولی خان پاکستانی کمیونٹی کا رہنما سمجھا جاتا تھا۔ تفتیشی حکام کا کہنا ہے کہ ساردینیا کے جزیرے پر جو اسلامی شدت پسندوں کا جو گروہ متحرک تھا ولی خان ان میں سے ایک ہے۔

ایک معروف اٹالین اخبار IL MESSAGGERO نے یہ بھی لکھا ہے اس کاروائی کا دائرہ وسیع ہونے پو بیرگامو شہر DERGAMO سے ایک اور پاکستانی تینتالیس سالہ حافظ محمد زولفقار کو گرفتار کیا گیا ہے جو ایک مسجد کا امام ہے۔ یہ دونوں افراد جمع شدہ فنڈز کو دیگر متعلقہ افراد تک پہنچانے پر مامور تھے۔ ان کے دیگر ساتھیوں میں او لبیا شہر کا بچالیس سالہ امتیاز خان ، اکتالیس سالہ نیاز میر، اور سینتیس سالہ محمد صدیق شا مل ہیں۔ علاوہ ازیں فوجا شہر FOGGIA سے سینتیس سالہ ا فغانی یحی خان ریدی، سورا SORA ,FRSINONEشہر سے باون سالہ حق زاہر اوئی، ماچراتا CITTA NOVA MARCHE ,MACERATA سے سینتیس سالہ زبیر شاہ اور ستاون سالہ شیر غنی بھی حراست میں لئے گئے۔

Law

Law

علاوہ ازیں ، دیگر نو 9 مطلوب افراد کی تلاش میں چھاپے مارے جارہے ہیں جن میں تین ابھی تک یہاں روپوش ہو سکتے ہیں جبکہ باقی ا ٹلی سے فرار ہو چکے ہیں ۔ گرفتار شدہ افراد میں سے دسویں اور آ خری مطلوب شخص کو مچراتا شہر سے گرفتار گیا ، جس کی عمر چھیالیس سال ہے، لیکن نام ظاہر نہیں کیا گیا۔بتا یا گیا ہے کہ قانوں نافذ کرنے والے اداروں اور تفتیشی ٹیموں نے ایسی کالز ٹیپ کی تھیں جن سے انکشاف ہوا تھا القاعدہ نیٹ ورک اٹلی کے مختلف شہروں میں متحرک ہے اور اس کے ارکان اٹلی کے شہر ویٹی کن سٹی کو ٹارگٹ کر کے وہاں بم دھماکے کرنے کا پلان بنا رہے ہیں ، واضح رہے کہ پوری دنیا اور اطالوٰ ی قوم ویٹی کن سٹی کو د عسائیت کا مرکز اور مقدس شہر سمجھتی ہے۔ پولیس چیف ماورو MAURO MURA کے مطابق اٹلی میں دو ہزار دس سے پاکستانی شدت پسندت متحرک ہونا شروع ہو گئے تھے ، اٹلی میں دہشت گردی اور حملوں کی پلاننگ پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ویٹی کن سٹی کے سیکریٹری پارولن PAROLIN نے کہا ہے کہ ہم سب خوف میں مبتلا ہیں لیکن پاپا کو کو ئی ڈر اور خوف نہیں وہ پر سکون ہیں ، تاہم ہمیں محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔

ْاٹلی کی خفیہ ایجنسیوں ڈی گوس اور ساساری DIGOS & SASSARI کی انوسٹیگیشن کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ اس دہشت گرد تنظیم کا ہیڈ کوارٹر یا مرکز جزیرہ ساردینیا میں ہے، اس گروہ کا رابطہ اور تعلق اس گروپ سے ہے جو اسامہ بن لادن کو طویل عرصہ تک پاکستان میں تحفظ فراہم کرتا رہا۔ تفتیش کے بعد یہ بات بھی سامنے آئی کہ اٹلی میں کام کرنے والے گروپ کا مقصد یہ تھا کہ پاکستانی حکومت کو اس حد تک زچ کر دیا جائے کہ وہ طالبان کیلئے نرم گوشہ پیدا کرے تاکہ وہ ا فغانستان میں لڑنے وا لے امریکی فوجیوں کو آسانی سے نشانہ بنا سکیں ۔ بعض زیر تفتیش افراد پاکستان میں دہشت گردی کی کاروائیوں میں بھی ملوث پائے گئے، 28.10.2009 میں پشاور کے مینا بازار میں ہونے والے دھماکوں میں بھی ان کا ہاتھ تھا ان دھماکوں میں سو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

