تحریر : محمد کاشف رانا پاکستان طویل عرصہ سے چین کے ساتھ دوستی کو ہمالیہ سے بلند اور سمندرسے گہری کہتا آرہاہے اوراب تو ایک وفاقی وزیر نے اس دوستی کو شہد سے میٹھی کہہ دیاہے جس کی مثال چینی صدر کا حالیہ دورہ پاکستان ہے اس دورے میں صدر شی جن پنگ نے پاک چین دوستی کو ترقی کی نئی راہ دکھلادی ہے ہماراملک پاکستان جس کے زرمبادلہ کے ذخائر بمشکل 15ارب ڈالر ہیں یعنی ہماری کل دولت جس پر پاکستان چل رہا ہے 15ارب ڈالرہے۔ جبکہ صدر شی جن پنگ نے ہمیں ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر سے تین گنازائد منصوبے دے دئیے ہیں چین کی پاکستان مین اتنی بڑی سرمایہ کاری کے بعد کوئی وجہ نہیں کہ ہم معاشی ٹائیگربنتے ہویئے سودی شکنجوں سے جان چھڑالیں۔
میں سمجھتا ہوں پاکستان میں چینی صدر کادورہ جان بوجھ کر لیٹ اس لیے کیاگیاتاکہ پاکستان میں دہشت گردی کا جو ماحول ہے اسے ختم کردیا جائے اور پھر چین کے صدر دورہ کریں۔ چنانچہ ضرب عضب کے تحت جنرل راحیل شریف کے ویژن اور زور دار کردار نے پاکستان کو امن کی شاہراہ پر لاکھڑا کیاہے آرمی چیف نے بلوچستان میں مداخلت کرنے والی طاقتوں کو بھی وارننگ جاری کردی ہے یوں امن کی شاہراہ بنانے کے بعدصدر شی جن پنگ نے اقتصادی شاہراہ کا سنگ بنیاد رکھ دیایہ حکومت کی بھرپور منصوبہ بندی ہے جس کی وجہ سے پاکستان کے عوام کے لیے روشنی کے فانوس جگمگ کرتے نظر آئیںگے، جن کا خواب وہ ایک عرصہ سے دیکھتے چلتے آرہے ہیں۔
چینی صدر کا دوروزہ دورہ بخیروعافیت اختتام پذیرہوناایک بڑی کامیابی ہے ان دو دنوں میں محض اسلام آباد ہی نہیں پورے ملک کے کسی بھی شہر یاعلاقے میں کو ئی ناخوشگوارواقعہ پیش نہیں آیاجہاں اس بات کا ثبوت ہے کہ صدرشی جن پنگ کے دورہ کے موقع پر ملک بھرکی سیکیورٹی ایجنسیوں کا تشکیل کردہ امن و امان برقرار رکھنے کا ایکشن پلان کامیاب رہاوہاں اس سے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا جاسکتاہے کہ دہشت گردی کے خلاف پاک فوج کی کاوشیں اور قربانیاں رنگ لارہی ہیں، چنانچہ اس اہم موقع پر دہشت گردوں اور انتہاپسندوں کو اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کا موقع مل نہ سکا اور یہ کہ تھوڑی سی توجہ دے کر حالات کو مزید اطمینان بخش بنایا جاسکتاہے اور جس سے لوگوں کا احساس تحفظ بحال کیا جاسکے ۔پاکستان اور چین کے مابین پچا س سے زیادہ منصوبوں اور یاداشتوں پر دستخط یقینا ایک تاریخی پیش رفت ہے اس سے پہلے جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔
Nawaz Sharif
یہ یقیناقومی سطح پر حوصلے اور خوشی کے لمحات ہیں لیکن اگر بغور جائزہ لیا جائے تو یہ پاکستان کے حکمرانوں کا امتحان اور آزمائش بھی ہے کیونکہ ان منصوبوں کی بر وقت تکمیل کے لیے ملک کے اندر سیاسی استحکام ناگزیرہے اس کی سب سے زیادہ ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے کہ وہ سبھی سیاسی قوتوں کو ساتھ لے کر چلے۔ویسے بھی مناسب ہوگا کہ سیاسی اختلافات کو فی الوقت بالاطاق رکھ دیاجائے اور چین کی سرمایہ کاری کا جونادرموقع ہاتھ آیاہے اس سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی کو شش کی جائے اس کے علاوہ سول ملٹری تعلقات بھی دوبارہ خراب نہیں ہونے چاہئیںیہ بات درست کہ سول حکومت نے آپریشن ضرب عضب کی حمایت کی
لیکن دہشت گردی جسے ناسورکے خاتمے کا سہراپاک فوج کے سر بندھتاہے،چنانچہ یہ طے ہے کہ سول حکومت اور پاک فوج ایک پیج پر رہیں تو نتیجہ میں نہ صرف پاک چین منصوبوں،خاص طور پر اکنامک کوریڈورکی تکمیل آسان ہوجائے گی،بلکہ دہشت گردوں کو پھر سے سر اٹھانے کا مو قع نہیں ملے گا اس طرح امن کو استحکام مل سکے گا۔اس حقیقت کو بھی نظراندازنہیں کیاجاناچاہیئے کہ پاکستان کی ترقی سے جلنے والے اوراس کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے والے چند مْٹھی بھر عناصر ان بیش قدر معاہدوںپرچین سے نہیں بٹھیں گے
بلکہ ان کے لیے جہاںممکن ہوگاان معاہدوں کو سبوتاژکرنے کی کوشش کریںگے تاہم ان سازشوں سے وطن عزیزکو محفوظ رکھناہے اگرہم ان ساری رکاوٹوںپر قابوپانے میںکامیاب ہوگئے تو پورے یقین سے کہاجاسکے گاکہ پاکستان میںتعمیروترقی کے نئے دورکاآغازہونے جارہاہے وہ ترقی جس کے خواب مملکت پاکستان کے حصول کی جدوجہدمیںحصہ لینے والوںنے اپنی آنکھوںمیں سجائے تھے۔