جوڈیشل کمیشن کے تین سوال

Supreme Court

Supreme Court

تحریر : پروفیسر رفعت مظہر
الیکشن 2013ء میں دھاندلی کی تحقیقات کرنے والے سپریم کورٹ کے جوڈیشل کمیشن نے سیاسی جماعتوں کے لیے ایک سوالنامہ تیارکیا جس کا29 اپریل (آج)تک جواب مانگاہے ۔یہ سوالنامہ تین سوالات پر مشتمل ہے ۔پہلاسوال یہ کہ 2013ء کے انتخابات شفاف ،غیرجانبدارانہ اورمنصفانہ تھے یانہیں،اگرشفاف نہیںتھے تواِس کی وجہ کیاہے؟۔۔۔دوسراسوال یہ کہ کیا الیکشن 2013ء میںمنظم طریقے سے دھاندلی کی گئی؟ اگرایسا ہے تویہ منصوبہ کس نے بنایا؟، منصوبہ کیاتھا ،منصوبے پرعمل درآمد کس نے کیااور عمل درآمدکے لیے کیاطریقِ کاراختیار کیاگیا؟۔۔۔ تیسراسوال یہ کہ کیادھاندلی صرف قومی اسمبلی کی نشستوںپر کی گئی یااِس میںصوبائی اسمبلیاںبھی شامل تھیں۔ اگرصرف قومی اسمبلی کے حلقوںمیں دھاندلی ہوئی توکیا چاروںصوبوں میںہوئی یاکچھ مخصوص صوبوںمیں؟۔ تحقیقاتی کمیشن نے ان تمام سوالوںکے جوابات ثبوتوںسمیت مانگے جس پرہمارے کپتان صاحب نے ”تَپ کر”صاف کہہ دیاکہ گزشتہ دو سالوںسے ثبوتوںکی ساری بلیاںتھیلوںمیں بند”میاؤںمیاؤں”کررہی ہیں لیکن کوئی انہیںباہر نکالنے کوتیار ہی نہیں تحریکِ انصاف نے جلسے کیے ،جلوس نکالے ،دھرنے دیئے ،لیکن مجال ہے جوکسی کے کان پرجوں تک رینگی ہو۔

اگرتحریکِ انصاف نے عبد الحفیظ پیرزادہ کی جگہ ہماری خدمات حاصل کی ہوتیں توہم وہیںکھڑے کھڑے جوڈیشل کمیشن کوسارے سوالات کے جوابات دے دیتے ۔ہم کہتے کہ اگر 2013ء کے انتخابات شفاف ہوتے توہمیں126 دنوںتک ڈی چوک اسلام آبادکو ”گندہ”کرنے کی کیاضرورت تھی اوریہ جوہم نے نقدڈیڑھ لاکھ صفحات جوڈیشل کمیشن میںجمع کروائے ہیںکیایہ بَس ”ایویںای”ہیں؟۔نوازلیگ لاکھ کہے کہ یہ تواِدھراُدھر سے اکٹھی کی گئی ”ردی” ہے لیکن ہم جوڈیشل کمیشن سے استدعاکرتے ہیںکہ وہ”ثبوتوںوالے”اِن قیمتی صفحات کاغور سے مطالعہ کرے ،کمیشن کوسارے ثبوت مل جائیںگے کیونکہ ہمارے کسی بھی ”ثبوت”نے سلیمانی ٹوپی نہیںپہن رکھی جوکسی کونظر نہ آئے ۔ہم یہ بھی برملا کہہ دیتے کہ اگرمعزز جوڈیشل کمیشن کواِن ڈیڑھ لاکھ صفحات کے مطالعے کے لیے وقت درکارہے توہم ”کھُلاوقت” دینے کوتیار ہیںالبتہ یہ استدعاضرورکہ الیکشن 2018ء سے پہلے اِن صفحات کامطالعہ ضرورکر لیاجائے۔

رہی انتخابات شفاف نہ ہونے کی وجہ ۔۔۔وجہ توصاف ظاہرہے کہ جس وزارتِ عظمیٰ کاتاج ہمارے کپتان کے سَرپر سجنا چاہیے تھا ،اُسے کوئی اور لے اُڑا اورہم ”نیاپاکستان” بناتے بناتے رہ گئے۔ یہاںیہ بتانابھی ضروری ہے کہ صرف ہم ہی ہیںجودلی دردکے ساتھ ملک وقوم کی بہتری چاہتے ہیںلیکن ایک گھناؤنی سازش کے تحت ہمیںایوانِ وزیرِاعظم سے کوسوںدور کردیا گیا جوہمارانہیں ، ملک وقوم کانقصان ہے۔۔۔دوسرے سوال کاجواب یہ ہے کہ الیکشن 2013ء میںانتہائی منظم طریقے سے دھاندلی کی گئی ۔اِس سوال کے دوسرے حصّے میںیہ پوچھا گیاہے کہ منصوبہ کیاتھا ،کس نے بنایا،کس نے عمل درآمدکیا اور عمل درآمدکے لیے کیاطریقِ کاراختیار کیاگیا؟۔دھاندلی کامنصوبہ توصاف ظاہرہے کہ اقتدارکے ایوانوںتک پہنچناتھاالبتہ” منصوبہ ساز” ایک نہیںبلکہ کئی تھے ۔ہم کہتے ہیںکہ پنجاب میںدھاندلی کامنظم منصوبہ نوازلیگ نے بنایا،نوازلیگ کہتی ہے کہ سندھ میں پیپلزپارٹی اورایم کیوایم منصوبہ سازتھیں،

