تحریر: غلام مرتضیٰ باجوہ پاکستان میں سیاسی اور سرکاری اداروں میں بدلتی صورتحال پر پاکستانی قوم کی نظریں پاک افواج اور عدلیہ پرجمعی ہوئی ہیں۔ کیونکہ اب پاکستانی قوم کو چینی صدر کے دورے کے بعداس بات کا علم ہوگیا ہو گاکہ ملک دھرنوں، احتجاجی مظاہروں اور الزامات سے ترقی نہیں کرتے بلکہ مثبت سوچ اور محنت لگن سے بحرانوں کا مقابلہ کیاجاسکتاہے۔ پہلے سے زیادہ اب پاکستانی قوم جوش و جذبہ پایا جاتاہے۔ جب آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا یہ خطاب میڈیا پر جاری ہوا کہ ملک کو آگے لے جانے کیلئے کوئی بھی چیلنج ناقابل تسخیر نہیں، دہشت گردی کیخلاف کوششیں کامیابی سے ہمکنار ہورہی ہیں۔ ضرب عضب کے باعث پاکستان میں استحکام لوٹ آیا ہے۔ فاٹا میں موجود دہشت گردوں کا ملک کے باقی حصوں سے رابطہ توڑ رہے ہیں۔ دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو توڑ کر اس لعنت کا خاتمہ ہمیشہ کیلئے یقینی بنایا جائے گا۔ آرمی چیف نے دہشت گردوں کیخلاف جنگ میں پاک فوج کی پیشہ وارانہ کامیابیوں اور قربانیوں کو خراج تحسین پیش کیا۔
آرمی چیف کا کہنا تھا کہ نوجوان نسل ہمارا قومی اثاثہ ہیں، انہیں پرامن ماحول فراہم کرنا اولین ترجیح ہے۔ نوجوانوں کی حوصلہ افزائی اور عزت کرنی چاہئے۔ ملکی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بننے والوں کو ہرگز معاف نہیں کیا جائے گا۔ فاٹا میں دہشت گردی کے خاتمے سے توجہ نہیں ہٹائی جاسکتی، ملک بھر سے ملک دشمن عناصر کے رابطے ختم کئے جارہے ہیں۔ دہشت گردی کے خاتمے تک فاٹا میں کارروائی جاری رہے گی۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابیوں سے ملک میں استحکام اور امن وامان کی صورتحال میں بہتری آرہی ہے، پاکستان کے اندر اور باہر قیام امن ہماری ترجیح ہے۔ کسی بھی چیلنج کا مقابلہ کرنا ناممکن نہیں، ہمیں پاکستان کو لیکر آگے بڑھنا ہے، کوئی بھی چیلنج پاکستان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتا۔ آپریشن سے امن و امان کی صورتحال بہتر ہورہی ہے۔ تولوگوں نے ٹی وی سکرین کے سامنے کھڑے ہوکر پاک افواج زندہ بادہ۔۔۔ پاکستان زندبادہ کے نعرے لگانا شروع کردئیے تھے۔
Nasir ul Mulk
تو ایسی دوران ایک اچھی خبریہ بھی سننے کو ملی جب چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ناصر الملک کے حوالے یہ بات سامنے آئی کہ اداروں کے درمیان کوئی جنگ ہے نہ ٹکرائو، کیا پارلیمانی کمیٹی عدلیہ کی آزادی اور اختیارات کی تقسیم کے خلاف ہے؟ یہ بھی بتایا جائے کہ ججز تقرری پارلیمانی کمیٹی آئین کی کس شق کے خلاف ہے، ہر ملک میں ججز کی تقرری کا طریقہ کار مختلف ہے، ہمارا دوسرے ممالک کی عدالتوں سے متاثر ہونا ضروری نہیں، ترمیم ہوگی تو مقدمات بھی عدالتوں میں آئیں گے۔ عدالت کو دیکھنا ہے کہ ترمیم کے تحت کسی آرٹیکل کی خلاف ورزی تو نہیں ہوئی؟ کیا دوسرے ممالک کے طریقہ کار کو مدنظر رکھ کر پارلیمانی کمیٹی کے کردار کو ختم کیا جا سکتا ہے؟۔ چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 17رکنی فل بینچ نے 18ویں و21ویں آئینی ترامیم اور فوجی عدالتوں کے خلاف درخواستوں کی سماعت کی تو لاہور ہائی کورٹ بار کے وکیل حامد خان، بیرسٹر ظفر اللہ ایڈووکیٹ نے اپنے اپنے دلائل دیئے، حامد خان نے کہا کہ امریکہ میں صدارتی، ہمارے ملک میں پارلیمانی نظام حکومت ہے۔ امریکی آئین عدلیہ آزادی اور اس کی انتظامیہ سے علیحدگی کی ضمانت دیتا ہے، بھارت میں پارلیمانی کمیٹی کا ججز کی تقرری میں کوئی اختیار نہیں ،ہمارا عدالتی نظام اور آئین بھارت سے مماثلت رکھتا ہے اسی لئے اس کی مثال دی جاتی ہے۔
حامد خان نے عدلیہ میں مثالیں تو بہت درست دیں ہیں لیکن اس وقت کے پی کے میں قدرتی آفت سے ہزاروں افراد متاثرہ ہوئے ہیں۔ لیکن تحریک انصاف چیئرمین عمران خان کا کہناہے کہ حقیقی تبدیلی صرف میگا پروجیکٹس سے نہیں آتی’ شہروں میں فلائی اوور بنا کر ماحولیات کو تباہ کیا جا رہا ہے ‘ ہماری ترجیح عام آدمی کا معیار زندگی بہتر بنانا ہے’ کے پی کے میں تعلیمی پالیسی کامیابی سے جاری ہے جس کا عالمی سطح پر اعتراف کیا گیا’ دانش سکول کا ڈرامہ بری طرح فلاپ ہو گیا’ دانش سکو ل میں صوبے پر کئی سوالات اٹھائے گئے نیب تحقیقات کرے۔ تبدیلی کیلئے میگا پراجیکٹس کے مصنوعی ڈراموں کی بجائے صوبے میں یکساں تعلیم کا جدید نظام متعارف کروا رہے ہیں۔ مثالی تعلیم کے لئے ترقی یافتہ ممالک کے ماڈلز کو اپنایا جا رہا ہے، غریب اور امیر کے بچوں کو ایک جیسی معیاری اور جدید تعلیم فراہم کی جا رہی ہے جس سے صوبے میں تبدیلی آ رہی ہے۔ مبصرین اور ماہرین کا کہناہے کہ تحریک انصاف چیئرمین عمران خان کو دھرنا،الزامات اور شورشرابے کی سیاست سے کناراکشی کرنی پڑے گی۔کیونکہ عمران خان کے اب تک کے تمام تر دعویٰ صرف اور صرف جھوٹ ثابت ہوئے ہیں۔اب آنے والے وقت اس پارٹی کا ہے جو پاکستان اور قوم کی خدمت کررے گی۔