تحریر : ڈاکٹر تصور حسین مرزا گزشتہ ہفتہ سرائے عالمگیر کے سینئر صحافی ملک احسان الہی صابری کی بیمار پرسی کے لئے ان کی رہائش گاہ جی ٹی روڈ سرائے عالمگیر جانے کا اتفاق ہو ا کیونکہ پچھلے ماہ روڈ ایکسیڈینٹ میں انکی ٹانگ کا فریکچر اس وقت ہوا جب ایک پروگرام کی کوریج کر کے واپس آرہے تھے۔ مقامی سیاستدانوں سماجی ورکروں اور صحافی بھائیوں نے اپنی مدد آپ کے تحت انکی دامے درمے سخنے مالی اور اخلاقی مدد کی مگر افسوس سرائے عالمگیر میں صحافی برادری کے لئے حکومتی سطح پر کچھ بھی نہ ہوا۔دنیا بھر میں لوگ شعبہ صحافت سے منسلک لوگوں کی عزت اور احترام کرتے ہیں جسکی بنیادی وجہ صاف سچی اور کھری خبریں ۔ کیونکہ ہر صحافی یہی چاہتا ہے کہ وہ سب سے پہلے خبر کو نشر کرے ۔ پوری دنیا میں پاکستان سمیت صحافیوں کی بہت سی اقسام ہیں ۔
جیسا نامہ نگار۔ نیوز ایڈیٹر۔ کرائم ایڈیٹر ۔ فنانس ایڈیٹر۔ کام نویس ، تجزیہ نگار۔ اینکرپرسن وغیرہ وغیرہ ۔روز اول سے قیامت تک اچھائی اور برائی ساتھ ساتھ ہیں ۔ دیگر شعبہ زندگی کی طرح صحافت میں بھی اچھے اور برے لوگ شامل ہیں ۔ بندہ ناچیز کا تعلق سرائے عالمگیر کے گاؤں پوران سے ہیں اس لئے سرائے عالمگیر کی صحافی برادری کے مسائل اعلیٰ احکام تک پہنچانا آپ کے توسط سے اپنا فرض سمجھتا ہوں۔سرائے عالمگیر کے صحافی بھائی اپنے اپنے مورچوں میں رہتے ہوئے وطن عزیز سے جہالت افلاس بیماری۔ غربت نا انصافیوں ،اور کرپشن کے خلاف اپنے اپنے نشتری قلم سے قلمی جہاد میں مصروف ہیں۔ یہ بات کہنے میں مجھے کوئی عار محسوس نہیں ہو رہی کہ سرائے عالمگیر میں چند ہمارے صحافی بھائی ایسے ہیں جنہوں نے صحافت کو تجارت بنا دیا۔نام نہاد صحافت کے چیمپین اصل صحافت کی شکل بگاڑ کر زرد صحافت کو فروغ دے رہے ہیں۔کھانے کی پارٹی،جنازہ، دعا قل اور ولیمہ۔
ایسے پوائینٹ ہیں جہاں لوگوںکو قربانی کا بکرا بنایا جاتا ہے۔ جس شخص کی جنت لٹ جائے یعنی باپ ، والدہ، بہن یا بھاء وفات پا جائے تو پانچ پانچ یا دس دس ہزار کی پھکی جرمانہ اشتہار کی مدد میں رونے دھونے والے سے اسکے عزیز کے فوت ہوجانے کی صورت میں لیا جاتا ہیں اورکچھ سیاسی سماجی رفاحی شخصیات اپنے چاہنے والوں کو اپنے ووٹرون سپورٹروں کو آگاہ کرنے یا نمایاں کرنے کے لئے اخبارات کیبل وغیرہ پر اشتہارات دیتے ہیں تاکہ ہر خاص و عام کو بروقت آگاہ کیا جا سکے اور علاقہ کی نامور شخصیات ایس موقع پر صحافی بھائیوں کو خود مدعو کرتے ہیں تا کہ جنازہ ، فاتحہ خوانی اور قل میں جو عزیزو عقارب غم کی گھڑی میں شریک ہوتیں ہیں ان کی تصاویرات اور ناموں کو پریس ریکارڈ کی صورت میں محفوظ کیا جاسکے۔ماشائاللہ سرائے عالمگیر اس معاملے میں دیگر شہروں کی نسبت منفرد مقام رکھتا ہے۔ جو صحافی بھائی لگن چاہت سے ایسا کر رہے ہیں وہ قابل فخر ۔ قابل عزت اور قابل احترام ہیں۔
Journalist
اگر تو بات یہ کی جائے کہ جو لوگ صحافی بھائیوں کو عذت و احترام سے مدحو بھی کرتے ہیں اشتہارات کی صورت میں خدمت بھی کرتے ہیں ، صحافی بھائی اپنے بال بچوں کے پیٹ کی آگ بجھانے اور اپنی صحافی سرگرمیوں کی بدولت اپنے اپنے اداروں کی مالی ماونت میں بھی اپنا حصہ ڈال رہے ہیں انکو بندہ ناچیز سلام پیش کرتا ہے ۔ مگر !!وہ صحافی بھائی جنکو لوگ اپنے پروگرام کی کوریج کے لئے دعوت دیتے ہیں ان کا بھی کام بنتا ہے جس مقصد کے لئے صحافی بھائی بلائے جاتے ہیں وہ صحافتی اصولوں کے مطابق کریں ۔افسوس کچھ صحافی بھائیوں نے تحصیل سرائے عالمگیر کی تقریباً پچاس کے قریب لوگوں کی تصاویرات اور اسی نوے ناموں کو کمپوز کر کے محفوظ کیا ہوا ہے۔