Fazlur Rehman

Fazlur Rehman

مولانافضل الرحمٰن اوراے این پی والے ہروقت یہ ”رَولا” ڈالتے رہتے ہیںکہ خیبرپختونخوامیں تحریکِ انصاف نے الیکشن کی شفافیت کوداغدار کردیا البتہ بلوچستان کے بارے میںسبھی سیاسی جماعتوںنے ”ہَتھ ہَولا” ہی رکھاہوا ہے دھاندلی منصوبے پرعمل درآمدکے لیے اختیارکیے گئے طریقہ ہائے کاربھی ”وَکھووَکھ” ہیںجِس کی تحقیقات جوڈیشل کمیشن کے ذمہ ہے ۔ویسے بھی اگرسارا کچھ ہم نے ہی کرناہے توپھر تحقیقاتی کمیشن کی ضرورت ہی کیاہے ۔۔۔تیسرے سوال کاجواب یہ کہ یوںتو دھاندلی سوائے خیبرپختونخوا کے ہرجگہ اورہر حلقے میںہوئی لیکن پنجاب میںتو دھاندلی نہیں ”دھاندلے”ہوئے اِس لیے ہمارافوکس صرف پنجاب پرہے۔

ویسے بھی جوپنجاب جیتے ،وہی پاکستانی سیاست میں”مقدرکا سکندر”کہلاتا ہے اور”اقتدار کاہما” اُسی کے سَرپربیٹھتاہے اِسی لیے ہم پنجاب میںہونے والے ”دھاندلوں”پر نوحہ خواںہیں۔ معززجوڈیشل کمیشن سے بھی استدعاکہ وہ بھی صرف پنجاب کوہی فوکس کرے کیونکہ ظلم صرف ہمارے ساتھ ہواہے اورجوڈیشل کمیشن میںپہنچنے والے باقی سبھی لوگ توبَس ”ایویںای بیگانی شادی میں عبد اللہ دیوانے”ہیں۔

معاملہ چونکہ جوڈیشل کمیشن میںہے اورہمارے کپتان صاحب نے بھی بَرملا کہہ دیاہے کہ جوڈیشل کمیشن جوبھی فیصلہ کرے ،اُنہیںقبول ہوگا اِس لیے اِس موضوع کویہیں چھوڑتے ہوئے کچھ بات خیبرپختونخواہ میںآنے والے طوفانِ بادوباراں کی ۔عرض ہے کہ دنیامیں آنے والے طوفانوںکو پانچ کیٹگریزمیں تقسیم کیاگیا ہے کیٹگری وَن کم ترین طوفان کوظاہر کرتی ہے جبکہ خیبرپختونخوا میںآنے والاطوفان کیٹگری وَن سے بھی کم تھا لیکن پھربھی 45 جانیںچلی گئیںاور ہسپتال زخمیوںسے بھرگئے۔

Beggar

Beggar

وجہ یہ کہ مفلسی کے ماروںکے گھر محل نہیں،جھونپڑے ہوتے ہیںاوربوسیدگی کایہ عالم کہ ذراتیز ہوابھی چلے تولرزنے لگتے ہیں۔ریحام خاںکہتی ہیںکہ محکمہ موسمیات نے اگربَروقت اطلاع دی ہوتی تومالی نقصان جوہوتا ،سوہوتا لیکن انسانی جانیںبچائی جاسکتی تھیں ۔یہ بَروقت اطلاع نہ ملنے کاشاخسانہ ہے کہ اتنی جانوںکا زیاںہوگیا جبکہ محکمہ موسمیات کاکہنا ہے کہ وہ توجمعے کوہی طوفان کی اطلاع دے چکے تھے اورخیبرپختونخوا حکومت کوہفتے کوبھی بتلایاتھا ۔خیرجوہوا سوہوا ،یہ ایک اندوہناک حادثہ تھاجس سے کئی گھروںکے چراغ گُل ہوگئے ۔سوال مگریہ کہ مَوجِ خوںسَر سے گزر جانے کے باوجودبھی خیبرپختونخوا کی حکومت کہاںتھی؟۔ ریحام خاںنے کہاکہ عمران خاںصاحب جوڈیشل کمیشن میںمصروف تھے اِس لیے نہیںپہنچ سکے اوراُن کی جگہ وہ خودآگئی ہیں۔

عرض ہے کہ ذمہ داری ریحام خاںکی تھی نہ عمران خاں صاحب کی ،ذمہ داری تو خیبرپختونخوا حکومت کی تھی جس کے سربراہ جناب پرویزخٹک ہیں۔دھرنوںکے دنوںمیں بھی پشاورمیں طوفان آیاتھا تب بھی لوگ طوفان کے ہاتھوںمرتے رہے اورخٹک صاحب دھرنے میںڈانس کرتے رہے ۔اب بھی جب خٹک صاحب جب 22 گھنٹوںکے بعدلیڈی ریڈنگ ہسپتال پہنچے توصحافیوں نے اُن سے بَروقت نہ آنے کی وجہ پوچھی ،

جس پر”ماڑی جان”پرویزخٹک نے غصے سے لال پیلے ہوتے ہوئے کہا ”میںڈاکٹر ہوںنہ ایڈمنسٹریٹر ،میرے وزیراور دوسرے لوگ یہاںپہنچے ہوئے ہیں ۔میںکسی کے کہنے پرنہ کہیںجاتا ہوںنہ آتا۔میرااپنا پروگرام ہوتاہے”۔خٹک صاحب نے بالکل بجاکہا کیونکہ ہوتاہوگا کہیںاور ”قوم کاسردار ،قوم کاخادم”۔ہمارے ہاںتو قوم کے سردارایسے ہی ہوتے ہیںجیسے پرویزخٹک صاحب۔

Prof Riffat Mazhar

Prof Riffat Mazhar

تحریر : پروفیسر رفعت مظہر