تحریر : سید انور محمود جمرات 30 اپریل کی شام کراچی میں سابق صدر آصف زرداری کا ایک دوست ایس ایس پی ملیر راوُ انوار جو 17 یا 18 گریڈ کا ایک پولیس افسر ہے اُس نے ایک ہنگامی پریس کانفرنس کی اوربقول اُسکے دو دن قبل گرفتار کیے ہوئے دو افراد کو اُس پریس کانفرنس میں پیش کیا، ایس ایس پی راوُ انوار نے بتایا کہ یہ دونوں بھارت کی خفیہ ایجنسی ‘را’ کے تربیت یافتہ اور ایم کیو ایم کے کارکن ہیں۔ ایس ایس پی نے اپنی قابلیت کا بیوقوفانہ مظاہرہ کرتے ہوئے میڈیا کےنمایندوں کو بتایا سے کہ ان دہشتگردوں کے بھارت جانے اور بھارت سے واپسی کےراستے کون سے تھے، ایم کیو ایم کی فلاحی تنظیم خدمت خلق فاؤنڈیشن بھی ایم کیو ایم کے دہشتگردوں کو بھارت بھجوانے میں مدد فراہم کرتی ہےاور ان دہشتگردوں کو ایم کیو ایم کے کون سے عہدیدار ہدایت دیا کرتے تھے۔ ایس ایس پی راوُ انوار پر جب پریس کانفرنس کا پورا نشہ چڑھ گیا تو اُس نے ایم کیو ایم کے خلاف بولتے ہوئے کہا کہ ہمارے پاس بہت مضبوط اورٹھوس ثبوت موجود ہیں۔
ایم کیو ایم ایک دہشتگرد جماعت ہے جو دشمن ملک بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان میں دہشتگردی کی کارروائیوں میں ملوث ہے۔ ہمارا حکومت سے مطالبہ ہے کہ اس پر پابندی لگائی جائے۔ ایم کیو ایم دہشتگرد تنظیم طالبان سے بھی زیادہ خطرناک جماعت ہے۔ ٹی ٹی پی والے تو معصوم لوگوں کو مارتے ہیں جبکہ ایم کیو ایم تو دشمنوں کیساتھ ملی ہوئی ہے۔ اس پریس کانفرس کے کچھ ہی دیر بعد ٹی وی ٹاک شوز میں ایم کیو ایم کے مخالف جن کا تعلق مسلم لیگ( ن) اور پاکستان تحریک انصاف سے تھا وہ کہہ رہے تھے کہ یہ غلط طریقہ ہے ، صرف جماعت اسلامی اس پریس کانفرنس کی حمایت ایم کیو ایم پر لگنے والے الزامات کی وجہ سے کررہی تھی۔ ایس ایس پی راوُ انوار کو اُسکی پریس کانفرنس کے چند گھنٹے بعد ہی اُسکےعہدے سے ہٹا دیا گیا، شاید اس کھیل میں اُس کا کرداراتنا ہی تھا۔
ایس ایس پی راوُ انوار کی پریس کانفرنس کے بعد متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی کے ر کن حیدر عباس رضوی نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ایس ایس پی راوُ انوار کی پریس کانفرنس ایک سیاسی ڈرامہ ہے عوام کو سوچنا ہوگا کہ اس کا فائدہ کس کو ہوا ہے۔ را کا ایجنٹ ،جناح پور اور حکیم سعید قتل کیس پرانی کہانی ہے اور اس کے کردار بھی تبدیل نہیں کئے گئے ہیں۔ ایم کیو ایم ان الزامات کو مسترد کرتی ہے یہ الزامات جھوٹ کا پلندہ اور قوم سے مذاق ہے ۔ایم کیو ایم جب بھی قومی کردار ادا کرنا چاہتی ہے تو اس کو روک دیا جاتا ہے ۔ گزشتہ شب وزیر اعلیٰ ہاؤس میں ہونیوالی ملاقات کا جائزہ لیاجائے تو تمام صورتحال واضح ہو جائے گی۔ جس میں آصف زرداری، قائم علی شاہ کے علاوہ ایک اہم شخصیت بھی موجود تھی،میڈیا تیسری شخصیت کا پتا لگالیں،آج کی پریس کانفرنس سمجھ میں آجائیگی۔ یکم مئی کی رات کو جیو پر چلنے والے ایک پروگرام ‘آپس کی بات ’ میں نجم سیٹھی نے صاف طور پر کہا کہ وہ تیسری شخصیت ڈی جی رینجرز کی ہے اور ایم کیو ایم ایس ایس پی راوُ انوار کی پریس کانفرنس کو حکومت سندھ اور رینجرز کی ملی بھگت سمجھتی ہے۔
Altaf Hussain
ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نےجمرات 30 اپریل کی شب ایم کیو ایم کے مرکز ناین زیرو پر ایس ایس پی راوُ انوار کے الزامات کے جواب میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ آج ایک بھنگی نے مجھ پر جھوٹے الزامات لگائے۔ الطاف حسین نے کہا کہ بھنگی راوُ انوار زرداری کا دوست ہےیا فوج یا آئی ایس آئی کا چہیتا ہے معلوم کیا جائے کہ اس نے الزامات کس کے کہنے پر لگائے۔ تحقیقات کی جائے کہ ان الزامات کے پیچھے زرداری کا ہاتھ ہے یا قائم علی شاہ کا۔ الطاف حسین نے کہا کہ ایم کیو ایم کو 1992ء کے آپریشن میں بھی غدار اور را کا ایجنٹ کہا گیا تھا اور جب مہاجروں کے لیے تنظیم بنی تب بھی ان پر یہی لیبل لگایا گیا۔ اسی تقریر میں الطاف حسین نے ریڈ لاین کو عبور کرتے ہوئے کہا کہ “ہمیں روزانہ ‘را’ کا ایجنٹ بنا دیا جاتا ہے، ہمیں گاندھی کی اولاد ہونے کے طعنے دیئے گئے، ‘را’ والوں سے کہتا ہوں کہ ایک دفعہ ہمارا ساتھ تو دے دو، حقوق نہ ملے تو نہ ملک رہے گا اور نہ تمہاری چھڑیاں اور نہ تمہارے بلے۔ انہوں نے کہا کہ جو ہتھیار ڈالتے ہیں وہ محب وطن کہلاتے ہیں اور پاکستان کے بانیوں کو غدار کہا جاتا ہے، اسٹیبلشمنٹ کی جانب سےغریبوں اور مہاجروں پر ناانصافی بند کرنے کی ضرورت ہے، حکومت، آئی ایس آئی، فوج اور بیوروکریٹس پرتعیش زندگی مہاجروں کی قربانیوں کی وجہ سے ہی گزار رہے ہیں۔اپنی تقریر میں الطاف حسین نے پاکستانی فوج کو مخاطب ہوکر کہا کہ وہ اپنے اندر موجود مجرموں کو کیوں نہیں پکڑتی۔ اُن کا کہنا تھا کہ فوج کے بہت سے سابقہ افسر مجرمانہ کاررائیوں میں ملوث پائے گئے ہیں”۔
الطاف حسین کی تقریر کےبعد پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل عاصم باجوہ نے پاکستانی فوج اور اسکی قیادت کے خلاف ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی تقریر کو بہودہ اور ناقابلِ برداشت قرار دیتے ہوئے قانونی چارہ جوئی کرنے کا اعلان کیا۔ ٹوئٹر پر اپنے ایک بیان میں آئی ایس پی آر کے ترجمان نے لکھا ہے کہ الطاف حسین کا بیان بے ہودہ اورغیر ضروری ہے، فوجی قیادت سے متعلق اس طرح کے بیانات برداشت نہیں کیے جائیں گے، ملزمان کی گرفتاری پر اس طرح کا ردعمل ناقابل برداشت ہے، انھوں نے کہا کہ عوام کے جذبات بھڑکانے کے لیے میڈیا کا سہارا لیا گیا، عوام کو ریاستی ادارے اور فوجی قیادت کے خلاف اکسانے پر قانونی چارہ جوئی کی جائے گی، اُن کا مزید کہنا تھا کہ پاک فوج اور سیکیورٹی ادارے پیشہ ورانہ ذمےداریاں نبھاتے رہیں گے۔
یکم مئی کوایم کیوایم کی رابطہ کمیٹی کا کہناتھا کہ الطا ف حسین نے اپنے خطا ب میں عسکری قیادت پرکوئی تنقید نہیں کی بلکہ پاک افواج کے سپہ سالار جنرل راحیل شریف کی تعریف کی ۔ الطاف حسین نے آرمی چیف راحیل شریف کو مخاطب کر تے ہوئے کہا تھاکہ وہ ہمارے ساتھ انصاف کریں۔ دوسری طرف الطاف حسین نے یو ٹرن لیتے ہوئے کہا کہ میری گزشتہ رات کی تقریر کوسیاق وسباق سے ہٹ کر پڑھا گیا ہے ، میں نے ‘را’ سے مدد کی بات صرف اورصرف طنزیہ طورپر کہی تھی تاہم اگرمیرے ان جملوں سے قومی سلامتی کے اداروں اور محب وطن افراد کی دل آزاری ہوئی ہے تو میں ان سب سے خلوص دل کے ساتھ معافی کا طلبگار ہوں۔ پاکستان ہمارا وطن تھا ، ہمارا وطن ہے اور ہمارا وطن رہے گا ۔میں یہ بھی واضح کردوں کہ مہاجروں کی پاکستان کے سوا کسی اور سے کوئی وابستگی نہیں، ہمارا جینا مرنا پاکستان سے وابستہ ہے۔
