تحریر: قاضی کاشف نیاز ملکوں اور قوموں کی زندگی میں مختلف اور متضاد نظریات کے ملکوں کے ساتھ سیاسی مددو حمایت اوراتحاد کا سلسلہ ہمیشہ بنتا بگڑتا رہتا ہے۔ ہر ملک و قوم اپنے سیاسی اور ملکی مفاد کے لیے آج کسی ایک ملک کی اتحادی وحامی ہے توکل کلاں یہ اتحاد وحمایت کاپلڑا اس کے بالکل متضاد کسی دوسرے ملک کے حق میں بھی جھک سکتاہے۔کسی ایک مشترک مسئلے پرکسی متضاد نظریے کے حامل ملک سے وقتی سیاسی اتحاد سے کوئی اس ملک یااس کی قیادت کے بارے میں حتمی نتیجہ اخذ کرے تو سیاسیات وعمرانیات کے ماہرین اسے کبھی درست تجزیہ قرار نہیں دے سکتے۔
کسی اتحاد یاحمایت کے حوالے سے اصلاً دیکھایہ جاتاہے کہ یہ اتحاد یاحمایت کس قیمت پرکیاگیا۔اگرکسی حمایت واتحاد سے ملک وقوم اورملت کے بنیادی مفادیا نظریے کو کوئی نقصان نہیں پہنچا توایسے اتحاد کو کوئی بھی غلط معانی نہیں پہناسکتا۔خودنبی ٔکریمeایران کے مقابلے میں روم کی طرف اپناجھکاؤ رکھتے اور اس کی فتح کی دعائیں تک کرتے حالانکہ ایران اور روم دونوں ہی کافر ممالک تھے لیکن اس کے باوجود آپe نے ان کے کفرمیں فرق کیا۔ اہل روم کافرہونے کے باوجود بہرحال اہل کتاب تھے’ اس لیے مسلمانوں کے زیادہ قریب تھے جبکہ اہل ایران کھلے مشرک اور آتش پرست تھے۔ ابھی کل کی بات ہے کہ سعودی عرب’ پاکستان سمیت عالم اسلام کے اکثر ممالک افغان جہاد میں امریکہ کے اتحادی تھے۔ امریکہ کے ساتھ اس اتحادکو عالم اسلام کے کسی بھی جید عالم نے غلط نہیں کہا۔
سعودی عرب کے بارے میں بعض نام نہاد دانشور محض مسلکی تعصب میں یہ پروپیگنڈہ کرتے رہتے ہیں کہ سعودیوں کو اقتدار برطانیہ سے اتحاد کے نتیجے میں ملا۔اٹھارویں صدی میں عالم عرب کے عظیم مصلح محمدبن عبدالوہابa نے قرآن وسنت کے مطابق عرب معاشرے کوشرک وبدعت سے پاک کرنے کے لیے اپنی دعوتی وجہادی اوراصلاحی تحریک شروع کی تھی، اس وقت سعودخاندان محمدبن عبدالوہابaکاسیاسی مددگار بن گیا۔ ان دنوں ترکی کی خلافت عالم اسلام میں ضرور قائم تھی لیکن یہ اپنے زوال کی آخری حدوں کو پہنچی ہوئی تھی۔ آخری خلفاء میں سے ایک خلیفہ کاحال تویہ تھا کہ اسے ہروقت سوائے قسم قسم کے کھانے کھانے اور لذت کام و دہن کے علاوہ کوئی ہوش نہ تھا۔وہ جہاں بھی جاتا’ہرقسم کے پسندیدہ کھانوں کے بڑے بڑے ٹوکرے اس کے درباری ساتھ اٹھائے رکھتے کہ نجانے کب حضور کاموڈ کسی چیز پرآجائے۔جب خلیفہ کواپنے ذاتی عیش وآرام کے علاوہ کوئی فکرنہ ہو تووہ عالم اسلام کو کیسے سنبھال سکتا۔
Saudi Arab