یہ بھی سچ ہے جن پچاس لوگوں کی تصاوریرات ہیں ان میں بیس کے قریب سیاست اور سماجی رفاحی کاموں سے وابسطہ لوگ ہیں اور دس کے قریب ان لوگوں کی تصاویرات ہیں جو انتظامیہ یا بیورو کریسی سے تعلق رکھتے ہیں اور دس پندرہ ایسے لوگ ہیں جو مٹھی میں صحافی بھائیوں کی خدمت کرتے ہیں اور ہمارے صحافی بھائی ایسے لوگوں کی تصاویرات ناموں کے ساتھ لگا کر اپنے پیسے حلال کرتے ہیں خواہ وہ کیسی کے غم و خوشی میں شریک ہوں یا نہ ہوں۔ کبھی کبھی ایسی سماجی شخصیات کی تصویریں دیکھنے کا اتفاق ہوتا ہے ۔ جو شرکت ہی نہیں کرتیں بلکہ بیروں ملک ہوتیں ہیں ۔ اظہار تعزیت میں نام اور تصویر لگوانا تو سمجھ میں آتا ہے مگر نمازہ جنازہ کے موقع پر ایسی تصاویرات کا شائع ہوناکیا یہ زرد صحافت نہیں ؟کیا یہ مردے کے ساتھ دھوکہ نہیں ؟
کیا یہ اس ساستدان یا نامور شخصیت کے ساتھ فراڈ نہیں ؟زرا سوچیں؟؟ایک آدمی نے آپ کو ہزاروں روپے کے اشتہارات کی مد میں رقم دی تا کہ ہر آنے والے کا نام اور تصویر یاداشت بن جائے مگر زرد صحافت کی وجہ سے اس سیاستدان کو کتنا نقصان ہوا جس کے ووٹروں اور سپورٹروں کو آپ نے کوریج نہ دیکر بدظن کر دیاکیا الیکشن میں وہ غریب ایسے سیاسدانوں کو معاف کر دے گا ۔ اگر نہیں تو کیا زرد صحافت کی وجہ سیاستدان کی سیاسی حثیت ملیا میٹ کر دی؟سرائے عالمگیر کے صحافی بھائیوں کی ایک اور بات جو پاکستان کے کسی شہر میں نہیں دیکھی گئی۔
Journalist
ایک فنکشن میں دس صحافی بھائی موجود ہے۔ ہر اخبار کی خبر میں دو چار صحافیوں کے نام لکھے جاتے ہیںجو ہر اخبار میں مختلف ہوتے ہیں کیا یہ گرپ بندی ہے یا جیلس پن یا پھر کچھ اور؟؟یہی حساب تصویروں کا ہوتا ہے یعنی جس جس کے پاس جو جو پیپرس ہے بس انہی میں کوریج ملتی ہے۔ یہ صحافیوں کی آپس کی بے اتفاقی یا چپلقس کیا ان کے ساتھ زیادتی نہیں جنہوں نے آپ کو روپیہ عزت دی؟؟ہم چاہتے ہیں سرائے عالمگیر میں صحافت کا معیار بلند ہو۔اور اس کے لئے ہر ایک صحافی کو تگ و دو کرنی ہوگئی۔سرائے عالمگیر سمیت پورے پاکستان کے میں یہ ہی کچھ ہو رہا ہے ۔ اس کے باوجودکچھ صحافت کو عبادت کا درجہ بھی دینے والے کیسی سے پیچھے نہیں۔
پاکستان کی مٹی بڑی زرخیز ہے سرائے عالمگیر مٰیں صحافت سے ایسے لوگ بھی وابسطہ ہے جنکو کھری اور صاف ستھری صحافت سے عشق ہے ایسے صحافی نہ تو پولیس کے ٹاؤٹ ہیں نہ ہی بلیک میلر ۔ایسے صحافی ہی پاکستان کا سرمایہ اور فخر ہیں ارباب اعلیٰ سے التماس ہیں ملک احسان الہی صابری اور جہلم میں سینئر صحافی بابر راجپوت جیسے صحافی جہاں جہاں دوران ڈیوٹی ذخمی یا بیمار ہوئے ہیں سماجی سیاسی اور صحافی بھائیوں کی طرح حکومتی سطع پر بھی انکی مالی معاونتہونی چاہیے تاکہ کسی صحافی کی عذت نفس مجروح نہ ہو۔
صحافیوں کے بچوں کے لئے اعلیٰ تعلیمی اداروں اور ملازمت کے لئے مخصوص کہوٹہ ہونا چاہیے بلا امتیاز صحافیوں کو پانچ پانچ مرلے کا پلاٹ سرکاری طور پر ملنا چاہیے ۔اور جو صحافی بھائی ذندگی کی بازی ڈیوٹی کے دوران ہار جائیں انکے بال بچوں کو سر ڈھاپنے کے لئے چھت اور دو وقت کی روٹی عزت کے ساتھ مہیا کرنا صحافی تنظیموں کا نہیں حکومت کا کام ہے۔ ہم وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اور مسلم لیگ کی جماعت سمت دیگر ارباب اختیار سے گزارش کرتے ہیں نادرا سمارٹ کارڈ کی طرح صحافی بھائیوں کے لئے ٹھوس اقدام کئے جائیں تاکہ صحافت سے وابسطہ لوگ عزت کے ساتھ ملک و قوم کی خدمات سر انجام دے سکیں۔