تحریر : حذب اللہ مجاہد کچھ دن قبل ایک پرانے دوست سے ملاقات ہوئی جس کا تعلق آواران سے ہے وہ کراچی سے نرسنگ ڈپلومہ کرنے کے بعدآواران میں ایک میڈیکل اسٹور کھول کر لوگوں کو طبعی سہولت دینے کی کوشش کر رہا تھا مگر بے رحم زلزلے (جس نے آواران میں ایک قیامت صغری برپا کردیا تھا )کے بعد کراچی چلے گئے اور کراچی میں رہائش اختیا رکرلی اس دوست سے باتوں باتوں میں ذکر آواران کا چھڑا تو نہ جانے اس خوش موڈدوست کا چہرہ کیوں اداس ہوگیا اور آنکھیں نم ہوگئیںاور اس نے ایک الگ داستان بیان کردی جس کو سننے کے بعد محفل میں اداسی ایک فطری بات تھی پھر اس دوست نے مجھے آواران کے چار پانچ اور رہائشیوں سے بات کروائی وہ جو حالات بتا رہے تھے جن کو سننے کے بعدمیں قلم اٹھانے پر مجبور ہوگیا
تاکہ ضلع آواران کے تحصیل مشکے کے ان دو دیہاتوں منگولی اور دائرہ کی روداد لکھ کر شاید اپنے درد کو کچھ کم کر سکوں یہ بد قسمت علاقے منگولی اور دائرہ آواران بازار سے چالیس کلو میٹر اور مشکے بازار سے تیس کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہیں چاروں طرف سے پہاڑوں میں گھرے ان علاقوں کے لوگ زلزلے سے پہلے اپنے کچے گھروں میں اور پیوند لگے کپڑوں کے ساتھ بھی خوش تھے مگر بے رحم زلزلے نے ان سے ان کے وہ کچے گھر بھی چھین لئے اور چہروں کی مسکراہٹ بھی چھین لی وہ غریب اور بے کس ہونے کے ساتھ محنتی اور جفاکش لوگ جو ہر خوشی اور غم میں کندھے سے کندھا ملائے کھڑے نظر آتے تھے مگر وقت کی بے رحم لہر نے ان کی یہ خوبی بھی چھین لی اور انہیںوہ وقت بھی دیکھنا پڑا جب لاشوں کیلئے کفن بھی دستیاب نہیں تھی ہر طرف آہ و پکار تھی
اس قیامت خیز زلزلے کے بعد جن لوگوں کے پاس تھوڑے بہت وسائل تھے انہوں نے کراچی یا حب چوکی ہجرت کی اور وہاں رہائش اختیار کرلی مگر علاقے کی اکثریت کا تعلق اس طبقے سے ہے کہ جن کے گھروں میں بھی کبھی چھولا جلتا ہے تو کبھی نہیں تو ان حالات میں ان کیلئے کراچی یا کہیں اور جانے کا سوچنا بھی گناہ عظیم کے مترادف تھاپھر زلزلے کے بعد منگولی اور داہرہ میں کچھ NGOsآگئے اور ان لوگوں کورہائش کیلئے خیمے تو دے دئیے مگر شاید ان غموں کا ان خیموں میں سمٹنا ایک ناممکن بات تھی مگر ان خیموں کے بعد کسی نے ان کو نہیں پوچھا ان علاقوں کے لوگ دوبارہ آبادکاری کے نام نہاد منصوبوں اور اعلی حکومتی عہدیداروں کی آواران آمد اور اعلانات سے بھی بے خبر تھے
Tents