انیسویں صدی کے شروع میں ترک خلفاء کی طرف سے عالم عرب کے مسائل کومسلسل نظرانداز کرنے کی وجہ سے عالم عرب میں ترک خلافت کے خلاف بہت زیادہ اضطراب کی لہریں پھیل چکی تھیںحتی کہ عربی زبان جو عربوں اورتمام مسلمانوں کی دینی زبان تھی’ترک اسے تعلیمی زبان کے طورپر بھی تسلیم نہ کرتے۔سعود خاندان اگرچہ اس عرصے میں علاقائی طورپرنجدوحجازکی قوت بن چکاتھالیکن ابن سعود نے عرب قومیت کی تحریک سے اپنے آپ کو ہمیشہ دور رکھابلکہ وہ ترکوں کو صاف صاف کہتاکہ اگر ترک عربوں کے خیرخواہ ہیں توانہیں چاہیے کہ سب چھوٹے بڑے عرب ممالک کو متحدکریں لیکن افسوس خود ترکوں نے اس پرعمل نہ کیا لیکن لارنس آف عریبیا کی برطانوی سازش کے تحت عرب قومیت کی تحریک عربوں میں زور پکڑتی رہی۔اس کے نتیجے میں کئی عرب ممالک برطانیہ اور دوسرے کافرملکوں کی غلامی میں چلے گئے۔ اس دوران پہلی جنگ عظیم شروع ہوئی تو ابن سعود نے عرب قومیت کی تحریک میں شامل ہونے کی بجائے بڑی فراست سے غیرجانبدارانہ پالیسی اختیار کی۔یہی پالیسی دوسری جنگ عظیم کے موقع پر بھی رہی۔
برطانیہ اور اتحادیوں نے انہیں جنگ میں شامل ہونے کے لیے بڑے بڑے لالچ دئیے لیکن انہوں نے اپنا دامن بچائے رکھااور ملک کو تباہ ہونے اور انگریزوں کے قبضے میں جانے سے بڑی بصیرت سے بچالیا۔دوسری طرف ترک جرمنی کے اتحادی بننے کی وجہ سے شکست کھاگئے۔اب ترکوں نے خود خلافت ختم کرنے کا اعلان کردیا۔عربی زبان سے ترک حکمرانوں کی بیزاری اس وقت کھل کر سامنے آگئی جب بابائے ترکی مصطفی کمال پاشا نے عربی رسم الخط پر ہی پابندی لگادی حتّٰی کہ قرآن بھی عربی رسم الخط کے بغیر شائع ہونے لگا۔ یہ تاریخ کوئی بھی اٹھاکر دیکھ سکتاہے۔ ایک طرف اس وقت کے ترکوں کے یہ حالات تھے اور دوسری طرف آل سعود تھے جو کسی لسانی عصبیت کا شکار نہ تھے۔ہاں سیاسی حالات کے طویل مدّوجزر میں کسی موقع پر کسی غیرمسلم ملک سے سعودخاندان کاکبھی کوئی وقتی اتحاد ہوگیا تواس طرح کے چھوٹے موٹے واقعات تو ہرقوم کی تاریخ میں پیش آتے رہتے ہیں لیکن دیکھناچاہیے کہ کیاکسی وقتی اتحادسے سعود خاندان نے کبھی اسلام یاملت کے مفاد کے خلاف کوئی سمجھوتہ کیا بلکہ عملاً صورتحال تویہ ہے کہ سعود خاندان نے ہر طرح کے حالات میں اپنے ملک میں اسلام کے نفاذ اور حدوداللہ کے قیام پر کبھی کوئی سمجھوتہ نہ کیا۔ابھی صرف تین چاردہائیاں پہلے مصر پر جمال عبدالناصر کی حکومت تھی جو عرب نیشنل ازم کابڑاداعی تھا لیکن سعودی حکومت نے کبھی بھی اس مسئلے پر اس کا ساتھ نہ دیااور خود کو اس تعصب سے پاک رکھا۔آج بھی پورے عالم اسلام میں اسلام کے نفاد کی عملداری اگرکسی ملک میں سب سے زیادہ ملتی ہے تو وہ صرف سعودی عرب ہے۔ وہاں کوئی سیکولر یامخلوط اور بے پردہ ماحول نہیں ہوتا۔قاتلوں ‘ڈاکوؤں ‘چوروں کے لیے وہاں سرقلم کرنے اور ہاتھ کاٹنے کی شرعی سزائیں جاری ہیں۔عورت کو وہاں آج بھی ڈرائیونگ تک کی اجازت نہیں ہے۔ آیا انگریزوں کے پروردہ لوگ ایسانظام جاری کرتے ہیں۔