Asim Bajwa
جیسا کہ پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل عاصم باجوہ نے ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی تقریر کو بہودہ اور ناقابلِ برداشت قرار دیتے ہوئے قانونی چارہ جوئی کرنے کا اعلان کیا ہےتو اُن کے اس اعلان کی پورئے ملک سے بھرپور تائید ہونا چاہیے، ایم کیو ایم کے قائدالطاف حسین اور اُن کی رابطہ کمیٹی کے خلاف سخت ترین کاروائی ہونی چاہیے لیکن شاید ایسا کچھ نہ ہو کیونکہ اس سے پہلے بھی جن جماعتوں یا افراد نے فوج کے ادارئے ، اُسکے سربراہ یا ریاست پاکستان کے خلاف جو کہنا چاہ وہ کہا، اُس میں مرحوم ولی خان بھی شامل ہیں اوراُنکی پارٹی کے لوگ بھی، مرحوم جی ایم سیدبھی اکثرپاکستان کے خلاف بولا کرتے تھے، آصف زرداری تو گڑھی خدا بخش جب بھی جاتے ہیں تو فوج کے خلاف ضرور بولتے ہیں، عمران خان آپریشن ضرب عضب سے پہلے تک فرماتےتھے کہ طالبان دہشتگردوں کے خلاف فوجی آپریشن نہیں ہونا چاہیے، جبکہ جماعت اسلامی کے سابق امیر منور حسن تو دہشتگرد درندئےحکیم اللہ محسود کو شہید اور پاک فوج کے شہیدوں کو کرائے کا فوجی قرار دئے چکے ہیں، اور جب فوج نے بڑئے احترام سے اس پر احتجاج کیا تو جماعت اسلامی والوں نے الٹی حکومت سے فوج کی شکایت کردی کہ فوج سیاست کررہی ہے۔ کتے کو شہید کہنے والے ملا فضل الرحمان نے یکم مئی کی شام کو کراچی میں تبت سینٹر کے مقام پر کھڑئے ہوکر صاف طور پر فوج کی مخالفت کرتے ہوئے فوجی عدالتوں کے خلاف بیان دیا۔
جیو نیوز کے اینکرحامد میر کے پروگرام ‘کیپٹل ٹاک’ میں شاید ہی کوئی ایسا پروگرام ملے جس میں حامد میر نے فوج کے خلاف کچھ نہ کہا ہو جبکہ جنگ گروپ میں کام کرنے والا انصار عباسی بڑھے دھڑلے سے فوج کے خلاف لکھتا ہے، یہ وہی انصار عباسی ہے جو جیو نیوز پر آٹھ گھنٹے تک آئی ایس آئی کے چیف کی تصویر لگواکر فوج کے خلاف پروپگنڈہ کرتا رہا۔ایک سرکاری ملازم اوریا مقبول جان جو طالبان کا بہت چہیتا ہے اکثر فوج کے خلاف لکھتا ہے، ایک سرکاری ملازم ہونے کے باوجود طالبانی دہشتگردوں کے نظریات کا پرچار کرتاہے۔ اسلام آباد کی لال مسجدتو آج بھی دہشتگردوں کی سب سے بڑی پناہ گاہ ہےاور اُسکا شقی القلب ناجائز خطیب مولانا عبدالعزیز جو نہ پاکستان کے آئین کو تسلیم کرتا ہے اور نہ ہی پشاورکی دہشتگردوی کو دہشتگردی کہتا ہے بلکہ الٹا اُسکا ذمہ دار پاک فوج کو کہتاہے، مولانا عبدالعزیز طالبان دہشت گردوں کا ایک ایسا نمایندہ ہے جو ملک کے دارلخلافہ میں بیٹھ کرنہ صرف طالبان بلکہ داعش کے ایجنٹ کے فرایض انجام دئے رہا ہے۔
میجر جنرل عاصم باجوہ صاحب یہ جو میں نے اوپرسیاسی جماعتوں اوردوسرئے لوگوں کا تذکرہ کیا ہے اگر ان لوگوں یا جماعتوں کے خلاف پاک فوج نے کبھی کوئی اقتدام کیا ہوتا تو ایک تیسرئے درجے کے سرکاری افسرایس ایس پی ملیر راوُ انوار کی پریس کانفرنس کو بنیاد بناکر الطاف حسین بقول آپکے وہ بہودہ اور ناقابلِ برداشت تقریر نہ کرتے اوروہ کچھ نہ کہتے جو اُنہیں نہیں کہنا چاہیے تھا ۔ وفاقی حکومت جسں نے اس واقعے پر مکمل خاموشی اختیار کی ہوئی ہے سوائے دو وزیروں کے شخصی بیانات کے، اُسکو معلوم کرنا چاہیے کہ آصف زرداری کے دوست ایس ایس پی ملیر راوُ انوار کی پریس کانفرنس کے پیچھے کس کا ہاتھ تھا اور اُسکے کیا مقاصد تھے۔