ایک اور اطلاع کے مطابق پشاور آرمی سکول پر حملوں میں بھی ان لوگوں یا ان کے گروہ کا ارکان کا ہاتھ ہو سکتا ہے ۔ تفتیش کے بعد مزید پتہ چلا کہ پاکستانی اور ا فغانی شمالی یورپ کے ملکوں سے اٹلی اپنی کارو ائیاں جاری رکھنے کئے رہائش پزیر ہو جاتے تھے ، اٹلی میں ڈاخل ہونے کے لئے کام کرنے کے کنٹریکٹ، راہداری ویزا ، پولیٹیکل اسائلم، جعلی ڈاکومنٹس کے حربے استعمال تھے۔ اپنے ارکان کے لئے یہ دہشت گرد آرگنائزیشن مکمل راہنمائی کے علاوہ مالی وسائل بھی مہیا کرتی تھی، پولٹیکل اسائلم لینے کا طریقہ، ٹیلی فون اور اس کی سموں SIMS سمیت دیگر آلات کی حوالگی اور ہتھیاروں کے استعمال و ٹریننگ کے لئے پاکستان اور افغانستان بھیجنا اور واپس اٹلی میں داخل ہونے کا بندوبست کرنا بھی ان کے نیٹ ورک کا حصہ تھا۔

Pakistan

Pakistan

اخبار کے مطابق تفتیش کے نتیجے میں یہ انکشاف بھی ہوا کہ تبلیغی جماعت کا ایک زمہ دار یا عہدیدار فنڈز جمع کرنے میں ملوث تھا ۔ جو اپنے ارکان کے زریعے ائیرپورٹ اور کسٹم قواعد کی خلاف ورزی کر کے رقوم پاکستان منتقل کرتا تھا۔ مثلا روم سے اسلام آاباد جانے والی ایک فلائٹ میں ایسا ہی واقعہ پیش آیا جس میں ایک شخص پچپن ہزار دو سو ارسٹھ یورو 55.268 euro اپنے ساتھ لے کر جا رہا تھا لیکن کنٹرول ہونے پر وہ یہ ثابت نہ کر سکا یہ پیسے اس نے کہاں سے لئے ہیں ؟ اس شخص کا کہنا تھا کہ یہ پیسے مختلف لوگوں کے ہیں جو انھوں نے امانت کے طور پر میرے حوالے کئے گئے ہیں ۔ جو میں ان کے وار ثو ں تک پہنچا نا چاہتا تھا ۔پاکستانی سفارت خانہ روم اور پاک قونصلیٹ میلان کا وطیرہ ہے کہ وہ پاکستانی کمیونٹی ا ٹلی کے متعلق ایشوز پر اپنا موقف د ینے کی کبھی بھی زحمت گوارا نہیں کرتے۔

ان دونوں اداروں کی نظر میں ا ٹلی کی اردو صحافت کی کوئی اہمیت نہیں ، نہ وہ ا ٹلی کے پاکستانی صحافیوں سے رابطے میں رہنا پسند کرتے ہیں یوں قدرتی طور پر ان کے کمیونٹی کی بہتری کے لئے اقدامات کا ثمر ضائع ہو جاتا ہے۔ پوچھنا یہ ہے کہ بیرون ملک کام کرنے والے مہذب ملکوں کے سفارتی اداروں کی طرح ہمارے ان اداروں نے کبھی کسی اہم ایشو پر پریس ریلیز جاری کی، کوئی پریس کانفرنس منعقد کروائی؟ یہ ادارے کیوں نہیں سمجھتے ان کی جانب سے صحافیوں کو فراہم کی جانے والی معلومات سے نہ صرف کمیونٹی کو رہنمائی ملتی ہے بلکہ نازک معاملات پر ان کی تشویش بھی کم یا ختم ہو جاتی ہے،، میلان قونصلیٹ کے نئے قونصل جنرل ندیم خان نے حالیہ دنوں میں پہل کی ہے اور کمیونٹی کے ساتھ آگے بڑھ کر خود رابطہ کر کے ایک چونکا دینے والا خوشگوار اقدام کیا ہے،

عزت مآب ندیم خان کے اس اقدام کو ا ٹلی کے اردو صحافتی حلقوں میں بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے، کیا قونصل جنرل ندیم خان ، ویلفئر اتاشی ڈاکٹر اختر عباس کو پابند کریں گے کہ وہ مزکورہ بالا دس گرفتار پاکستانیوں تک رسائی حاصل کر کے کمیونٹی کو اگاہ کریں گے ا صل حقا ئق کیا ہیں ؟ پاکستان ایمبیسی روم کی تو بات ہی الگ ہے ، سفارت خانے سے جب بھی کسی نازک مسئلے پر ان کی رائے لینے کی کوشش کی گئی تو یہی بتایا گیا کہ عملہ رات گئے تک کام کرتا رہا لیکن دن رات کام کرنے کا نتیجہ کیا نکلا اس کے متعلق بتانا کبھی گوارا نہ کیا گیا۔

Wasim Raza

Wasim Raza

تحریر : وسیم رضا