تحریر: عقیل خان آف جمبر یکم مئی وہ دن ہے جسے عالمی سطح پر مزدورں کے دن نام سے یاد کیا جاتا ہے۔اس پاکستان سمیت دن دنیا بھر میں مزدورں کے حقوق کے لیے ریلیاں، مظاہرے، سیمیناراو ر حکومتی سطح پر پروگرام مرتب کیے جاتے ہیں۔ مزدور یونین، این جی اوز اور سیاسی و سماجی تنظیمیں بھی اپنا کردار ادا کرنے یا پھر صرف نمبر گیم کرنے کے لیے میدان میں آتی ہیں۔اس دن ہر طرف مزدور کی بات ہو رہی ہوتی ہے۔ کوئی کہتا ہے مزدور غربت کی چکی میں پس رہا ہے تو کوئی بولتا ہے کہ مزدور کی زندگی بھی کوئی زندگی ہے؟
اس دن کوپاکستان میں بھی بڑے زور و شور سے منایا جاتا ہے۔ پاکستان کے تمام شہروں میں مزدورں کے حقوق کے لیے ریلیاں نکالی جاتی ہیں۔ سیمینار منعقد کیے جاتے ہیںجس میں بڑے بڑے لیڈر تقاریرمزدوروں کی تقدیر پر رونا روتے ہیں۔ ستم کی بات تو یہ ہے کہ دن مزدوروں کا اور فائدہ امیر اٹھاتے ہیں۔ کبھی کسی این جی او یا سماجی تنظیم نے اس دن کے موقع پر کسی مزدور کو مہمان خصوصی بلایا ہے ؟ دیکھا یہ گیا ہے کہ جب کوئی دن کسی کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے تو پھر اس دن اس شخصیت کو ہر جگہ اہمیت حاصل ہوتی ہے ہرکوئی اس کے ناز ونخرے برداشت کرتا ہے اور بلکہ یہاں تک بھی کہہ دیا جاتا ہے کہ ” چلو یار آج اس کا دن ہے” مگر ادھر آوے کا آوابگڑا ہوا ہے۔ نام مزدوروں کادن ہوتا ہے اور اہمیت امیروں کو دی جاتی ہے۔ یکم مئی کوجب بڑی بڑی ہوٹلوں اور اے سی ہالوں میں مزدوروں کے نام پرپروگرامز ہورہے ہوتے ہیں تو اس پروگرامز میں غریب مزدورکو داخل بھی نہیں ہونے دیا جاتا۔
ہال میں بھی وہ داخل ہوں گے جن کا سٹینڈرڈ امیروں جیسا ہوگا۔ اگر سیمناروں میں بیٹھنے والے مزدور ہیں تو پھر اس دن فیکٹریوں، بھٹوں اور راج گیروں کے ساتھ مزدوری کررہے ہیں وہ کون ہیں؟ مزدوروں کے عالمی دن پر پاکستان میں بتائیں کسی امیر کی فیکٹری یاپٹرول پمپ وغیرہ بند کیے گئے ہوںیا کسی نے اپنے گھر کی تعمیر رکوائی ہو کہ چلو آج ان کا دن ہے اور ان کو چھٹی کردیں۔ ہو سکتا ہے شاید کچھ لوگ اس دن کی چھٹی کربھی دیں مگر وہ مزدور کیا کرے گا جس کی شام کی روٹی اس دھیاڑی (ڈیلی ویجز)پر منحصر ہے اگر اس نے چھٹی کرلی تو وہ رات کو اپنے بچوں کو کیا کھلا کر سلائے گا؟
Labor Day
یکم مئی کو پاکستان بھر میں مزدور ہر روز کی طرح اپنے کام میں مشغول رہتے ہیں اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے محنت کرتے ہیں ان کو اس دن سے کوئی سروکار نہیں، بس اپنے بچوں کے لیے روزی کمانے سے غرض ہے۔ ویسے یکم مئی کو ہر فورم پر مزدورں کی فلاح و بہبودکے لیے بڑی بڑی باتیں کی جاتی ہیں،دعویٰ کیا جاتا ہے مگر ان پر کبھی عمل بھی ہوا ہے؟ ہر گز نہیںکیونکہ وہ باتیں صرف میڈیا کی زینت بننے کے لیے کی جاتی ہیں ۔ تاکہ دنیا دیکھ لے کہ پاکستان مزدوروں کے حقوق کے لیے کتنی تگ ودو کررہا ہے؟