کافروں کے پروردہ حکمران تو نظام بھی اپنے ملکوں میں کافروں کا ہی لاتے ہیں۔کیاسعودیوں نے اسلام کے نفاذ کے معاملے پرکبھی کوئی مداہنت اختیارکی بلکہ اسلام کے ساتھ ان کی غیرمتزلزل وابستگی کاتویہ عالم ہے کہ آج بھی جب ایک سپرپاورکاسربراہ امریکی صدراوباما شاہ عبداللہ کی وفات پر سعودی عرب آیاتوائیرپورٹ پر اوباما کے استقبال کے دوران جوں ہی مسجدسے اذان گونجی’ شاہ سلمان دنیاکی سب سے بڑی طاقت کے سربراہ اوباما اور اسی کی بیوی کو راستے میں ہی اکیلاچھوڑکر پوری شانِ بے نیازی سے مسجد کی طرف روانہ ہوگئے۔یہ ایمان پرورمنظرساری دنیا نے لائیوٹی وی پردیکھا۔کیاکافروں کے پروردہ حکمران ایسے ہوتے ہیں’کوئی بتائے توسہی۔ امریکی ٹائم میگزین میں سعودی عرب کے خلاف مسلکی بنیادپر زہریلا پروپیگنڈہ 2003ء میں ہی شروع کردیاگیاتھا تاکہ مسلمان باہم لڑپڑیں: اسلام کے ساتھ سعود خاندان کی یہی وہ غیر متزلزل وابستگی اورکمٹمنٹ ہے کہ جس سے عالم کفر بری طرح خوفزدہ وپریشان ہے۔ دنیا میں آج اگر ہم کہتے ہیں کہ اسلام سب سے زیادہ تیزی سے پھیل رہا ہے تو عالم مغرب سمیت پوری دنیاگواہی دیتی ہے کہ اس کے پیچھے تمام ترسعودی مساعی ہے۔ وہ اسلام کے فروغ کے لیے دنیابھرمیں مفت دینی لٹریچر ،عظیم الشان مساجد اور بے پناہ دینی اداروں کے قیام کے ذریعے اپنا پیسہ موسلادھار بارش کی طرح صرف کرتے ہیں۔اس کانتیجہ ہے کہ آج برطانیہ’فرانس’بلجیم سمیت یورپ ومغرب کے اکثر ملک مسلم اکثریتی ممالک میں تبدیل ہونے کے قریب ہیں۔آج مغرب اسی سعودی یلغارسے ہی توگھبرایا ہوا ہے۔ چنانچہ وہ اسلام کے لیے سعودی کوششوں کو سبوتاژ کرنے اور بدنام کرنے کے لیے انہیں فرقہ وارانہ رنگ دیتا ہے۔ وہ پروپیگنڈہ کرتاہے کہ سعودی عرب وہابی اسلام کو فروغ دیتاہے اور پھر وہابی اسلام کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ یہ بڑا متشدد اسلام ہے اور یہ اپنے علاوہ باقی سب کو کافر اور واجب القتل سمجھتے ہیں۔
United States And United Kingdom
حالانکہ حقیقت میں ان باتوں کا سعودی اسلام سے دور کابھی واسطہ نہیں۔سعودی عرب اگرامریکہ ‘برطانیہ کا کوئی غیرمشروط اتحادی ہوتا توپھرکفارمغرب سعودیوں کے خلاف ایسانفرت آمیز پروپیگنڈہ کیوں کرتے۔کسی کو شک ہوتووہ 9/11کے صرف دوسال بعدشائع ہونے والا 15ستمبر 2003ء کاامریکی ٹائم میگزین دیکھے’ا سے دیکھ کر اندازہ ہو جائے گا کہ امریکہ نے تو9/11 کے فوراً بعد ہی سعودی عرب کو اصل دہشت گرد قرار دینے کی مہم شروع کر دی تھی۔ اس شمارے میں ٹائم نے مسلمانوں میں سعودیوں کے خلاف فرقہ وارانہ زہرپھیلاتے ہوئے لکھا تھا۔سعودی حکمرانوں کا مسلمانوں کے ایک متشدد وہابی فرقے سے تعلق ہے۔ دہشت گردی اس کی تعلیمات کا بنیادی حصہ ہے۔سعودی حکمران جو دنیابھرمیں مسلمانوں کی مدد اور اسلام کے فروغ کاکام کررہے ہیں تو دراصل وہ اپنے دہشت گردوہابی فرقے کو پوری دنیامیں پھیلا رہے ہیں۔”