کیونکہ انہوں نے زمین پر کچھ دیکھا ہی نہیں تھاان خیموں کے علاوہ جو تین مہینے میں پھٹ گئے اور ان علاقوں کے مکین پھر کھلے آسمان تلے آگئے پھر مایوس ہوکر اپنی مدد آپ کے تحت جھونپڑیاں بنا کررہ رہے ہیں۔ ا س دوست نے مجھے منگولی کے ایک باشعورنوجوان اور سماجی کارکن سے بات کروائی جو آواران میں جماعت دہم کا طالب علم تھا مگر زلزلے بعد مجبورا اپنی تعلیم ادھوری چھوڑدی اور منگولی اور دائرہ کے زلزلہ زدگان کی مدد اور ریسیکیوکیلئے مختلف سرکاری و غیر سرکاری اداروں سے رابطہ کرتے رہے اور زلزلہ زدگان کو سہولیات کی فراہمی کیلئے سرگرم رہے ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے ان زلزلہ زدگان کیلئے امدادی رقم کاجو اعلان کیا جو کہ ان کو نہیں ملے جب اس رقم کیلئے بھاگ دوڑ کی اور ان اداروں سے رابطہ کیا گیا تو بتایا گیا کہ وہ رقم علاقے کے ایک با اثر شخص وصول کر رہے ہیںکہ وہ اپنے علاقے میں رقم خود تقسیم کریں گے یہ سن کر وہ مایوس ہوکر وہ واپس آگئے اور ساری داستان اہل علاقہ کو بتا دیااور حب چوکی آکر ایک درزی کے ساتھ کام کرنا شروع کردیا۔
اگر منگولی اور دائرہ کے دیگر مسائل پر بات کریں تو ان علاقوں میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو کہ خط غربت سے نیچے کی زندگی گزار رہے ہیں ان علاقوں میں لوگوں کا ذریعہ معاش کھیتی باڑی ہے مگر چونکہ بجلی ان علاقوں میں نہیں ہے اور غربت کی وجہ سے لوگوں کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ و ہ ڈیزل انجن کے ذریعے ٹیوب ویل چلا کر کھیتی باڑی کرسکیںاب لوگ یہی آس لگائے بیٹھتے ہیں کہ اگر بارش ہو تو کچھ گندم وغیرہ کی کاشت ہو مگر علاقے میں کوئی ڈیم نہ ہونے کی وجہ سے بارش کا پانی بھی ذخیرہ نہیں ہوتا ہے اس لئے ان علاقے کے لوگوں کے بھوک کے خاتمے کیلئے شرط یہ ہے کہ بارش ہوورنہ بھوک مقدر ہے۔ اگر تعلیمی مسائل پر نظر دوڑائیں تو ان علاقوں میں کوئی پرائمری اسکول بھی نہیں ہیں( ہیں مگر کئی سالوں سے بند ہیں اس وجہ سے میں نے لفظ نہیں ہے کا انتخاب کیا)اگر کسی کے پاس تھوڑا بہت وسائل ہیں وہ اپنے بچوں آوارن یا مشکے بھیج دیتے ہیں
تعلیم حاصل کرنے کیلئے مگر اکثربچے وسائل نہ ہونے کی وجہ سے ہوش سنبھالتے ہی بھیڑ بکریوں کے پیچھے لگ جاتے ہیںان علاقوں میں کھیتی باڑی کے علاوہ گلہ بانی بھی لوگوں کا ذریعہ معاش ہے مگر وقتا فوقتامختلف بیماریوں کی وجہ سے ما ل مویشی ہلاک ہوتے رہتے ہیں اور مجھے یہ لکھتے ہوئے شرم محسوس ہورہا ہے کہ ان علاقوں میں مال مویشیوں کا کوئی مرکز صحت نہیں ہے کیونکہ جن علاقوں میں انسانوں کے علاج و معالجے کیلئے کوئی مرکز صحت نہ ہو ان علاقوں میں مال مویشیوں کی علاج و معالجے کیلئے سوچنا بے وقوفی کے مترادف ہے۔ میرے سمجھ میں یہ نہیں آرہا ہے کہ منگولی اور دائرہ کے لوگوں کے اس درد کو کہاں سے شروع کروں اور کہاں ختم کروں شاید میرا قلم اس درد کو بیان کرنے سے قاصرہے اور میرے الفاظ ناکافی ہیں مگر پھر بھی ایک حقیرسی کوشش کی ہے ویسے بھی بقول شاعر جو درد ہے دل میں اس کو میں ہی سمجھ سکتا ہوں اپناوقت برباد نہ کر اس درد کی منظر کشی میں