کبھی کسی حکومت نے ایسے اقدام اٹھائے ہیں کہ یکم مئی کے دن ان مزدور وں کو جو روزانہ کی بنیاد پر کام کرتے ہیں(ڈیل ویجز) حکومتی سطح پر کوئی وظیفہ دیکر ان کو چھٹی بھی دی گئی ہوکیونکہ یکم مئی ان کا دن ہے اور وہ اس دن اپنے فیملی کے ساتھ ہنسی خوشی گزار سکیں۔ہمارے حکمرانوں کو یہ سوچ لینا چاہیے کہ پاکستان کی ترقی میں سب سے بڑا کردار ان مزدورکا ہے ۔ مینار پاکستان سے لیکر پارلیمنٹ کی تعمیرتک ان مزدور ں کی محنت کا ثمر ہے ۔ ان کی تعمیر میں ان میں بیٹھنے والوں کاکوئی حصہ نہیں،ایک کاغذ سے لیکر ایٹمی میزائل تک مزدوروں کی وجہ بنتاہے۔
پارلیمینٹ میں بیٹھے ہوئے بتائیں کہ ان کے کیفے ٹیریا میں روٹی ،سالن اور چائے کے ایک کپ کی کیا قیمت ہے ؟ کیا ان کی قیمت ایک مزدور کی روٹی کے برابر ہے ؟ مزدور کی روٹی کی قیمت پانچ روپے اور جبکہ پارلیمینٹ میں بیٹھنے والوں کی روٹی کی کیا قیمت ہے یہ سب کو پتا ہے۔ نعرے ہم مزدوروں کے حقوق کے لگاتے ہیں اور فائدہ امیروں کو پہنچاتے ہیں۔ مزدوروں کے فنڈ کے نام پر کروڑوں روپے لیے جاتے ہیں اور مزدوروں پر اگر خرچ کرنے کی نوبت آجائے تو وہ بڑی مشکل سے ہزاروں میں ہوتی ہے۔ پاکستان میں بیروزگاری زیادہ ہونے کی وجہ سے مزدور کچھ نہ ملنے سے کچھ مل جانا بہتر ہے کی غرض سے ہر جگہ ایڈجسٹمنٹ کرلیتا ہے۔ اب توفیکٹریوں میں ٹھیکہ داری نظام چل رہا ہے جس کا فائدہ بھی امیر اٹھا رہا ہے۔وہ مل سے ٹھیکہ حکومت کی طرف سے منظور شدہ تنخواہ پر لیتا ہے مگر مزدور کا کم اجرت دیتا ہے۔ میرے اپنے ایریا میں کئی ایسی بڑی بڑی فیکٹریاں موجود ہیں جن کا شمار پاکستان کی نمبر 1فیکٹریوںمیں ہوتا ہے مگر اس میں ٹھیکہ داری نظام ہونے کی وجہ سے مزدور کا استحصال ہورہا ہے۔ حکومت نے مزدوری کی مزدوری 12000روپے مقرر کی ہوئی مگر ٹھیکہ دارمزدور کو آٹھ سے نو ہزارروپے دے رہا ہے اور غریب آدمی خاموشی سے اپنااور اپنی اولاد کا پیٹ پالنے کے وہ اتنی کم تنخواہ پر کام کررہا ہے۔
کیا ہماری حکومت کونہیں معلوم کہ مزدوروں کے اتنے کم وسائل میں سارے مسائل حل ہوسکتے ہیں؟اس پاکستان میں حقیقت میں کسی کو کسی کی پرواہ نہیں اگر ہے تو صرف میڈیا کے سامنے دو چار لفظ بول کر اپنا نام روشن کرنے کی۔ میں تو آخر میں اپنے مزدور بھائیوں کے لیے صرف اتنا کہہ سکتا ہوں بقول علامہ اقبا ل کے
نہ تو زمیں کے لئے ہے نہ آسماں کے لئے جہاں ہے تیرے لئے تو نہیں جہاں کے لئے