امریکی ہفت روزہ ٹائم نے سعودی عرب پر اپنا غصہ نکالتے ہوئے لکھا کہ ” امریکہ میں مذہبی تعلیم حاصل کرنے والا ہرمسلمان بچہ سعودی ٹیکسٹ بکس استعمال کرتاہے۔انہیں یہ تعلیم دی جاتی ہے کہ ایک مسلمان ہی سب سے بہتر انسان ہوتا ہے۔انہیں قرآن کی یہ آیت پڑھائی جاتی ہے کہ ہمیں کافروں سے ہوشیاررہناچاہیے اور ہم اپنی دعاؤں میں کافروں کی بربادی کی دعائیں کریں۔” غرض کافر’ امریکی’ برطانوی توآل سعود کو اپنادشمن قرار دیں اورہم انہی کے فرقہ وارانہ پروپیگنڈے سے متاثر ہوکرآل سعود کوانگریزوں کاپروردہ کہیں تو ایسے لوگوں کی عقل پرکف افسوس ہی ملاجا سکتا ہے۔
مشترکہ اسلامی فوج اور آل سعود: آج یمن بحران کے موقع پرعرب فوجی اتحاد کی تشکیل پر بعض ذہنی بیمار یہ اعتراض اٹھاتے ہیں کہ اس طرح کی فوج بنانے کاخیال سعودی عرب کو پہلے کیوں نہیں آیا۔ سعودی عرب کو تو عالم اسلام کی مشترکہ فوج بنانی چاہیے تھی’ان کی خدمت میں عرض ہے کہ عالم اسلام کی مشترکہ فوج بنانے کی تجویز بھی ایک عرصہ پہلے سعودی عرب نے ہی دی تھی۔ مشرف دور میں جب وزیراعظم ظفر اللہ جمالی نے سعودی عرب کادورہ کیا تواس وقت شاہ فہد کے بھائی اور وزیردفاع شہزادہ سلطان بن عبدالعزیز نے عالم اسلام کی مشترکہ فوج بنانے کی تجویز دی تھی لیکن افسوس کہ اس وقت بھی پاکستان سمیت کسی مسلم ملک نے اس سعودی تجویز پرکوئی کان نہ دھرا تو اب اس میں سعودی عرب کاکیاقصورہے۔ گویاسعودی عرب توموجودہ یمن بحران سے بہت پہلے ہی مشترکہ اسلامی فوج کے قیام کا حامی رہا ہے تاکہ کشمیر’فلسطین سمیت پورے عالم اسلام کے مفادات کا تحفظ ہو سکے۔یہ بات بھی یادرہے کہ عالم اسلام میں فلسطینیوں کو سب سے زیادہ اربوں ڈالر کی مالی امداد فراہم کرنے والاسعودی عرب ہے۔اس طرح سعودی عرب ہی OIC میں مسئلہ کشمیر پرپاکستان کی سب سے زیادہ حمایت کرتا ہے لیکن اگرمدعی ہی سست ہو تواس میں دوسروں کا کیا قصورہے۔اسرائیل کوکئی عرب اور غیر عرب ملکوں نے تسلیم کرلیالیکن سعودی عرب نے آج تک نہیں کیا۔غرض سعودی عرب اور آل سعود نے توہر معاملے میں خود کو اسلام اور عالم اسلام کا سچاخیرخواہ ثابت کیاہے۔ مسئلہ صرف ہماراہے۔ ہم اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں کہ ہم اسلام اور عالم اسلام کی خدمت کررہے ہیں یا کافروں کے پروپیگنڈوں اور سازشوں کا شکارہوکر پورے عالم اسلام کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔
Yemen Rebels
اوریہ بھی یادرکھیں کہ اللہ ہمیں اپنے گھرکی پاسبانی کااعزازدیناچاہتاہے’ورنہ وہ اپنے گھر کی پاسبانی خود بھی کر سکتاہے اور یہ اعزازہم سے موڑکرکسی اورکوبھی دے سکتاہے۔ وہ جس کوچاہے ابابیلیں بنالے۔ یہ تونصیب کی بات ہے کہ یہ اعزازہمیں ملے۔اسی اعزازکااقبال نے بھی یوں فخریہ ذکر کیا تھا :
دنیا کے بت کدوں میں پہلا وہ گھر خدا کا ہم اس کے پاسباں ہیں’ وہ پاسباں ہمارا